طاقت۔۔۔۔حضرت علی ؓ کا فرمان
(Dr M Abdullah Tabasum, )
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے پوچھا
گیا کہ انسان پر برا وقت کب بنتا ہے ۔۔؟حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے جب
وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا سمجھنے لگے ،آج کچھ تین چیزوں کی تکرار ہو
جائے ،مشلا تین چیزیں ایک جگہ پرورش پاتی ہیں پھول،کانٹے اور خوشبو،تین
چیزوں کو بڑھانا چائیے عقل، ہمت اورمحبت،تین چیزیں ہر ایک کی جدا ہوتی ہیں
صورت،سیرت اور قسمت اسی طرح تین چیزیں انسان کو تباہ و بربادکر دیتی ہیں
حرص،حسد اور غم بھلا یہ کیسی سچائی ہے کہ تین چیزیں زندگی میں صرف ایک بار
ملتی ہیں والدین ،حسن اور زندگی اور یہ تمام تین تین چیزیں زندگی سے تعلق
رکھتی ہیں،وہی زندگی جس کے بارے میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔کہ
’’اس حلال میں حساب ہے اور حرام میں عذاب ہے‘‘ایک واقعہ پہلے اور پھر فیصلہ
کریں کہ ہم دنیا بھر میں کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔؟ ہمارا طرز زندگی کیوں مذاق
بنتا جا رہا ہے واقعہ کچھ یوں ہے کہ جرمنی کے ایک ریسٹورنٹ میں کچھ
پاکستانی نوجوان کھانا کھانے کی غرض سے داخل ہوئے بھوک کی شدت کی وجہ سے
نوجوان نے کھانا کا آرڈر فراخدالی سے دیا اور تناول بھی کر لیا گیا ،بل کی
ادائیگی کے بعد جب یہ لوگ جانے لگے تو قریبی میز پر بیٹھی دو دارز عمر جرمن
عورتوں نے ان نوجوانوں کو آواز دی اور کہا کہزیادہ کھانا منگوانے اور اس کے
ضائع کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تو جوابا نوجوانوں نے کہا کہ
’’ہماری مرضی ہے ہم نے تمہارے پیسوں سے نہیں منگوایا ،یہ بات سن کر اس ضعیف
خاتون نے کسی کو فون کیا تو تھوڑی دیر میں ایک باوردی شخص آیا جو سوشل
سیکورٹی محکمے کا اعلی افسر تھا اس نے تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد
ان نوجوانون کو پچاس مارک جرمانہ کیا اور موقع پر ہی وصول کیا ۔۔۔۔جرمانہ
وصول کرتے ہوئے اس افسر نے نوجوانوں کو نصحیت کی کہ ’’آئندہ جب جرمنی میں
کھانا طلب کر تو اتنا ہی منگوؤ جتنا کھا سکو۔۔۔اور یاد رکھو تمہارے پاس بے
شک پیسوں کی بھرمار ہے مگر یاد رکھو کہ وسائل معاشرے کی امانت ہوتے ہیں اور
ان کا بیدردی سے استعمال جرم ہے‘‘طاقت کا توازن بھی عجیب ہے جو وقت کے ساتھ
ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے ،مشلا’’سانپ جب زندہ ہوتا ہے تو وہ چونٹیاں کھا
جاتا ہے اور جب سانپ مر جائے تو چونٹیاں اسے کھاتی ہیں۔۔۔۔طاقت کے اس عجیب
توازن کی وضاحت حضرت علی ؓ نے بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے کہ ’’انسان کی
زندگی ایسے ہی ہے جیسے دوروز،ان میں سے ایک دن مقدر انسان کے ساتھ اور
دوسرا دن مقدر مخالفت میں ہوتا ہے تو جس دن مقدر ساتھ ہو تو اس دن غرور مت
کرو اور جس دن مقدر مخالفت میں ہو تو اس دن صبر کرو ‘‘اب ذرا چینیون کی بھی
سن لیں مشلا چین کی کیمونسٹ پارٹی نے ایک ایسا انسٹیٹیوت قائم کیا ہے جہاں
مشیروں ،وزیروں اور چین کی اعلی قیادت کی تربیت کی جاتی ہے چین کے آنے والے
صدر کو پانچ سال پہلے ہی صدر بننے کی تریت دی جاتی ہے چین کے راہنما مازوئے
تنگ انگریزی آنے کے باوجود نہیں بولتے تھے جبکہ ہمارے ہاں حکمرانون کو
انگریزی آئے یا نہ آئے بولنی ضرور ہے ۔۔۔چین میں افسر اور مزدور ایک ساتھ
بیٹھ کے ایک جیسا کھانا کھاتے ہیں ،یہ انسانی مساوات کا یک سبق ہے چین میں
چوری کرنے والے کو سر پر گولی مار دی جاتی ہے اور جب تک ورثاء گولی کا
معاوضہ ادا نہیں کرتے لاش نہیں لے جاسکتے ہیں چینی کہاوت ہے کہ اگر ایک سال
کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو مکئی اگائیں اور اگر دس سال کی منصوبہ بندی کرنی
ہے تو درخت لگائیں اور اگر صدیوں کی تو پھر لوگوں کو تربیت دیں اور ان کو
تعلیم دو جبکہ ہمارے ہاں تو تعلیم کو یکسر نظر انداز کر کے سارا پیسہ بڑے
کمیشن کی غرض سے بڑے منصوبوں میں جھونک دیا جاتا ہے چین کے 97فیصد نوجوان
چین میں ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کا تعلیمی نظام بہت اعلی ہے اور تعلیمی
اخراجات بہت کم ہیں اس وقت چین کہاں کھرا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا
لیں کہ چین میں اس وقت پچاس ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں ان میں
سے صرف 35ہزار شنگھائی میں ہیں ،چین کے لوگ دیوار چین کو اہمیت نہیں دیتے
ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم خود دیوار چین بن
جائیں گئے چین کے رہنما مازوئے تنگ نے اپنی قوم کو وصیت کی تھی کہ میری
برسی میں سوگ والے دن اپنی فیکٹریاں اور کاروباری ادارے بند نہ کرنا بلکہ
میری برسی پر دو گھنٹے زاہد کام کرنا ہے۔۔۔۔۔۔جب کہ ہمارے ہاں ورلڈ ریکارڈ
ہے جعلی دودھ والا ہڑتال پر ہے۔۔۔ڈاکٹرز ہڑتال پر،تاجر ہڑتال پر،سرکاری
ملازمین پڑتال پر غرضیکہ ہر بندہ ہڑتال ہے ۔۔۔بس موقع چائیے۔۔۔۔
جبکہ وہاں دو گھنٹے ایکسڑا کام کرنے کے مزدعر معاوضہ بھی نہیں لیتے ہیں وہ
یہ کام چین کی خدمت کے طور پر کرتے ہیں ،وہ جس دن احتجاج کرتے ہیں وہ چوبیس
گھنٹے کام کرتے ہیں ہماری طرح ہر کام چھوڑ کر نہیں بیٹھ جاتے ہیں ،قارئین
اکرام آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہم سال میں کتنا وقت ضائع کرتے ہیں ہمارے
ہاں تعلیم پر جتنا خرچ ہوتا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتا ہے
۔۔۔۔جبکہ ہم تو کھانا بھی ضائع کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اور ہمارے ہاں تو افسر اور
مزدور ایک جیسا کھانا اور ایک ساتھ ملکر بھی نہیں کھاتے ہیں۔۔۔
|
|