محمد راشد،مسؤل المحمدیہ سٹوڈنٹس
پاکستان
8ستمبر بروز منگل کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی
میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بینچ
نے نفاذ اردو کا تاریخ ساز فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ 1977ء کے آئین کی دفعہ251کے
تحت حکومت کے لئے یہ لازم قرار دیا گیا تھا کہ15سال کے عرصے میں اردو کو
ملک کی سرکاری زبان بنائے۔ اس دفعہ کے تحت ملک کا سارا نظام اردو میں ہونا
چاہیے تھا لیکن38سال کا عرصہ بیت گیا کسی نے آئین کی ان دفعات کی طرف آنکھ
اٹھاکر دیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے تاریخی فیصلہ سنایا، اس عہدے پر وہ24دن کے لئے
فائز ہوئے اور انہوں نے یہ شاندار قدم اٹھایا۔ نکات میں یہ باتیں شامل کی
گئیں کہآرٹیکل251 کو فوری نافذ العمل کیا جائے۔ تین ماہ میں وفاقی اور
صوبائی قوانین کا ترجمہ اردو میں کرلیا جائے۔ عدالتی سطح پر میں سرکاری
محکمے اپنے جوابات حتی الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اس قابل ہوں کہ
موثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کرواسکیں۔ یہ پوری قوم کی وہ آواز ہے
جو وہ اپنے سینوں میں دبائے پھرتی ہیں لیکن اس آرزوئے ناتمام پر کان دھرنے
والا کوئی نہیں تھا۔
عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ لائق تحسین ہے مگر اردو کو سرکاری زبان کے طور پر
رائج کرنے کے ساتھ ساتھ ذریعہ تعلیم کو بھی اردو بنانا چاہیے کیونکہ یہ بہت
اہم مسئلہ ہے اور اردو بطور دفتری زبان اسی وقت کامیاب ہوسکے گی جب ذریعہ
تعلیم بھی اردو میں ہو اور زمام کار سنبھالنے والے اردو پر گرفت رکھتے ہوں
نہ کہ انگریزی کے سحر میں گرفتار ہوں۔ قوموں کی ترقی اور کامیابی میں یہ وہ
بنیادی بات ہے جس کا خیال کامیابی کے زینے طے کرنے والی قومیں رکھتی ہیں۔
انسان ہمیشہ اپنی زبان میں سوچتا اور غور و فکر کرکے نت نئی چیزیں تخلیق
کرتا ہے۔ اﷲ رب العزت کا قاعدہ اور اصول بھی یہی ہے جو زبان جس علاقے اور
قوم میں رائج تھی اسی زبان میں نبی مبعوث فرمایا تاکہ آسمانی پیغام صحیح
طرح لوگوں پر واضح ہوسکے۔
آج ہمارا بڑا مسئلہ اور زیر بحث موضوع ترقی حاصل کرنا اور اقوام عالم میں
مقابلہ کرکے اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑا کرنا ہے۔ دنیا
میں ترقی پانے والے ملک جن میں سرفہرست چین ہے، پوری دنیا کی توجہ اس وقت
چین پر ہے اور یہ دنیا کا تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ اتنی ترقی پانے کے باوجود
اگر ہم دیکھتے ہیں تو ان کا ذریعہ تعلیم ان کی اپنی زبان چینی ہے۔ فرانس،
جرمنی، جاپان اور روس اور اسی طرح سارے یورپی ممالک وہ اپنی اپنی زبانوں
میں طبع آزمائی کررہے ہیں اور ترقی کے زینے طے کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر باقی ممالک اور قومیں اپنی اپنی زبان میں تعلیم حاصل
کرکے ترقی کرسکتی ہیں تو پھر ہم انگریزی کے محتاج کیوں ہیں؟ ہم نے ’’دم
چھلہ‘‘ کے طور پر انگریزی کو کیوں اپنے ساتھ لگایا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
ہم نے اس کی وجہ سے اپنی ساری قوم کو ذہنی طور پر مفلوج کررکھا ہے۔اگر آپ
تناسب نکال لیں کہ کتنے طالب علم میٹرک پاس کرتے ہیں ، کتنے کالج میں داخلہ
لیتے ہیں اور ان میں سے کتنے یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں تو آپ کو اپنے تعلیمی
نظام میں اس بنیادی خرابی کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ زبان کے اس مسئلے کی
وجہ سے ہمارے ہاں طبقاتی نظام تعلیم رائج پاگیا ہے۔ تین طرح کے نظام ہمارے
اندر رائج ہیں۔ اول سرکاری سکول اس نظام کے تحت جو بچے تعلیم حاصل کرتے
ہیں، ان میں زیادہ تعلیم پوری نہیں کرپاتے اور راستے میں ہی چھوڑ جاتے ہیں۔
دوم انگریزی میڈیم جو ہمارے عام سکولوں میں رائج ہے ۔ ان کی حالت ایسی ہوتی
ہے کہ ’’کوا چلا ہنس کی چال……اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ ۔ سوم آکسفورڈ ،
کیمبرج نظام تعلیم یہ وہ نظام تعلیم ہے جہاں ہمارے امراء کے بچے پڑھتے ہیں۔
جہاں ان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ دونوں نظاموں سے بہتر ہیں اور یہ
ملک کے اچھے عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس طبقاتی نظام کے برے اثرات نے
ہمارے معاشرے کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری
سکولوں میں الف انار، ب بکری پڑھنے والے بچے ایلیٹ کلاس سکولوں ایجوکیٹر،
سٹی سکولز، ایل جی ایس میں پڑھنے والوں کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟
مشرقی پاکستان میں جب بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینے کی بات ہوئی تو
قائد اعظم محمد علی جناح وہاں پہنچے اور وہاں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں واضح الفاظ میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو
اور صرف اردو ہوگی۔ جو شخص اس سلسلے میں آپ کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش
کرے، وہ پاکستان کا پکا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ قومی زبان کے بغیر کوئی قوم نہ
تو پوری طرح متحد ہوسکتی ہے نہ کوئی مقام حاصل کرسکتی ہے۔‘‘
زبان ہی تو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح ہمیں وطن عزیز
پاکستان کی تاریخ، نظریے ، تہذیب و ثقافت سے جوڑنے کا سبب ہماری قومی زبان
اردو ہی ہوسکتی ہے۔ ورنہ ہم نے اردو سے جو بے رخی اختیار کی ہوئی ہے ، اس
کا نتیجہ پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے۔ جب ہمارے افکار و نظریات انگریزی
ادب اورتہذیب پڑھ پڑھ کر ترتیب پائیں گے تو پھر کہاں سے پاکستان اور نظریہ
پاکستان کے ساتھ محبت ہوگی……!
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس حوالے سے دائر مقدمے کی سماعت کے دوران کئی
بار کہا کہ ’’انگریز چلے گئے، انگریز کی غلامی کی لعنت نہیں گئی، وہ اسی
طرح قائم ہے، اگر انگریزی کو ہی برقرار رکھنا تھا تو آزادی حاصل کرنے کی
ضرورت کیا تھی، انگریز کی باقیات آج بھی انگریز کی طرح موجود و مضبوط ہیں،
گورے چلے گئے، اب بھورے انگریز ان کی جگہ سنبھالے بیٹھے ہیں۔‘‘
ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کے نونہالوں اور پوری قوم پر رحم کیا جائے اور
ہماری اعلیٰ عدلیہ نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ اگر ترقی
کے راستے ہموار کرنے ہیں تو بجائے انگریزی زبان پڑھنے کے اس کے تراجم کئے
جائیں۔ یورپ نے بھی یہی کام کیا۔ مسلمانوں کا سائنس میں کئے ہوئے کام کا
انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ایک وقت تھا کہ یورپ پر ترجمہ کرنے کا خبط سوار
تھا۔ ادھر سے کتاب مارکیٹ میں آئی، ادھر سے اس کا ترجمہ آچکا ہوتا۔ تو
ضرورت یہ ہے کہ بجائے اس کے ہم پوری قوم کو پرائی زبان پڑھنے پر لگادیں
بلکہ ایسے ادارے قائم کئے جائیں جو ترجمہ کرنے والے ہوں۔ جو سائنسی علوم کی
اصطلاحات وہی استعمال کی جائیں لیکن باقی تو ترجمہ کیا جائے۔
ہمارا مذہب ہمیں زبانیں سیکھنے سے نہیں روکتا بلکہ نبی ﷺنے باقاعدہ ایسے
ساتھی مقرر کئے جو مختلف زبانیں سیکھتے۔ مشہور مقولہ ہے’’جو کسی قوم کی
زبان سیکھ لیتا ہے وہ اس کے شر سے بچ جاتا ہے‘‘ ہمیں انگریزی سیکھنی چاہیے
مگر ثانوی زبان کی حیثیت سے۔
ہم ایک قوم ہیں اور نظریہ کی بنیاد پر ہم نے پاکستان حاصل کیا ہے۔ ہمارا
اپنااندازِ فکر اور تہذیب و تمدن ہے۔ ہمیں کسی سے کچھ مستعار لینے کی ضرورت
نہیں ہے۔ جب زبان ادھار لی جاتی ہے تو اس قوم کی تہذیب ، افکار و خیالات سب
کچھ ہی در آتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ محکومی قوم کے ذہنوں میں بیٹھ جاتی ہے۔
وہ اپنے آپ کو پست اور دوسری قوم کو اپنے سے اعلیٰ سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ارباب حل و عقد کو چاہیے کہ38سال سے لٹکے ہوئے مسئلے کو مزید لٹکا نہ رکھا
جائے اور اس پر عمل درآمد کروایا جائے اور اس کے ساتھ اردو کو ذریعہ تعلیم
بھی بنایا جائے تاکہ ہم ترقی کی راہوں پر گامزن ہوکر اقوام عالم میں فخر کے
ساتھ اپنا سربلند کرسکیں۔ |