افغانستان کے شمالی شہر قندوز پر اچانک طالبان نے حملہ
کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے طالبان نے جیل پر حملہ کیا
اوررپورٹس کے مطابق پانچ سو قیدیوں کو چھڑا لیا یعنی اپنی طاقت میں براہ
راست پانچ سو افراد کا اضافہ کیا اگر یہ کہا جائے کہ یہ حملہ اشرف غنی کی
حکومت کے خلاف ایک سازش ہے تو شاید یہ غلط نہ ہو گا کیونکہ حالات و اقعات
کے مطابق اس کے قوی امکانات موجود ہیں ۔اس حملے کو مبینہ طور پر ملا
عبدالسلام اخوند اور ملا محمد حسن اخوند نے مرتب کیا ان دونوں طالبان
لیڈروں کو پاکستان نے 2010 میں گرفتار کرکے قید میں رکھا لیکن سابق افغان
صدر حامد کرزئی کی درخواست اور یقین دہانی پر ان دونوں کو رہا کر دیا گیا
اب غالب گمان یہی ہے کہ ان دونوں کو اشرف غنی حکومت کے خلاف استعمال کر لیا
گیا لیکن بھارت نواز حامد کرزئی کے ان قریبی ساتھیوں کے اس حملے اور قبضے
کے بعد ایک اور بھارت نواز لیڈر افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو ڈاکٹر عبداللہ
عبداللہ نے اس کا الزام پاکستان کے اوپر لگا دیا اور اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی کے اجلاس میں اپنی منفی سوچ کا بھرپور مظاہرہ کیا دراصل بھارت نے آج
کل اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر لگا رکھی ہیں کہ پاکستان کو کسی بھی
صورت، کسی بھی طور دہشت گرد ثابت کیا جائے جس کے لیے وہ کوئی فورم اور کوئی
موقع ضائع نہیں کرتا اور اپنے ساتھ دوسرے ممالک کو شامل کرنے کے لیے مسلسل
اور ہر سطح پر کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔ افغانستان اپنی کمزور حکومت،ناقص
منصوبہ بندی، دہشت گردی کے خلاف اپنے غیر سنجیدہ اقدامات کے باعث جن حالات
و مسائل کا شکار ہے بھارت کے ساتھ اس کا اتحاد بہت آسان تھا اور بھارت نے
اس چیز کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اس نے افغانستان میں مختلف انداز میں اپنی
موجودگی کو بڑھا یا ،یہ موجودگی تعمیر نو کے بہانے بہت آسانی سے ممکن تھی
لہٰذا اس نے کئی منصوبے وہاں شروع کیے اور اپنے ہزاروں باشندے وہاں
پہنچادیے، اپنے قونصل خانے بنائے، افغان فوج کی تربیت کے منصوبوں میں شامل
ہو کر فوج میں بھی دخیل ہوا اور اس طرح حکومت میں بھی اس کا عمل دخل ممکن
ہوا جس میں حامد کرزئی کا کردار بہت اہم ہے، اس کے بعد عبداللہ عبداللہ نے
اس کی ڈیوٹی سنبھال لی۔ عبداللہ عبداللہ جو جب 1986میں افغانستان سے نکلا
تو پشاور کی زمین نے اسے پناہ دی وہ وہاں سے مجاہدین کی مدد اور علاج کرتا
رہا لیکن اب جب انہی گروپوں کی دوسرے ناموں سے تشکیل ہوئی تو انہیں وہ
پاکستان کے کارندے کہتے ہیں اور ان کی کاروائیوں کا الزام پاکستان پر لگاتے
ہیں۔ افغانستان نے بھارت سے یہ تربیت بھی لے لی ہے کہ اپنا چور گھر میں
ڈھونڈنے سے پہلے ہمسایوں کے گھر پر دھاوا بول لیتے ہیں اور یوں اپنا گھر
بھی لٹ جاتا ہے۔ افغانستان اگر اپنی حالت ٹھیک کرنے کی کوشش کرے اور دہشت
گردی کے خلاف سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرے تو نہ صرف وہ خود ایک محفوظ ملک
بن جائے گا بلکہ پاکستان بھی ان تباہ کن حالات سے باہر آجائے گا جس نے
پچھلے پندرہ سال سے بڑی شدت سے ہمارے ملک کے پورے ڈھانچے کو ہلا کر رکھا
ہوا ہے۔ افغانستان اگر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اصل مسئلے
کا حل ڈھونڈے تو یقیناًیہ دونوں ممالک کے لیے بہترہوگا۔ قندوز حملے کو اگر
پاکستان کے نام لگانے کی بجائے اصل مجرم تلاش کرلیے جاتے تو یہ زیادہ اچھا
ہوتا اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان گروہوں میں مزید شدت پسند گروہوں کے مل
جانے کا ڈر لگا رہے گا بلکہ داعش آئی ایس آئی ایس اور دیگر ایسی ہی تنظیموں
نے نہ صرف افغانستان بلکہ اسی راستے پاکستان میں بھی اپنی موجودگی کا پتہ
دینا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت اگر افغانستان میں عبداللہ عبداللہ جیسے لوگ
بیان بازی اور بلیم گیم سے اجتناب کریں، بھارت اور ر ا کے جھانسے میں نہ
آئیں اور دونوں ممالک خلوص سے مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کریں
تو کوئی وجہ نہیں کہ دونوں ملک اور اس کے عوام دہشت گردی کے چنگل سے نہ نکل
سکیں ۔ افغانستان کے رہنما یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ پاکستان اور بھارت کا
معاملہ نہیں جہاں مذہب، ثقافت، تہذیب، معاشرت سب ہی کچھ مختلف ہے جبکہ
پاکستان اور افغانستان میں یہ سب کچھ مشترک ہے یہاں وجہ نزاع کچھ بھی نہیں۔
اگر آج بھارت ، امریکہ اور دیگر طاقتوں کا اثر ورسوخ افغانستان سے ختم ہو
جائے اور خاص کر بھارت کا پروپیگنڈا اور دہشت گردوں کے لیے اس کی مالی اور
تکنیکی امداد ختم ہو جائے تو ہم مل کر دہشت گردی کی جڑوں کو کاٹ سکتے ہیں
لیکن اس کے لیے افغان حکومتوں سے حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ جیسے
لوگوں کی بے دخلی ضروری ہے اور اشرف غنی کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ قندوز پر
حملے کے دو کردار ملا عبدالسلام اخوند اور ملا محمد حسن اخوند ہی کیوں چنے
گئے اور جب پاکستان انہیں گرفتار کر چکا تھا تو حامد کرزئی نے انہیں کیوں
چھڑایا اور افغانستان نے انہیں اتنی آزادی کیسے دی کہ وہ اتنے بڑے حملے کی
منصوبہ بندی کرکے اسے عملی جامہ پہنا سکے۔ افغانستان اگر پاکستان کے مطلوب
دہشت گردوں کو پناہ دیئے ہوئے ہے تو ظاہر ہے ساتھ میں ایک ایسی کھیپ بھی
تیار ہورہی ہے جو افغانستان کے لیے مستقبل میں بھی وہی مسائل پیدا کرتی رہے
گی جس کا وہ اب بھی سامنا کررہا ہے کیونکہ دہشت گرد کی صرف ایک شناخت اور
فطرت ہے شدت ، ظلم اوردہشت۔ افغانستان کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ وہ اپنے
فیصلے خود کرے بھارت جتناپاکستان کا دشمن ہے اتنا ہی افغانستان کا بھی
کیونکہ یہ دونوں مسلمان ممالک ہیں اور اگر وہ اپنے مسلمان شہریوں کا وجود
برداشت نہیں کر سکتا تو دوسرے مسلمان ممالک کا کیسے کرے گا لہٰذا اگر
افغانستان اپنے اصل دشمن کی پہچان کر لے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ |