آٹھ اکتوبر 2005جب قیامت صغر یٰ برپا ہوئی

تحریر :۔ واحد اقبال بٹ
حال احوال اپنی جگہ ، لیکن 8 اکتوبر 2005 جو قیامت صغریٰ برپا ہوئی ۔بجا ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ترجمان’’کھڑ کھڑانے والی ، کھڑکھڑانے والی کیاہے‘‘اور تم کیا جانو کہ کھڑ کھڑانے والی کیاہے ۔۔؟(وہ قیامت ہے )جس دن لوگ ایسے ہوں گے ، جیسے بکھرے ہوئے پتنگے اور پہاڑ ایسے ہوجائیں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگ برنگ کی اون ’’تو جس کے (اعمال ) کے وزن بھاری نکلیں گے وہ دل پسند عیش میں ہوگا۔ اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ اس کاٹھکانہ ہاویہ اور تم کیاسمجھتے کہ ہاویہ کیاہے ۔۔۔؟دمکتی ہوئی آگ ہے ۔

زلزلہ کو اگرچہ آج10 سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن آج بھی اس کے زخم ناسور بن کر رس رہے ہیں کہاجاتا ہے کہ وقت ہر زخم پر مرہم رکھ لیتاہے لیکن 08اکتوبر 2005 کے زلزلہ نے اس کہاوت کو پورا نہیں ہونے دیا۔ 80 ہزار افراد شہید ہزاروں زخمی ، معذور 15 لاکھ افراد بے گھر ہوچکے تھے ،زلزلہ کے بعد بڑے ماسٹر پلان بنائے گئے ، بھارتی، گجرات چین، ترکی میں آنیوالے زلزلوں سے تباہ ہونے والے شہروں کی تعمیر نو کے عمل اور ماسٹر پلان کو سامنے رکھا گیا لیکن اداروں اور شخصیات کے تصادم کمیشن کے لیے دست و گریبان رہے جس کی وجہ سے شہر کھنڈرات بنا رہا ۔ یہ تو بھلا ہو ترکی والوں کا جنہوں نے یونیورسٹی ، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کیمپس اور دیگر چند ادارے بنا دئیے ، متحدہ عرب امارات نے راولاکوٹ اور مظفرآباد میں سی ایم ایچ تعمیر کروادیئے۔ سعودیہ نے شیلٹر لگا دئیے تعمیر وہی ہوئی جو ڈونرز نے خود بنا کر دی ۔ جو فنڈز ایرا کے پاس تھے ان کا حال ایراء ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے شہزادوں کے شاہانہ انداز سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ایراء کے انتظامی اخراجات 2ارب سے تجاوز کر چکے تھے ۔ لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر تفریح کرنے والوں کو متاثرین کے دکھوں کا کیا احساس ، ہاں اگرچہ سابق صدر مشر ف کا نام نہ لینا زیادتی ہو گی ۔ سابق جی ا و سی مری خالد نواز جنجوعہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ پرویز مشرف وہ شخصیت تھے جنہوں نے اس دوران متاثرین کی اشک شوئی کیلئے لا تعداد دورے کیئے زندگی اور موت کا کھیل ازل سے چلا آرہاہے ۔لیکن کبھی کبھی اس قدر خوفناک اور تکلیف دہ ہو جاتا ہے کہ زندگیوں کی سسکیاں صدیوں تک سنائی دیتی ہیں ۔ آٹھ اکتوبر2005کا زلزلہ بھی ایسی ہی درد ناک یاد بن کر رہ گیا ۔ آج جب قیامت صغریٰ کو گزرے دس سال ہو گئے آنسؤؤں نے پھر سے بہنا شروع کر دیا ۔ قبرستانوں میں پھر سے رونق ہو گئی ۔ اگر بتیوں کی مہک اور دیوں کی روشنی تیز ہو گئی ۔ ہر گھر ماتم کدہ بن گیا ہے آٹھ اکتوبر 2005نے ماحول کو سوگوار کر دیا ہے ۔ خوشیاں غموں میں اور ہنسی آنسؤں میں تبدیل ہو گئی ہے ہر گھر کی ایک کہانی ہے ایک داستان ہے ہر داستان میں ہزاروں آہیں ، اور ہزاروں فریادیں ہیں ، لیکن یہ فریادیں کسی ایک انسان کی دوسرے انسان کیلئے نہیں بلکہ اجتماعی دکھ کی ترجمانی ہیں ۔ آٹھ اکتوبر کا سورج اپنی کرنوں کے ساتھ وادی کشمیر کی آزاد فضاؤں میں اترا تو سانسیں معلق ہو کر رہ گئیں ، حسرت و یاس میں ڈوبی ہوئی آنکھوں میں یقین کے بجائے مصائب و آلام کے چراغ جلنے لگے زندگی کے اطراف میں موت کے سائے رقص کرنے لگے زندگی کی چیخ و پکار دکھوں کے ملبے تلے دب کر رہ گئیں ہونٹوں پر چند لمحے پہلے کھیلنے والی مسکراہٹیں دم توڑ گئیں ، خواب اشکوں کی صورت آنکھوں کی دہلیز سے نکل کر فرش خاک پر گر کر مر گئے ۔ گرد و غبار میں فضاء اور زمین کے درمیان ایک چادر تان لی۔ اس قیامت نے ہر عمر اور ہر جنس کو اپنا شکار بنایا ۔ خصوصا طلباء و طالبات اور اساتذہ جنہیں تاک رکھا تھا معصوم بچے سکولوں کی چار دیواری میں ہی سو گئے، قلم لکھتے لکھتے خون میں ڈوب گئے سبق کی آوازیں سسکیوں میں تبدیل ہو گئیں پھر تھم گئیں، ننھے منے ہاتھ دیواروں کو نہ روک سکے چھتوں کو نہ سہہ سکے اور نہ بنا آواز کے ہی واپس لوٹ گئے اپنی ماؤں سے ملے بغیراپنا درد بتائے بغیر ، باتیں یہیں ختم نہ ہوئیں جو بچ گئے انہیں چھتوں اور دیواروں نے اس طرح پناہ میں لے لیا کہ ان کا باہر نکلنا ناممکن ہو گیا۔ کسی نے ہاتھ تو کسی کی ٹانگ ، کسی کی قمر اور کسی کا کندھا اس طرح دبوچے رکھا کہ باوجود کوشش کے بیکار ، افرا تفری کا وہ عالم کہ الامان ہر کوئی بھاگ رہا تھا ہر کوئی چیخ رہا تھا اپنے پیاروں کی تلاش میں گھر کا ہر فرد نکل چکا تھا لیکن عجیب حالات تھے ۔ کہ ارد گرد سے بے خبر تھا صرف ا س بات کی فکر کہ نہ جانے ہمارے پیارے کس حال میں ہونگے ، لاشیں زمین پر پڑی تھیں ۔ بچے ہوئے لوگ فریادیں کر کے بلا رہے تھے کہ خدا کے لیے ہمیں باہر نکالو۔ لیکن کسی کو کسی کی آواز سنائی نہ دے رہی تھی ۔ چند ہی لوگ ایسے تھے جو کو شش کر رہے تھے۔ گھنٹے دو گھنٹے میں ہی یہ بات جنگل میں آگ کی طرح ملک بھر کی طرح پھیل گئی کہ شہر کے فلاں فلاں علاقے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں درمیانی راستے ختم ہو گئے چھوٹی بڑی سڑکیں ختم ہو گئیں ۔ وہ جگہ جہاں چھ سے پندرہ منٹ میں پہنچا جا سکتا تھا ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں پہنچنا مشکل ہو گیا اندروں شہر کے حالات اس سے بھی مشکل تر تھے کہ تنگ گلیوں اور گنجان آبادی نے موت کی شرح میں کئی گنا اضافہ کیا بازار اور گلیاں لاشوں اور زخمیوں سے بھرے جا چکے تھے ۔ عمارتوں کے ملبے نے اپنی جگہ چھوڑ کر پورا علاقہ ہی قبضہ میں لے لیا تھا بھاگ دورڑ کے باعث کشادہ سڑکیں تنگ پڑ گئی تھیں ۔ پھر آہستہ آہستہ شام کے سائے پھیلنے لگے گردو غبار کا طوفان سمٹا تو بہت کچھ ختم ہو چکا تھا ۔ بازار کی رونقیں عمارتوں کا طمطراق سب ملیا میٹ ہو چکا تھا چند خوش نصیب باخیریت و عافیت گھر پہنچ چکے تھے باقی در ماندہ حال رحمت الہیٰ کے منتظر تھے ، ملبوں سے کچھ اونچی اور کچھ دھمی آوازیں مدد کوپکار رہی تھیں ، اندھیرا چھا چکا توروشنی سے بے نوری کااحساس بڑھ گیا، پوری رات بغیر چھت اور کسی آسرے کے لوگوں نے روتے ، کہراتے ہوئے کھلے آسمان تلے معصوم بچوں، بیماروں ، زخمیوں اور لاشوں کیساتھ گزاری ، حد تویہ تھی کہ میتیں زیاد اور سوگوار کم تھے ، باپ نے بیٹے کی لاش تن تنہا دفنا دی ، ماں نے جواں بیٹی کوزمین کی چادر اوڑھادی ، میت کو دفنانے کیلئے نہ توکفن تھا اور نہ ہی غسل کیلئے پانی ، ایک ایک قبر میں کئی کئی جنازے اجتماعی دفن کیے گئے ایک ایک صحن میں کئی کئی لاشیں اپنے رونے والوں کوتلاش کررہی تھیں ، آوازیں اور آہیں گلوں میں گھٹ کررہ گئی تھیں،ساری رات آنکھیں اور آسمان روتا رہا ، خدا کو خود بھی اس قیامت کااحساس ہوا ہوگا۔کہ آسمان نے اپنے آنسو بند نہ کیئے اگلی صبح بھی روشن تھی لیکن شہر ویران ، لوگ اپنے پیاروں کوڈھونڈ نے پھر نکل پڑے اور شام تک لاشیں کندھوں پراٹھائے دہلیز پرمائیں بچوں کو اور بچے ماؤں کو ڈھونڈ رہے تھے کہ باپ منظر سے گم ہوچکاتھا توکہیں بیٹی کاپتہ نہ تھا ، کہیں ماں نے دم توڑ دیا توکہیں معصوم بچے نے تکلیف اور درد کاذکر کے بغیر آنکھیں بند کرلیں ۔ہائے !۔وہ گھرانے کہ جن کے تمام مکین ہی چپ سادھ گئے ہائے وہ معصوم بچے کہ جن کی ایک آواز ؛پرماں لپک کرپہنچتی تھی ، ہزاروں آوازوں پر بھی جواب نہ دیا۔وہ ماں جس نے خون سے لتھڑے اپنے بچے کاسرگود میں رکھ کر آسمان کی طرف دیکھا ہائے وہ باپ کہ بے بسی میں بیٹی کی آوازیں سنتا رہا اور ملبے سے نکلے اس کے ہاتھ کو ہاتھ میں لیکر سردیوار سے ٹکراتا رہا اور ہاں وہ باپ !وہ باپ کہ جس کے بیٹے کی ٹانگ بری طرح پھنسنے کے باعث اذیت برداشت نہ ہوسکی توٹانگ کاٹ کر بیٹے کو کندھوں اور لاد کر گھر کی طرف دوڑا آج اس شہر کے ہرگھر کی ایک کہنانی اور ہرفرد کی ایک کہانی ہے ۔ آج سب کہانیاں از سرنو اپنی یاد کوتازہ کرواناچاہتی ہیں۔ذرائع مواصلاحات وبرقیات کانظام تو پہلے ہی درم برہم ہوچکاتھا، مریض اور لاشیں بے کسی اور کسمپرسی کا شکار کہ نہ میسحا تھے اور نہ مطب ، شہر کابڑا اور مرکزی ہسپتال اپنے مریضوں سمیت خاموش ہوچکا تھا۔کہ وہ مریض جنہیں بستروں سے اٹھنے کی فرصت بھی نہ مل سکی ۔

اور پھررحمت الہیٰ نے ایک اور رنگ دکھایاکہ سرشام ہی شدید ترین بارش کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ ایسی بارش کہ جس نے نہ تھمنے کا عزم کررکھا تھا۔ مخدوش حالات کامزید مخدوش کردیا۔بارش کی تیزی بجلی کی عدم دستیابی نے ملکر حالا ت کومزید بدتر کردیا۔ اس پرمستزادیہ کہ زلزلے کے جھٹکوں کاتواتر سے آنا لوگ چھتوں کے نیچے جانے سے ڈرتے تھے توباہر بارش نے سب کے حواس چھین لیے سردی اور خوف نے بے بسی انتہاء کو پہنچادی ، روزے دار لوگوں نے بغیر افطار کیئے ہی وقت گزار لیا۔ نہ بھوک رہی نہ پیاس ، بس خوف اور بے بسی ہی پوری طاقت کیساتھ موجود تھی ۔ ماں کے سامنے ایک وقت میں تین تین اولادیں موت کی نیندسورہی تھیں ، بھوک پیاس سے نڈھال معصوم بچے خوراک کے انتظار میں بے جان ہوتے جارہے تھے ۔ تین دن تک اہل شہر کے حالات سے بیرونی دنیا بے خبر رہی ٹیلی فون کا درہم برہم ہونے کے باعث لوگ مدد سے عاری رہے ۔ لاشیں ابھی ملبے میں دبی تھیں ، کچھ زندہ لوگ سسکتے دم توڑرہے تھے ان کے پیارے ان کے سامنے بے بس کھڑے تھے لیکن افسوس کہ کچھ نہ کرسکے پلر اورلنٹر اٹھانا ان کے بس کی بات نہ تھی اور نہ ہی ایسے حالات تھے ۔ کہ کچھ کرپاتے توپھر بیرونی دنیا کوخبر ہوئی فوج اور دیگر امدادی ادروں نے اس خطہ کارخ کیا۔ لوگ اپنے اپنے پیاروں کیلئے رو رو کر بے حال ہوچکے تھے ۔ ماحول سوگوار اور شہر مٹی کاڈھیر بن گیاتھا۔ شہر کے باسیوں کیلئے زندگی حسرت بن گئی ،یہ سب ہوگیا آہستہ آہستہ زندگی نے سانس لینا شروع کردیا۔ بچے کچھے لوگوں نے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیئے ۔بچوں نے رو ، روکر زندہ ہونے کااحساس دلوایا۔پیٹ کے دوزخ نے ایندھن مانگا۔توحرکت پیداہوئی ۔پوری پوری بستیاں زمین کاحصہ بن گئیں تھیںٰ۔لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ لوگ اس قیامت کوسہہ گئے ، اس دنیا سے باہر جب کوئی ایسی اجتماعی قیامت آتی ہے تو، ، ٹرماسنینٹر بنتے ہیں جہاں لوگوں کانفسیات او ذہنی مسائل کاسامنا ہوتا ہے ۔ لیکن مومنوں نے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا رکھا۔بڑے بڑے دکھ سہہ لیے خواہ وہ دکھ جانی تھایامالی یاملکیتی ، گھر کے مکین نہ رہے کاروبار نہ رہا، اور تواور گھر ہی نہ رہاپھر بھی لوگوں نے امید نہ چھوڑی پورا شہر ٹینٹ ویلج بن گیا۔ بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے خیمے کے ایک کمرے تک محدود ہوگے۔پھر بھی صبر سے کام لیا۔ آ ج شہر پھر سے آباد ہے۔

اگر چہ اس وقت زلزلہ متاثرہ علاقوں کی تعمیر کیلئے ایراء سیراء کے نام پر ادارے کاقیام عمل میں لایاور ماسٹر پلان کے تحت آزادکشمیر کے متاثرہ علاقوں ، راولاکوٹ ، باغ ، گڑھی دوپٹہ ، مظفرآباد کی تعمیر کرنی تھی لیکن ماضی کی حکومتوں نے اسے مذاق سمجھا اور فنڈز کاضیاع ہوگیا۔ الحمداﷲ آزادکشمیر میں جولائی 2011 ؁ ء میں بننے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے 70 فیصد تعمیرات مکمل کر کے خطہ کے شہریوں کوجینا کی روشن امید دی ۔ ماسٹر پلان کے تحت خطہ کی سڑکوں کی تعمیر ، اداروں کی اپ گریڈیشن ہونی تھی لیکن اس کی جگہ پی پی حکومت نے لے لیا، مرد حر وزیراعظم آزادکشمیر چودھری عبدالمجید کی قیادت میں بننے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے آزادکشمیر کی مرکزی شاہراؤں کی مرمتی کیساتھ ضلعی سطح پر لنک سڑکوں کاجال بچھایا،سفری سہولت کی فراہمی کیلئے خطہ بھر میں چھوٹے پلوں سمیت بڑے بڑے پلوں کی تعمیر اور تکمیل یقینی بنائی ۔شہریوں کو تعلیمی سہولیات بہم پہنچانے کیلئے 3 میڈیکل کالجز ، وویمن یونیورسٹیاں ، ایکسپریس وے ، اور مختلف علاقہ جات میں متعدد ہائیڈل پراجیکٹس جیسے میگاپراجیکٹس لگاکر شہریوں کیساتھ نصف صدی سے ہونیوالی اناانصافیوں کاازلہ کردیا۔راقم 08 اکتوبر کے شہداء کی درجات بلندی ، پسماندگان کیلئے صبروجمیل اور موجودہ نظا م حکومت کے استحکام کیلئے رب العزت سے دعاگو ہے کہ انسانیت کے جذبہ سے سرشار نظام کو تاقیامت قائم رکھے۔
Ashraf Tubbsum
About the Author: Ashraf Tubbsum Read More Articles by Ashraf Tubbsum: 6 Articles with 6185 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.