ارشاد احمد مرحومؔ
وہ رات میری زندگی کی حسین ترین رات تھی مگر وہی دن…! میری زندگی کے بدترین
دنوں میں سے ثابت ہو ا تھا… … ہاں … میں اس رات بہت پرجوش تھا … اور کیوں
نہ ہوتا …کیونکہ کسی نے میرے دل سے نکلے ہوئے الفاظ کو گلنارکی نازک
ترپتیوں سے بھی نازک تر ہونٹوں کو ہلاتے ہوئے ایک حسین جملہ بنا دیا تھا جس
جملہ کی معنی خیزیت سے میرے بدن کا ریشہ ریشہ مچل اٹھا تھا۔کیونکہ میرے
سامنے جو تھاوہ اک حسن کا پیکر تھا … وہ ایک بے مثل صورت تھی … وہ اک نور
کا مجسمہ تھا … اس کے آنے سے میرے چاروں طرف روشنی ہی روشنی پھیل گئی …
مجھے تازہ ہوا کے جھونکے آنے لگے … اک دلفریب خوشبو سے پورا ماحول معطر ہو
گیا …وہ اک خواب ناک ماحول تھا …… میں متواتر اس جملہ کو سنے جا رہا تھا
کھلکھلاتی ہوئی آواز سن کر مجھے پورا یقین تھا کہ اگر سامنے آجائے تو اس
ہنسی سے حسین اس محبوب کی ادائیں ہوں گی ۔میں اس رات دل ہی دل میں اک
خوبصورت اور حسین زندگی کے خواب دیکھتا رہا… ......میں نے اس سے اقرار
وایجاب کا وعدہ لینا چاہا تو ایک بار وہ پھر بولنے لگی۔وہ بولے جار ہی تھی
… میں اس کے اندازِ بیاں میں کھو یا جا رہا تھا … سنو … ! میں تمہیں بتاتی
ہوں … کہ میں کیا ہوں …؟ میں محبت ہوں … میں وفا ہوں … میں حقیقت ہوں … میں
صداقت ہوں …میں خالق کی، مخلوق سے ہوں … تو رحمت ہوں … میں مخلوق کی ، خالق
سے ہوں … تو ریاضت ہوں … میں عابد کی ، معبود سے ہوں … توعبادت ہوں … میں
غلام کی ، آقا سے ہوں … تو مدحت ہوں … میں باپ کی ، اولاد سے ہوں … تو شفقت
ہوں … میں ماں کی ، اولاد سے ہوں … تو محبت ہوں … میں استاد کی ، شاگرد سے
ہوں … تو نصیحت ہوں … میں حاکم کی ، محکوم سے ہوں … تو عدالت ہوں … میں
محکوم کی ، حاکم سے ہوں … تو اطاعت ہوں … میں دوست کی ، دوست سے ہوں … تو
رفاقت ہوں … میں طالب ِ علم کی ،علم سے ہوں … تو محنت ہوں … میں ذمہ دار کی
، اس کے فرض سے ہوں … تو دیانت ہوں … میں مزدور کی ، اس کے کام سے ہوں … تو
مشقت ہوں … میں حق کی تلاش کرنے والے کی ، اس کی جستجو سے ہوں … تو ہدایت
ہوں … میں سپاہی کی ، اس کے فرض سے ہوں … تو شجاعت ہوں … میں عوام کی ،
بزرگوں سے ہوں … تو عقیدت ہوں … میں لکھاری کی ، اس کے قلم سے ہوں … تو
امانت ہوں … ہاں … میں محبت ہوں … میں زندگی ہوں … میں بندگی ہوں … میں
پاکیزگی ہوں… میں بے لوث ہوں … میں بے غرض ہوں … میں لازوال ہوں … جس میں
غرض شامل ہو… وہ محبت نہیں کہلاتی… جس میں کوئی لالچ شامل ہو … وہ محبت
نہیں ہوتی … جس میں کوئی مفاد شامل ہو … اْسے محبت نہیں کہا جاتا… محبت تو
روح کے روح کے ساتھ تعلق کا نام ہے … اس میں جنس …جسم…خوبصورتی … بناوٹ…نام
…نسب … چال … ڈھال … غرض وہ تمام چیزیں … جن کاظاہری صورت کے ساتھ تعلق
ہوتا ہے … وہ سب محبت کے مفہوم سے باہر ہیں … محبت کا کسی کے جسمانی نقوش …
رنگ و روپ … کے ساتھ کوئی تعلق نہیں … اگر کوئی کہے … کہ میں نے فلاں کو
دیکھا ہے … وہ بہت خوبصورت ہے … اس کی آنکھیں بہت حسین ہیں … اْس کا چہرہ
چاند جیسا ہے … اس کی رنگت دودھ کی طرح سفید ہے … اس کا نام بہت خوبصورت ہے
… اس کی آوا بہت دلنشیں ہے … اس کی چال بہت عمدہ ہے … اس کے انداز ، اس کی
ادائیں … دل موہ لینے والی ہیں … اس لئے مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے … تو یہ
جھوٹ ہے … یہ غلط ہے … میرا (محبت کا) یہ معیار نہیں … وہ میری توہین کر
رہا ہے … اْسے … اْس شخص سے جس سے وہ محبت کا دعوے دار ہے … قطعاً محبت
نہیں … اْسے … اْس حسن سے … اس چہرے سے … اس رنگت سے … اْس نام سے … اس
آواز سے … اس چال سے … اس انداز سے … اس ادا سے … محبت ہے … نہ کہ اْس شخص
سے … کیونکہ انسان کی اصل اس کی روح ہوتی ہے … ہاں… روح ہی انسان کی اصل ہے
…جسم تو اک ذریعہ اور واسطہ ہے …جس کو آپ جیسے چاہیں استعمال کریں… محبت اک
روحانی رشتہ کا نام ہے …جسمانی عناصر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں… ہاں …
یہی محبت کی اصل ہے … یہی محبت کی حقیقت ہے … اور یہی محبت کی معراج ہے … !
وہ بولے جارہی تھی … میں اس کی باتوں کے سحر میں جکڑ کر رہ گیا تھا … آخر
میں اس نے ایک لفظ کہا میں تمہاری ہوں لیکن میرے اوپر میرا اختیار نہیں
ہے۔میں تمہیں پسند کرتی ہوں لیکن میری پسند کسی اورکے پسند میں شامل ہے۔میں
راضی ہوں لیکن اس رضا کی اجازت دینے کا اختیار مجھے نہیں ہے ،میں دلہن بن
کر تمہارے گھر آنے کو تیار ہوں لیکن مجھے دلہن بنانے والا کوئی اور ہے میں
ایک مشرقی لڑکی ہوں جہاں قدم قدم پر پابندیا لگی ہیں میں ایسے معاشرہ سے
ہوں جہاں شرم وحیاء کو عورت کا زیور کہا گیا ہے ،میری ساری آرزو میری ساری
امنگیں میری ساری خوشیاں ،میری ساری بہاریں ،میری ماں سے وابستہ ہیں ۔میری
ماں کا نکلا ہوا ایک ایک لفظ میرے لئے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔اتنا سنتے ہی
میرے کان میں لگا موبائل ایسا لگا کہ میرے ہاتھ سے چھوٹ جائے گا کیونکہ
میرے ہاتھوں میں کپکپی طاری ہو گئی میں اس محبت کا انجام سمجھ گیا تھا مجھے
معلوم ہو گیا تھاکہ میرے ارمانوں کا خون ہونے والا ہے مجھے معلوم ہی نہیں
بلکہ یقین ہو گیا تھا کہ میرے حسین خواب چکنا چور ہونے والے ہیں کیونکہ میں
جانتا تھا کہ وہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے قبول نہیں کریں گیں۔اورا ٓخر کار
یہی ہوا ۔اس رات کی صبح میں بہت ہی مشکل میں تھا وہ دن میری زندگی کے بد
ترین دنوں میں سے ایک تھا… میں بہت پریشان تھا … مایوسیوں نے میرے دل میں
گھر کر لیا تھا… میرا سارا دن اسی کیفیت میں گزرگیا…کسی سے بات کرنے کا دل
نہیں کر رہا تھا آخر کار میں رات ہونے سے پہلے کہیں اور چلا گیا جہاں کوئی
نہ ہو میں اکیلا ناکامیوں کو سوچ سوچ کر روتا رہوں ۔رات ڈھل رہی تھی اور
میں اپنے ماضی کو سوچ رہا تھا میں اس ہولناک واقعہ کو بھلانے کے لئے اپنی
زندگی کے خوشگوار لمحوں کو یاد کرنا چاہتا تھا لیکن محبت کی ناکامی ساری
کامیابیوں سے بڑھ گئی تھی۔میں اپنی ناکام محبت کو رو رہا رہا تھا کبھی دل
بہلانے کے لئے سوچتا کہ محبت فضول شی ہے بکواس ہے یہ زندگی کی بربادی کا
دوسرا نام ہے اس نے ہزاروں گھر اجاڑے ہیں اس نے لاکھوں دل توڑے ہیں اس نے
بے شمار انسانوں کو قتل کرایا ہے یہ بڑی ظالم ۔۔۔۔۔۔ہاں بڑی ظالم ہے۔یہ بہت
ہی ظالم ہے ۔ اس سے بڑھ کر کسی کے اوپر کوئی ظلم ہو ہی نہیں سکتا ہے نہ
جانے ابھی میں اور کیا کیا سوچتا کہ میری کیفیت بدل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں …
محبت کامیابی ہے … ہار اور ناکامی کے الفاظ …محبت کی لغت میں نہیں ہوتے …
محبت کاہونا … اور محبت کا کرناہی …کامیابی ہے … محبوب کا حصول … محبت کا
حاصل نہیں … یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے فلاں سے محبت ہے … اور میں
اْسے حاصل کرنا چاہتا ہوں … تو ایسے شخص کی یہ سوچ غلط ہے …کیونکہ محبت
کاحاصل … محبوب کا حصول … اس کا قرب … اور اس کے جسم کا حصول نہیں ہوتا …بلکہ
محبوب کی رضا کا حصول ہی … محبت کا حاصل ہے … ہاں …محبت نام ہی تسلیم و رضا
کا ہے … انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے … تو وہ اپنے محبوب کی اطاعت کر
تا ہے … وہ اپنے محبوب کی فرمانبرداری کرتا ہے … وہ اپنے محبوب کو ہر حال
میں راضی رکھتا ہے … صرف یہ دعویٰ … کہ مجھے تم سے محبت ہے … محبت کا ثبوت
نہیں … بلکہ محبت کا ثبوت … محب کا عمل … محب کی فرمانبرداری … اور محب کی
تسلیم و رضا بتاتی ہے محبوب ،پابندیاں لگاتا ہے … محبوب، شرائط عائد کرتا
ہے … محبوب، ناراض ہوتا ہے … محب کا یہ کام نہیں … اس کا کام تو ہر حال میں
اپنے محبوب کو راضی رکھنا… اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے …اس نے بھی میرے
اوپر پابندیاں لگائی اس نے مجھ عہد واقرار لیا کہ قضاء وقدر پر راضی ہو جاؤ
جو قسمت کاتب تقدیر نے لکھ دیا ہے اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ہو ۔آج ایک
سبق مجھے وہ پڑھا رہی تھی جسے میں کسی کتاب میں نہیں پڑھا تھا اور اس کی
باتیں مجھے سمجھ میں بھی آ رہی تھیں وہ بولے جا رہی تھی اگر محبوب کے حصول
کو محبت کا حاصل ٹھہرایا جائے … تو پھر وہ بلا غرض نہیں رہے گی … کیونکہ
محبوب کے حصول میں … اس کے قرب اور اس کے جسم کا حصول بھی آئے گا … تو پھر
وہ محبت نہ رہے گی … بلکہ غرض بن جائے گی … اور دوم یہ کہ محبت تو کبھی ختم
نہیں ہوتی … اگر محبوب کو حاصل کر لیا … تو پھر تو محبت ختم ہو جائے گی …
کیونکہ جب مقصدہی حاصل ہو جائے … توپھر محبت کا کوئی جوازباقی نہیں رہتا …
اس لیے ثابت ہوا کہ محبوب کا حصول محبت کا حاصل نہیں … بلکہ محبت کا حاصل…محبوب
کی رضا کا حصول ہے … ہاں … یہی محبت کا تقاضا ہے … یہی محبت کا حاصل ہے …
یہی محبت کا نچوڑ ہے … !
وہ تھوڑی دیر کو رْکی …اورپھر گویا ہوئی … اور ہاں … ایک اور بات … اور وہ
یہ … کہ محبت لازوال ہوتی ہے… محبت کبھی ختم نہیں ہوتی … محبت کو کبھی زوال
نہیں آتا …محبت کبھی فنا نہیں ہوتی…بلکہ ہمیشہ قائم رہتی ہے …وہ محبت …
محبت نہیں … جس کو زوال آجائے … جو ختم ہو جائے … ہاں … محبت ایک لازوال
اور ہمیشہ رہنے والے رشتے کانام ہے … اک لازوال رشتہ … !
وہ خاموش ہو گئی تھی … مگر میں ابھی تک اس کے الفاظ کے سحر سے اپنے آپ کو
آزاد نہ کروا سکا تھا … میں بالکل خاموش تھا … اس کی باتیں حقیقت پر مبنی
تھیں …اس کے لہجے میں سچائی کی خوشبو تھی … مگر کچھ سوالات تھے … جن کی وجہ
سے میرا ذہن مطمئن نہ ہو رہاتھا … مجھے ان کا جواب چاہیے تھا … آخر میں نے
اپنی تمام تر ہمت مجتمع کر کے استفا ہمیہ نظروں سے اسے دیکھا … اور کچھ
سوالا ت کی اجازت چاہی … پوچھو …! جو پوچھنا چاہتے ہو …اْس نے دھیرے سے
مسکرا کر کہا … !اجازت ملتے ہی … میں بولا… !
یہ جو آپ نے کہا کہ انسان کی اصل اس کی روح ہوتی ہے … اور جسمانی خوبصورتی
اور نقش و نگار کو دیکھ کر محبت میں مبتلا ہونے والا شخص اپنے دعویٰ میں
جھوٹا ہے … تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے سامنے تو دوسرے کا جسم ،
اور سراپا ہی ہوتا ہے …اور انسان کودوسرے کی کوئی بات یا خوبی پسند آتی ہے
تو اسے ، اس سے محبت ہو جاتی ہے … روح کو تو انسان دیکھ نہیں سکتا … پھر
روح سے محبت کیسے ہو سکتی ہے … ؟
یہ ایک اچھا سوال ہے … اس نے ستائشی نظر سے مجھے دیکھا … اور بولنے لگی …
یہ حقیقت ہے کہ محبت اصل میں روح سے ہوتی ہے … اور انسانی جسم … اور سراپے
کا … محبت سے کوئی تعلق نہیں…جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تواس کا جواب
یہ ہے کہ انسان کا کردار اْس کی روح … اور اس کی سوچ… کی عکاسی کر تا ہے …
اور انسان اپنے کردار ہی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے … نہ کہ نسل اور رنگ و
روپ سے … توا نسان کے کردار کو دیکھ کر اگر اس سے محبت ہو جائے … تو وہ
محبت اصل محبت کہلائے گی … دوسرے لفظوں میں ہم اسے اس کی روح سے محبت بھی
کہہ سکتے ہیں … !
اس کا جواب سن کر میں قدرے مطمئن ہو گیا تھا … مگرکچھ سوالات ابھی بھی میرے
ذہن میں موجود تھے … اس کے خاموش ہو تے ہی … میں بولا …!آپ کا جواب مجھے
پسند آیا ہے … مگر ایک اور سوال ہے… اور وہ یہ کہ … آپ نے یہ کہا ہے کہ
محبت کا حاصل … محبوب کا حصول نہیں … بلکہ محبوب کی رضا ہی … محبت کاحاصل
ہے …تو بات یہ ہے کہ … یہ انسانی فطرت ہے …کہ انسان جس چیز کو پسند کر تا
ہے … جو چیز اْسے اچھی لگتی ہے … تو انسان اْسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے
… اور اس کا یہ عمل قابلِ ملامت بھی نہیں … تو پھر محبوب کا حصول کیسے غلط
ہے …؟
تمہارے ا س سوال کا جواب یہ ہے کہ … یہ درست ہے کہ انسان کو جو چیز پسند ہو…تو
انسان اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے … اور وہ قابلِ ملامت بھی نہیں ٹھہرتا…مگر
اصل بات یہ ہے کہ … محبت کی اصل … محبت کی حقیقت … تو محبوب کی رضا کا حصول
ہی ہے … لیکن اگر انسان کسی بے جان چیز یا کسی جاندار مگر بے شعور (یعنی جس
کی رضا حاصل نہ کی جا سکتی ہو )سے محبت کرے …یا اْسے پسند کرے … تو چونکہ
وہ اس کی رضا حاصل نہیں کر سکتا … کیونکہ وہ بے جان ہے یا بے شعور ہے … اس
لئے اپنی محبت کے ثبوت کیلئے وہ اس چیز کو ہی حاصل کر لیتا ہے … اس لیے اس
چیز کے حصول سے … محبت کی اصل (یعنی محبوب کی رضا ) کے حصول پر کوئی فرق
نہیں پڑتا … ! تو ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص محبوب کے حصول کو ہی …محبت کا
حاصل ٹھہرائے… تو اس کی یہ سوچ غلط ہے … کیونکہ اس طرح وہ اپنے محبوب کے
احساسات… جذبات…اور پسند …کا پاس نہیں رکھ رہا … بلکہ اس پر اپنی مرضی مسلط
کر رہا ہے … توگویا وہ اپنے محبوب کو …بے جان اور بے شعور سمجھ کر اس کی
توہین کر رہا ہے … !
وہ جو کہہ رہی تھی میری سمجھ میں آ رہا تھا لیکن دل قبول نہیں کر رہا تھا
کیونکہ اسے میں نے جان سے زیادہ چاہا اس کے ہر خواہش کا احترام کیا اب وہ
مجھ سے محبت کرے اور ساری زندگی مجھ سے دور کسی اور کے پاس رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ !۔۔۔۔۔میرے دل ودماغ نے کام کرنا بند کر
دیا ۔
کیونکہ میں نے اسے اپنا بنانے کی قسم تو نہیں کھائی تھی۔ مگر اسے چھوڑنے کے
ارادے کا گناہگار بھی نہیں تھا۔ اس کی یادیں نسیم صبح کے جھونکے تھے۔ ہواؤں
پہ رقص کرتی اس کے قہقہوں کی کھنک کانوں میں سرگوشی میں مستی کرتی تھی۔لیکن
اب سب کچھ ختم ہو چکا تھا میں بھولا کہ زمین سے دور اْٹھتے تمازت آفتاب میں
کیسے سہم جائے گی نسیم سحر۔اب میں نے سمجھ لیا تھا کہ محبت دل جلاتی
ہے،محبت آزماتی ہے،محبت خون کے آنسو ،رلاتی ہے،مگر پھر بھی۔۔۔،محبت! ہو
جاتی ہے،محبت سے حسیں کوئی بھی،جذبہ ہو نہیں سکتا،محبت کے بنا دل کا گزارا
،ہو نہیں سکتا،محبت ہے تو، ہر جذبہ،ہر اک منظر،ہر اک نغمہ،نظر کو۔۔۔،روح
کو۔۔۔،دل کو۔۔۔،بہت دلکش بناتا ہے،اشک بھی مسکراتے ہیں،درد بھی گنگناتے
ہیں،محبت کی خطاؤں کا،محبت کی سزاؤں کا،محبت کرنے والے،اپنے پیاروں کی
جفاؤں کا،برا نہیں مناتے ہیں،محبت کرنے والے ہجر میں بھی،خط اٹھاتے ہیں،وصل
کا لطف پاتے ہیں،تڑپنے ہیں،سسکتے ہیں،مچلتے ہیں ،پگھلتے ہیں،مگر پھر
بھی۔۔۔،محبت میں محبت کو،بڑھاتے ہیں،اور اپنے ان ،حسیں جذبوں کو،اشکوں سے
سجاتے ہیں،محبت کی کہانی،خود محبت کی زبانی،یہ محبت جب سناتی ہے،یہی اظہار
کرتی ہے،یہی اقرار کرتی ہے،محبت دل جلاتی ہے،محبت آزماتی ہے،محبت خون کے
،آنسو رلاتی ہے،مگر پھر بھی۔۔۔،محبت! ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میری محبت ویران ہو چکی تھی ہاں میں ایک مفلس کی طرح دوراہے پر کھڑا تھا
میرے تمام ارمان چکنا چور ہو چکے تھے اب میں کس سے کہوں حال دل ، جزبات میں
جو بہہ نکلے۔وہ خواہشیں ، وہ آرزؤئیں ، وہ چاہتیں ، وصل کی بندشیں ، ٹوٹ
جانے کی صدائیں ،
تیریاں مجبوریاں، تیرے رشتے ،تیری بندشیں ،تیرا سر خم تسلیم شہنائیوں کے
بجنے پر جھکتا گیا۔
میرے ٹوٹے دل کے تار بجتے ٹوٹتے رہے۔
تیری سچائیاں ، تیری قسمیں ، تیرے وعدے تیری طرح بے وفا نکلے۔
میرا بھولپن، میرا ہنر، میری سادگی، میری سچائیاں ، میری پہلی محبت کی
داستانیں ،میری وفا نکلے۔
ٹوٹا ایک رشتہ، تو نے دلاسے سے جوڑنا چاہا ، ٹوٹا جس کا میں وجود تھا۔تو نے
محبت سے جوڑنا چاہا۔
ٹوٹا جس کا میں فخر تھا۔تو نے وفاؤں کے گھیرے میں سلا دیا۔
یہ کیسی عجب شام ہے۔نیلگوں آسمان بھی آج کالی چادر اوڑھنے کے لئے بیتاب
نہیں۔
ستارے اوٹ سے چھپ چھپ کر چمکتے بجھتے مجھ پر ہنستے یا منہ چھپاتے ،سامنے
نہیں آتے۔
دلوں پہ دستک دینے والوں کندھوں پر جانے کا وقت تم پر بھی آئے گا۔آرزؤئیں ،
خواہشیں تمہیں بھی بے وفائی کے کفن میں دفنائیں گی۔
کھلونوں سے کھیلتی ، محبتوں میں پلی ، رشتوں میں جڑی جوانی خود پرائی آگ
میں جو کود پڑی۔
محبت جلتی پر تیل کا کام کر گئی۔پہلے تپش سے گرمائی، اب آگ سے جل گئی۔
جو تریاق تھے وہ زہر بن ڈستے رہے۔جو کنارے تھے وہ بے رحم لہریں بن ڈبوتی
رہیں۔
جن کے آنے سے زندگی کی امید ہوئی وہ لوٹے تو موت کا سکوت چھوڑ گئے۔ بے
وفائی کے ظالم ہاتھ نے سچائی کا گلا گھونٹ دیا۔ سانس لینے سے جو دل کی
دھڑکن تھے۔ سانس لینے کے دشمن ہو گئے۔
پلٹ کر مت دیکھ میں تاریک جنگل کا مسافر نہیں۔راستے میرے ہمسفر ہیں۔ درخت
میرے ہمراز ہیں۔کلیاں میرے مسکرانے کے انتظار میں ، ہوائیں آہ کی چاہتوں کی
بے قراری میں۔
یہ ایک کہانی ہے جو میری زبانی ہے۔
میں آپ کو سنا رہا ہوں ہاں میں اپنی بربادی کی داستان سنا رہا ہوں میں کیا
لکھ رہا ہوں مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا قلم چل رہا ہے لیکن الفاظ میرے نہیں
ہیں بلکہ میرے دل سے نکلے ہوئے آہ ہیں ۔
کیونکہ میں نے بہت منتیں کی بہت دلیلیں دی بہت فلسفہ پڑھائے لیکن وہ ایک
مجبور ماں تھی ہاں وہ مجبور ہی تھی مجھے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ وہ رشتوں سے
مجبورتھی میں یہی سمجھ رہا ہوں کہ وہ اپنی برادری سے مجبور تھی کیونکہ اگر
ایسا نہ ہوتا تو وہ مان جاتی لیکن
دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم
دلیلیں منتیں اور فلسفے بیکار جاتے ہیں
ہاں سب کچھ بیکار چلا گیا اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے میرا سب کچھ لٹ چکا ہے
میں ایک لاش بن چکا ہوں میرے حواس اب میرے قابو میں نہیں ہیں میرے حرکات
وسکنات میرے اختیار سے باہر ہو چکے ہیں اب بس ایک چلتا پھرتا مجسمہ بن کر
رہ گیا ہوں۔
تیری بے وفا محبت کا مزار بن گیا ھوں
مجمع لگا ھوا ھے تیرے خوابوں کا چار سو |