سورج ایک نارنگی کی طرح نارنجی تھا

جب بات مہذب کی ہو اور جب اس میں شدت لسانیت کی آجائے تو قوم پرستی کے ساتھ انتہا پسندی بنکررگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگتی ہے-

ایک واقعہ بھارتی ریاست راجھستان کے شہرجودھ پور کے سرکاری اسکول میں معصوم بچے کو"دلت"ہونے کی سزا ملی ، دلت بچے پر اعلی جاٹ کے بچوں کی پلیٹ چھونے پر کلاس ٹیچر نے بُری طرح تشدد کیا ، بھارت کی ایک مقامی این جی او کے مطابق بھارت میں ہرہفتے 13دِلت قتل کردیئے جاتے ہیں ۔بھارت میں ہی ایک چودہ سالہ لڑکی کو سر پر ڈوپٹہ نہ پہننے پر زندہ جلا دیا گیا ۔ میرے لئے ایسے بیشتر واقعات سوہان روح بن جاتے ہیں جب کسی صنف نازک پر ظلم کی داستانیں ہم خودرد کہلانے والے رقم کرتے ہیں۔ میں Freewayسے Wilshire Wastپر نکل ٓایا اور پُل پر سے گذرتے ہوئے پہلی ٹریگ لائٹ پر westwood villageکیلئے لفٹ ٹرن لیکر تین بلاک کے بعد میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس (اکلا) کے کیمپس میں داخل ہو رہا تھاـ"اکلا" ، امریکہ کی دس مشہور یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے اور میرے دووست احباب کی محافل بھی ا کثریہیں جما کرتی تھیں میرے بہترین موضاعات میں فلسفہ تھا ، اکلا یونیورسٹی گو کہ ایک پبلک یونیورسٹی ہے اُس وقت کی فیکلٹی کا اسٹاف 33ہزار سے زائد تھی جن میں 5نوبل پرائز یافتہ بھی شامل ہیں ، میرے لئے سب سے بڑی دلچسپی کا سامنا اس کی لائیبری کی سات ملین کتابیں تھیں اس میں 174بلڈنگ جو کہ چار سو انیس ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی۔

تعلیم مخصوصہ سے مراد : تعلیم کا استعمال، کسی مقصد کو حاصل کرنے میں ، صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔تعلیم ایک ایسی قوت کا نام ہے جب ایسے حصول کرکے ایک قوت بنا لیا جاتا ہے۔سینکڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اسکول نہ جائے اور وہاں تعلیم حاصل نہ کرے تو تو وہ تعلیم یافتہ نہیں بن سکتا ، دراصل ایجوکیشنایک اٹالین"ایڈوکو"سے بنی ہے جس کے معنی ’ اندر سے ابھرنا ‘ انکشاف کرنا ‘ ضروری یہ بھی نہیں کہ جس کے پاس تعلیم عامہ کی بہتات ہو تو اس تعلیم مخصوصہ کی بنا پر ایسے تعلیم یافتہ ہی سمجھا جاسکتا ہے ۔دراصل تعلیم یافتہ وہ شخص ہے جس نے اپنے ذہن کو تربیت دی ہے ۔ تعلیم شخص کسی کا حق مارے بغیر ہر اس شخص کسی کو حق مارے بغیر ہر اس چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے۔یہاں میں ایک ایسے دوست کا ذکر ضرور کروں گا ۔ مسٹرجو گن زاؤلس کالج کے طالب علم تھے ، عمومی طور پر تعلیم کے نظام پر میری ان سے بڑی تنقیدی نشستیں ہوتی تھیں ، ایک تو میرے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ کہ میں مسلمان بھی تھا ور پختون بھی تھا س لئے مغربی معاشرے میں ان کی اقدار کے ساتھ گفت و شنید میں اپنی عادت کی مطابق کچھ جذباتی بھی ہوجاتا تھا لیکن مقصد تعمیری تحقیق کا تھا س لئے ہم ایک دوسرے کو برداشت کرلیا کرتے تھے۔ اچانک بیٹھے بیٹھے ایک پروگرام دماغ میں آیا کہ از خود ایک کالج بنا کر اس میں پرانے رسمی طریق تعلیم کے بجائے جدید اور موثر تعلیم نظام نافذ کریں گے ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس رقم تو بالکل نہیں تھی لیکن خیالات کی بھرمار بہت تھی ، کوئی ایک ملین سے دو ملین ڈالر کا تخمینہ ابتدائی طور پر لگایا گیا تھا ۔ ایک دن ڈاکٹرنے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں بھی وہی سوچ رہا ہوں ، خان جو تم سوچ رہو، میں نے جواب دیا کہ دو سالوں میں اس کے علاوہ سوچنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں سوجھ رہا۔پر ایک دم ڈاکٹر میں ایک ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی اور اس نے کہا کہ میں ایک ہفتے میں ایک ملین ڈالراکٹھا کرلوں گا ، میں حیرانگی سے اس کی جانب دیکھنے لگا کہ دو سال کا عرصہ یہی سوچتے ہوئے گذار دیا اب یکدم ایسا کیا ہوا ۔ بہرحال ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد تھا ، اس نے مقامی اخبارات میں ایک اشتہار چھپوادیا کہ اگر میرے پاس ایک ملین ڈالر ہوں تو میں یہ کام کروں گا " ایک تقریب میں جلد بازی میں وہ اپنا وعظ گھر بھول آیا تھا لیکن جوش و جذبے نے اس کے الفاظوں نے ایک شخص مسٹر آرمر کو بہت متاثر کیا اور اس نے ڈاکٹر گن زاؤلس کو اپنیدفتر بلا کر ایک ملین ڈالر کا چیک دے دیا۔آج اس کالج کا نام ILLLinois Institute of Technology ہے۔
بونا وینچر ہوٹل میں آرگنائزیشن پر ایک سلائیڈ پریزینٹیشن کرنا تھی بونا وینچر ہوٹل کا شمار پانچ اسٹار ہوٹل میں ہوتا ہے ، بہت خوبصورت25منزلہ سلنڈریکل بلڈنگ ہے۔تمام بیرونی کھڑکھیاں سلور رنگ کی ہے مگر شیشے کی بنی ہوئی ہیں ۔ یہ ہوٹل ڈاونٹاون لاس اینجلس کے فانیشنل دسٹریکٹ میں ہے ۔ اسکاریولیوینگ لاؤنچ اور روف ٹاپ اسٹک ہاؤس ، ایل اے پرائم سے آپ لاس انجلس کا خوبصورتنظارہ کرسکتے ہیں ۔ میں نے appetizerکیلئے lobsterlobster briscuit اورMain Courseکیلئے newyork Sirlion Steak ساتھی دوست سادیہ کیلئے baked Oyster Rockfeller, Chilean, tiramisuکا آرڈر دیا۔

دراصل ثابتقدمی ہی کامیابی کی کنجی ہے ہر تکلیف میں ثابت قدم رہنے والے ہی کامیابی کی منزل کو پا لیتے ہیں ، اپنی قوت ارادی اورصحیح عادت کی بنا پر ہی ہمیں کامیابی نصیب ہوتی ہے ۔ میرے ہمدرد طاہر نجمی صاحب اکثر مجھے کہا کرتے ہیں کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔ تو اس کے اصل معنوں سے میں کماحقہ آگاہ ہوں ، لیکن کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کی مجبوری مجھے انا پرستی نظر آتی ہے لیکن دراصل یہ انا پرستی نہیں بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو کسی کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔

1932ء میں ’ محمت ایسادبے‘ نے پیغمبر اسلام محمد ﷺ پر ایک کتاب لکھی "حیرت انگیز محمد صلی اﷲ علیہ وسلم " ہے۔ نبی اکرم ﷺ ایک نبی رسول خدا تھے ۔ وہ صوفی نہیں تھے ، انھوں نے اسکول مدرسہ کی تعلیم حاصل نہیں انھوں نے تو اسلام کی تبلیغ بھی چالیس سال قبل شروع نہیں کی تھی لیکن جب انھوں نے سچائی کا اپنی قوم کو بتایا تو کسی نے کیا مذاق اڑایا اور کسی نے کیا ایذا دینے کی کوشش کی ، نعوذ باﷲ انھیں ﷺ کو خطبی ، پاگل،بے وقوف، بچوں نے اڑنگے لگائے عورتوں نے غلاظت ، شہر مکہ سے ہجرت پر مجبور کیا ، نبی اکرم ﷺ کو ماننے والوں کی جائیدادیں چھین لیں۔ دس سال تک پھیلانے کی کوشش کرنے کے بعد آپ و صرف گنے چنے لوگ تھے ، جنوں نے اسلام قبول کیا وہ غربت میں رہے اور تحقیر آمیز زندگی بسر کر رہے تھے۔مگر جب ثابت قدم رہے تو اگلے دس میں آپ ﷺ سارے عرب کے حکمران اور دنیا کے آخری صاحب الکتاب دین کے پیغمبر بن گئے۔ضمناََ ایک اور ذکر کرتے چلوں کہ پاکستانی امریکن کمیونٹی کے اہم و نمائندہ تنظیم پاکستان لیگ آف امریکہ کے ایک پروگرام گرینڈ روز ویلٹ بال روم میں کچھ وقت کیلئے رکا اورپھر نکل آیا۔ اس تقریب کے حوالے سے کچھ کہنا نہیں چاہتا ۔ آج کا کالم دراصل کراچی علاقے بنارس میں واقع گورنمنٹ ڈگری سائنس ایند کامرس کالج ( عبدالحامد بدایونی کالج) کو لینڈ مافیا کی جانب سے قبضہ کرنے کیلئے نذر آتش کرنے کا المیہ سے متعلق ہے ۔ 15 ایکٹر زمین پر پہلے بکرا پیڑی اور جوتوں کی مارکیٹ بنا کر قبضہ کرلیا گیا اور پھر یہیں پر بس نہیں چلا بلکہ کالج پر بھی قبضہ کرنے کیلئے ایسے آگ لگا دی گئی پندرہ ایکڑ زمین پر قبضے کیلئے تقریباََ ہر سیاسی و مذہبی جماعت کو لینڈ مافیا نے حصہ دیا تھا ۔ یہاں تک ایک قوم پرست پارٹی کا صوبائی ہیڈ کوارٹر بھی اسی زمین پر قائم ہے اور اس پارٹی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری کہہ چکے ہیں کہ ہمیں یہ زمیں عطیہ میں ملی۔ میں نے پی پی پی کے دو رہنماؤں کو فون کیا تو وہ غصہ ہوگئے راشد ربانی اور تاج حیدر کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو گڑے مُردے نکالنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ۔ خدا کا خوف کرو ایک تعلیم درسگاہ کو جلا دیا اور ایسے گڑے مُردے کہا جارہا ہے۔بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ ایک پس ماندہ علاقے میں ایک عظیم درس گاہ جیسے جنرل ایوب نے امداد دی ، ایک بڑی جگہ دی ، لیکن اس کا یہ حال ہوا ۔ مجھے یہاں مسٹرجو گن زاؤلس اور لاس انجلس کا خوبصورت صورت نظاروں میں تعلیمی درسگاہ کیلئے کی جانے والی جد وجہد یاد آجاتی ہے ، مجھے سر سید احمد خاں کی تاریخی جدوجہد یادآجاتی ہے مجھے باچا خان بابا کی اصلاحی تحریک افغانیہ کے مدارس یاد آجاتے ہیں ، میں کس کس کو کتنا یاد کروں کتنی تاریخ پڑھوں ، لیکن جب بدایوانی کالج کی آتشزدگی کو دیکھتا ہوں اور اپنی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ سماجی تنظیموں کے بے حس رویئے کو دیکھتا ہوں تو مجھے شدت پسند اور داعش میں کچھ فرق محسوس نہیں ہوتا کہ تعلیم سے کسی کو محروم کرنے کیلئے جو ہھتکنڈا وہ استعمال کرتے ہیں وہی لینڈ مافیا استعمال کرتے ہیں ، ایک ایک الیکڑونک میڈیا والے کے پاس گیا ا ینکرسے بات کی انھیں تصویریں دکھائیں انھیں تما م حالات سے آگاہی کرائی ، لیکن مجھے وسیم بادامی کا الٹا طعنہ ملا کہ کیا تم نے کچھ کالم لکھا ۔ میں نے کہا کہ بھائی آپ الیکڑک میڈیا کے ہو ، مرغی کے بچے کی تین ٹانگوں پر پورا تین گھنٹے کا پروگرام کردیتے ہو ، ایک عظیم المیہ ہوا ہے اس پر کچھ اس لئے نہیں کرسکتے کیونکہ اس میں دلچسپی نہیں ہے۔کئی اینکرز پرسن نے مغرورانہ انداز میں انکار کردیا ، سیاسی جماعتوں کو واٹس اپ کو تصویر پوسٹ کرکے ایک ایک کو فون کرکے مذمتی بیان لگوائے ، حکومت کا تو کچھ پوچھیں ہی نہیں ۔ پی پی پی ایک وزیر ناصر حسین سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ بھائی ابھی بلدیاتی الیکشن ہیں ، فارغ ہونے کے بعددیکھتے ہیں۔سینکڑوں طالب علموں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا لیکن کسی کو پرواہ نہیں ، امرا کے پرائیوٹ اسکولوں کی فیس کیا بڑھیں کہ میڈیا کئی روز تک ہاتھ دھو کر پڑھ گیا ، یار کچھ تو شرم کرو حیا کرو،یہ ہم سب کا المیہ ہے اس پر کسی بھی سیاسی جماعت سول سوسائٹی ، سرکاری سطح پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کیونکہ ان کے ایجنڈے میں غریب بچوں کو تعلیم کا کوئی حق نہیں ہے۔ میں اپنی بیتی یادوں میں میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس (اکلا) کا ذکر نہیں کرتا ، لیکن کبھی کبھی یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوجاتا ہوں کہ ہزار مخالفتوں کے باوجود وہاں تعلیم کیلئے ایک زندہ انسانوں کی سوچ ضمیر کے ساتھ زندہ ہے ، یہاں ایسا نہیں ہے ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661976 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.