’’کچھ سنا تم نے؟‘‘
’’نہیں! میں سنتا نہیں صرف دیکھتا ہوں۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ اب ریڈیو کا زمانہ نہیں ٹی وی کا زمانہ ہے۔‘‘
’’ٹی وی کو دیکھتے ہو ، سنتے نہیں ہو کیا؟‘‘
’’نہیں ! سنتا ہوں لیکن دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’ایسی کوئی بات ہی نہیں ہوتی کہ جسے کان کے درمیان دماغ میں جگہ دی جاسکے۔
‘‘
’’چیک کرواؤ …… مجھے تو ایسا لگتا ہے تمہارا دماغ ہی ختم ہوگیاہے۔‘‘
’’نہیں دماغ نے کیا ختم ہونا ہے ، بس چلنا چھوڑ دیا ہے اس نے۔ ‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’لوگ کہتے ہیں دماغ چل گیا ہے بڈھے کا! تبھی ایسی باتیں کرتا ہے۔‘‘
’’مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے!!‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا !‘‘
’’دماغ کو چھوڑویہ بتاؤ دن بھر کیا دیکھتے ہو؟‘‘
’’لڑائی مار کٹائی!!‘‘
’’تم نے سنا نہیں میں تمہارے گھر کی بات نہیں کر رہا ۔ ٹی وی پر کیا دیکھتے
ہو یہ پوچھ رہا ہوں۔‘‘
’’جو گھر میں چل رہا ہے وہی ٹی وی پر بھی چل رہا ہے۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ
ٹی وی دیکھوں کہ گھر دیکھوں۔‘‘
’’مطلب کیا ہے تمہارا ؟‘‘
’’جو ٹی وی پر دکھایا جائے گا وہی گھر میں بھی ہوگا۔ڈراموں میں بیٹیوں کو
گھر سے بھاگنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ ساس سسر کو کس طرح مٹھی میں رکھنا ہے
، شوہر کو کس طرح قابو میں رکھنا ہے، بہو سے کس طرح بات کرنی ہے ۔ سبھی کچھ
ان ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔ جس کو دیکھ کر کس گھر میں سکون آئے گا…… اور
تو اور نیوز چینلز لگاؤ تو وہاں بھی ڈراموں میں کرائمز کرنے کی ترغیب دی
جاتی ہے۔ ‘‘
’’تو کیا یہ سب ہمارے معاشرے میں نہیں ہوتا جو ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے؟‘‘
’’ہوتا ہوگا مجھے کیا پتا …… لیکن ہم نے کبھی گھر کے گندے کپڑے بیچ چوراہے
پر نہیں دھوئے۔ جھگڑے کس گھر میں نہیں ہوتے لیکن اگر ان جھگڑوں میں محلے
والوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو کیا تمہارا خیال ہے کہ اس سے مسائل حل
ہوجائیں گے۔ کسی زمانے میں بڑے بوڑھے ان جھگڑوں کو بڑھنے نہیں دیتے تھے۔
لیکن آج ہم نے ان کو گھروں سے یا تو نکال باہر کیا ہے یا ان کو وہ مقام ہی
نہیں دیا کہ وہ آپ کے جھگڑوں کو دور کرسکیں ۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ‘‘
’’یہ بات تو تمہاری ٹھیک ہی ہے!‘‘
’’تم ابھی کوئی بھی نیوز چینل لگا لو۔ کسی کے مرنے ، رونے اور دھاڑنے کی
بری خبریں ہی ملیں گی۔ ایسا لگتا ہے جیسے پورے ملک میں کوئی اچھی خبر نہیں
ہے۔ کسی ایک کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو آپ پورے ملک کے ساتھ زیادتی کا
نشانہ بنا دیتے ہیں۔ ‘‘
’’تم نیوز نہ سنا کرو۔ سیاسی پروگرام دیکھا کرو…… وہ بھی کسی ڈرامے سے کم
نہیں ہوتے اور اس سے بھی کافی تفریح میسر آجاتی ہے۔‘‘
’’رہنے دو ان سیاسی چکر بازیوں کو۔ الزامات اور برا بھلا کہنے کے علاوہ ہے
ہی کیا ان کے پاس……!!‘‘
’’خواب!! ‘‘
’’خواب تو ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں لیکن کبھی حقیقت کا رو پ نہیں ملا
انہیں۔خواب دیکھتے دیکھتے ہی تو قوم سو گئی ہے اور آج بھی دیکھ رہی ہے۔
نہیں دیکھنے ہم نے یہ خواب۔‘‘
’’خواب تو اچھے ہوتے ہیں!‘‘
’’لگتا ہے تم کمرشل ایڈ دیکھتے ہو ، خواب بڑے خوبصورت دکھائے جاتے ہیں۔ جس
میں داغوں کو بھی اچھا کردیا ہے۔اگر اس ملک میں کچھ سستا ہوا ہے تو وہ یا
تو انسان کا خون ہے یا پھر یہ موبائل کا نیٹ ورک۔لوگوں کو ایسا باتوں میں
لگایا ہے کہ لوگ گھنٹوں گھنٹوں باتیں کرتے رہتے ہیں۔ گھر کا چولہا ٹھنڈا
پڑا ہے ، پتا چلا بیگم میکے میں موبائل پر باتیں کررہی ہیں۔‘‘
’’خواب تو امید ہوتے ہیں ، اگر یہ بھی ختم ہوگئے تو پھر ہمارے پاس کیا بچے
گا سوائے باتیں کرنے کے…… اور اگر یہ باتیں بھی ہم نہ کریں تو کیا کریں!
بات چیت بھی جاری رہنی چاہیے کیونکہ بات کرنے سے اکثربات بن جاتی ہے ورنہ
مایوسی بڑھتی ہے…… اس لیے خواب اچھے نہیں بلکہ بہت اچھے ہوتے ہیں! ‘‘
’’کر لو باتیں…… پچاس سال سے باتیں ہی تو سن رہا ہوں لیکن یاد رکھو میں ایک
کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا ہوں۔ ہاں دیکھتا ہوں…… صرف دیکھتا ہوں اور
دیکھتا ہی چلا جاتا ہوں……
٭……٭ |