ہمارے قریبی الیکڑک سٹور کے ایک
عزیز فوت ہوگئے، ان کا جنازہ شہر سے تقریباً 40کلومیٹر دور ایک گاؤں میں
رات 8بجے ہونا تھا، ہم تین چار ساتھیوں نے ملکر گاڑی کروائی اور متوفی کے
گاؤں پہنچ گئے، عشا کی نماز کے بعد ان کا جنازہ گاؤں کے قبرستان میں پڑھا
گیا، جنازہ سے قبل کافی دیر ’’تھوڑا صبر کر لو‘‘ ’’وہ آرہے ہیں‘‘ کی آوازیں
بازگشت کرتی رہیں تھیں، اب صاحبِ قبر قبر کی انتظار میں جبکہ وارثین معزز
مہمانوں کی آمد کے منتظر تھے، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جنازہ کے شرکا میں بے
چینی بڑھتی جارہی تھی، ’’مزید تاخیر مناسب نہیں‘‘ ’’یار کچھ دیر صبر کرلیں،
بس وہ پہنچنے والے ہیں‘‘ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں، شرکا کو
واپسی کی فکر دامن گیر تھی اور وارثین میں بعض متوقع اعتراض سے بچنے کے لیے
بغیر کسی کے انتظار کے مردہ کو قبر کے حوالے کرنے کا کہہ رہے تھے، جبکہ بعض
دوسرے وارثین کو خاندان کی ناک بہت عزیز تھی؛ لہٰذا جب تک معزز مہمان اس
متوفی کی زیارت سے شرف یاب نہ ہو پاتے متوفی کا اپنی منزل تک پہنچنا ممکن
نہ تھا۔
فضا جہاں سوگواری تھی وہاں اب کبیدگی چھارہی تھی، غم سے نڈھال اب انتظار کی
موت سہہ رہے تھے، کچھ ہی لمحات میں بڑبڑاہٹ نے شور اور غم خواری نے بے زاری
کی شکل اختیار کر لی۔ رات کے اس سیاہ پہر میں سفید پوش﴿متوفی﴾ اپنی منزل کا
منتظر خاندانی رسم ورواج کا کس تأسف سے نظارہ کر رہا ہوگا؟!
حضرت ابو ہریرہ(رض)سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ مردے کو
دفن کرنے میں جلدی کرو: اگر وہ نیک ہے تو تم اس کی بہترین جگہ کے قریب کرو
اگر نیک نہیں ' تو تم نے شر اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ‘‘۔اس مفہوم کی
دیگر احادیث میں بھی مردہ جلدی دفن کرنے کی تلقین آئی ہے ۔
یہ ایک عام جنازہ کا حال ہے کسی بزرگ ہستی کے جنازہ کا حال بھی اس سے زیادہ
مختلف نہیں ہوتا۔ فرق اتنا ہوتا ہے کہ عام جنازہ میں وقت کی پاسداری نہیں
ہوتی جنازہ حد درجہ تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے جبکہ کسی بزرگ کا جنازہ اگرچہ
وقت پر پڑھانے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے تاہم ایسے جنازے بدنظمی کا بہت
شکار ہوتے ہیں معتقدین اور متسوسلین میں سے کتنے ہی ایسے ہوتے ہیں جو
الوداعی دیدار کے متمنی ہونے کی وجہ سے انہی بزرگوں کی تعلیمات کو فراموش
اورایذاِ مسلم جیسی احادیث سے َصرف ِنظر کر کے دکھم پیل کا باعث بنتے ہیں
یہی بدنظمی کا باعث بھی بنتے ہیں، اس صورتِ حال میں ذہن بزرگوں کی تعلیمات،
آخرت کی یاد اور موت کی تیاری کی طرف جانے کی بجائے تأسف میں بھٹکتا رہتا
ہے!
ہمارے ہاں نظم ونسق نہ ہونے کی شکایت عام ہے، اور اسی طرح وقت کی پابندی کی
بھی، بلکہ وقت کی پابندی تو واقعتاً لطیفہ بن چکی ہے، عام طور پر شادی
کارڈز پر وقت لکھنے کے بعد یہ جملہ مکتوب ہوتا ہے: ’’وقت کی پابندی لازمی
ہے‘‘ اگر آپ کہیں بھولے سے وقت پر پہنچ گئے تو آپ کا واسطہ دعوتِ ولیمہ کے
بجائے ٹینٹ لگانے والے سے ہوگا۔ اور یہی صورتِ حال تقریباً ہر پروگرام کی
ہے، پروگرام خواہ جس نوعیت کا بھی ہو، ہمیں ایک مذہبی جلسہ پر جانے کا
اتفاق ہوا، جلسہ کے مقررہ وقت سے کچھ دیر بعد ہم مطلوبہ مقام پر پہنچے تو
نہ کوئی خطیب صاحب تھے اور نہ سامع، نہ کوئی معزز مہمان اور نہ ہی سٹیج
سیکرٹری سٹیج پر گردش کرتا نظر آیا، تاہم ایک بڑی شخصیت جو یقیناً وقت کے
پابند تھے وہاں اسٹیج پر تشریف رکھتے تھے۔
عام طور دیکھنے میں آیا ہے کہ مذہبی جلسے، محفل حسن قرأت اور حمد ونعت کی
محافل نہ صرف تاخیر شکار ہوجاتیں ہیں بلکہ ان کا اصل پروگرام تو رات گئے
شروع ہوتا ہے، اور رات کے پچھلے پہر کہیں جاکر ختم ہوتا ہے۔ اس قسم کی صورت
سے ہم جیسے دین سے نابلد دین کی بات سننے سے نہ صرف محروم رہ جاتے ہیں بلکہ
اس جانب رجحان بھی ختم کر بیٹھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عام کاروباری آدمی
دکان یا دفتر سے شام کے وقت فارغ ہوتا ہے اور یہی شام کے دو تین گھنٹے فارغ
ہوسکتے ہیں، شب بیداری کی صورت میں دوسرے دن دکان یا دفتر جانا مشکل ہوجاتا
ہے۔ پھر یہ جلسے جمعرات یا جمعہ کو زیادہ تر ہوتے ہیں جبکہ ہم انگریز سرکار
کے مارے ہوؤں کو اتوار کی چھٹی ہوتی ہے اتوار کو ہو تو تین چار باتیں سن
بھی لیں۔
آخر وقت کی پابندی کیوں نہیں ہوتی؟ اس کی دو سادہ سے وجوہ ہیں: ۱۔ نہ تو
میزبان تیار ہوگا اور نہ ہی دوسرے لوگ آئے ہوں گے لہٰذا اتنی جلدی جا کر
کریں گے کیا؟۔۲۔ ہم بڑے لوگ ہیں اور بڑے لوگ ہمیشہ تاخیر سے آتے ہیں۔ ہمیں
اس دوسری سادگی پر تعجب ہے؛ کیونکہ ہم نے تو بڑوں سے بارہا سنا اور ان کی
متعدد کتابوں میں پڑھا ہے کہ ’’کامیاب انسان بننے کے لیے وقت کی پابندی
شرطِ اوّل ہے‘‘۔ |