ریسکیو15 لودھراں! جدت کا حسین امتزاج

خواص کے برعکس عوام کی شدید خواہش ہے کہ پولیس کلچر کو تبدیل ہونا چاہئے۔ پولیس کلچر کا خاتمہ ہی عوام اور پولیس کے مابین وسیع خلیج کو پاٹ سکتا ہے کیونکہ اس تھانہ کلچر کی وجہ سے پولیس اور عوام کے درمیان دوریاں، فاصلے، نفرت ، بداعتمادی، خوف اور ڈر کے نام کی خلیجیں عرصہ دراز سے حائل ہیں اور بدستور بڑھتی جارہی ہیں اور ان فاصلوں کو ان نفرتوں اور اس بداعتمادی کو ختم کرنے کی کوششیں پیہم اور منظم انداز میں ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں ہیں بالخصوص حکومتی حلقوں میں تو اس حوالے سے بالکل جمود طاری ہے ۔ اس کی ایک وجہ یقینا ان کی اپنی مرضی بھی یہی ہے کہ عوام جتنا زیادہ پولیس سے دور رہے گی، پولیس سے خوف زدہ ہوگی اتنا ہی ان کو اپنے کام نکلوانے میں آسانی رہے گی ۔اشرافیہ ،امراء اورسیاسی گرگوں کی اجارہ داری بنی رہے گی۔ 1860 میں بنایا جانے والے پولیس کے نظام کا مقصد بھی یہی تھا کہ عوام میں حکمرانوں کا خوف و دبدبہ قائم رکھا جائے۔ عوام کو پولیس کے خوف میں مبتلا کرکے اپنی من مرضی کے کام کئے جاسکیں۔ انگریز نے عوام اور بالخصوص مسلم عوام کو دبانے کیلئے پولیس کو اس حد تک فعال اور طاقت ور بنادیا کہ وہ خوف کی علامت بن گئی۔ سندھ پولیس بھی اسی کا شاخسانہ تھی۔ پھر 1934 میں باقاعدہ طور پر پنجاب پولیس متعارف ہوئی اور جرم اور مجرموں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے مختلف diciplanary and administrative فنکشنز کا نفاذ ہوا۔ لیگل فریم ورک آف پولیس میں بڑی تبدیلیوں کے بعدpower of devolution کے تحت صوبے سے ضلعی اختیارات منتقل کر دیئے گئے۔تاکہ عوام کے دلوں میں پولیس کے خلاف خوف و بداعتمادی کی فضا کو ختم کیا جاسکے۔ اور اسی کو بھی مزیدبہتر بنانے کیلئے Public accountability of police کا نظام متعارف کرایاگیا۔ اور پھر پبلک سیفٹی کمیشن کا تعارف کرایا جانا بھی پولیس کو عوام میں مقبولیت دلانا تھا ۔ان بارہابار کی تبدیلیوں اور اصلاحات کا مقصد بھی پولیس سسٹم میں بہتری لانا اور اسے عوامی بنانا تھا ،اب بھی ہے اورشاید رہے گابھی۔

یہ پولیس کلچر یا تھانہ کلچر کیا ہے تھانہ کلچر سے مراد جہاں پر ہر طاقتور، ظالم، بااثر، جاگیردار ، رسہ گیر،غنڈہ اور بدمعاش فرد یا افراد کو عزت و تکریم دی جائے ان کے تما م جائزو ناجائزکام میرٹ کو پس پشت ڈالتے ہوئے کئے جائیں۔ جہاں پر مذکورہ بالا افراد کو کرسی پیش کی جائے۔ تھانہ کلچر سے مراد یہ بھی ہے کہ ایسے معمولات جس میں پولیس افسر سرکاری ملازم کم اور کسی سیاسی شخصیت اس کے گرگوں کا ملازم زیادہ دکھائی دے۔جہاں پر ظالموں ،مجرموں اور طاقتور وں کو جائے پناہ میسر ہو،باالفاظ دیگر جہاں پر شریف ،مظلوم کمزور غریب فرد یا افراد کی تذلیل کی جائے ان کے سامنے ملزم کو کرسی اور مدعی کو کھڑا کردیا جائے۔پولیس سٹیشن جاتے ہوئے شرفا اور غربا سو بار نہ سوچیں انہیں یقین کامل ہو کہ بالفرض اگر ہمارا ازالہ نہ ہوسکا تو کم از کم تذلیل و تحقیر تو نہ ہوگی تھانے میں موجود آفیشلز ہمیں بطور پبلک سلوک کریں گے ناروا رویہ نہ اپنائیں گے وغیرہ وغیرہ اگر درج بالا امور اور عوامل کو پولیس کے محکمہ سے ختم کردیا جائے اور اس با ت کو مد نظر رکھ کر میں نے بدلنا ہے جب میں تبدیل ہوجاؤنگا تو میرے اردگرد بھی تبدیلی محسوس ہوگی تو پھر یہ جوئے شیر لانے کے مترادف کام محض سہل ہوجائیگا۔اس سلسلے میں پولیس اور عوام کے درمیان تناؤ اور کھینچا تانی کو کم کرنے کے حوالے سے ملک اور خاص طور پر پنجاب میں کہیں کہیں سیمینار منقعد کرکے اس تناؤ اور ٹینشن کو کم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ان میں کتنا اخلاص تھا یا ہے یہ اس کی مقبولیت اور اثر پذیری سے ثابت کیا جاسکتاہے موجودہ حالات کے پیش نظر نتائج فی الحال صفر تھے لیکن اگر اس بات کو مدنظر رکھ کر کام کیا جائے کہ’’ دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں بس اخلاص اور جہد مسلسل ہونا چاہئے‘‘ تو اس محکمے میں بھی سدھار لایا جاسکتا ہے اور عوام اور پولیس کے درمیان حائل خلیج کو پاٹا جاسکتا ہے۔اس کے لئے معاشرے میں ہر فرد کو اپنی اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا پڑے گا کیونکہ جہاں ان کے حقوق ہیں وہاں ان پر فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔ اور ان کے حقوق بہتر انداز میں اسی وقت مل سکتے ہیں جب وہ اپنے فرائض بھی بہتر انداز میں ادا کریں۔

اب میں کہوں گا کہ ضلع لودھراں میں تھانہ کلچر کی تبدیلی کا آغاز ہوچکاہے پولیس کلچر تبدیلی کی طرف مائل ہے جس کی تازہ ترین مثال ڈی پی او لودھراں اسد سرفراز کی بہت سی عملی کاوشیں ہیں سب سے پہلے کہ مساجد میں کھلی کچہریوں کا انعقاد تاکہ کم سے کم معاملات میں بے ایمانی جھوٹ اور رشوت کا کلچر پنپ سکے۔سائل کی اپنے مسائل کے حل تک آسان اور ڈائریکٹ رسائی اس کی سب سے تازہ ترین مثال ریسکیو15 سروس کا جدید ترین نظام ہے جو کہ ملک بھر کیلئے جدت کا امتزاج لئے ہوئے ہے اور اسد سرفراز کی ذاتی کاوشوں اور اپنی مدد آپ کے تحت نافذ العمل ہوچکا ہے اور عوام تک اس کے ثمرات پہنچنا بھی شروع ہوچکے ہیں اس سروس کے تحت ضلع بھر کی 29 وہیکلز کو اس سسٹم سے انٹر کونیکٹ کردیا گیا ہے ان میں ٹریکرز اور لوکیشن انڈیکیٹرز کا مربوط نظام ہے جس کی وجہ سے کسی بھی گاڑی کوضلع بھر میں جائے وقوعہ پر پہنچنے میں5 سے20 منٹ درکار ہوتے ہیں ۔15 پر آنے والی کالز اس سٹیشن کے علاوہ مختلف دفاتر میں بھی ریکارڈ کی جاتی ہے اور اس کا ریکارڈ کسی بھی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے۔جیسے ہی شکایات موصول ہوگی کالر کو اس کا ایس ایم ایس automatically موصول ہوجائیگا۔ اس کے بعد فیڈ بیک کے طورپر بھی جب اس کال سے متعلق ایکشن مکمل ہوگا واقعہ کی انسپکشن کرائم سین اور انویسٹی گیشن کی تکمیل کے بعد اس کا اندراج ہوتے ہی متعلقہ کالر کو پھر سے میسج مل جائے گا۔ کسی بھی تھانہ میں درخواست کی submitionاورایف آئی آر کے اندراج کے فورا بعد مدعی کو بذریعہ ایس ایم ایس مطلع کیا جائے گا اور کسی بھی وقت assign کئے گئے نمبر کو بتاکر تازہ ترین معلومات بھی تھانے آئے بغیر حاصل کی جاسکتی ہیں۔اسد سرفراز نے پولیس پر لگے داغ کو مزید dim کرنے کیلئے ضلع بھر کے تمام بنکس، بڑے سکولز،کالجز، شاپس، تمام تھانے اور چوکیاں،ہوٹلز، پٹرول پمپ ، جیولری شاپس پبلک مقامات کو بھی IP ایڈریس کے حامل سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے مانیٹرکیاجارہاہے حتی کہ ہوٹلزکے ریکارڈزکو اس انداز میں منظم کیا جاچکا ہے کہ کسٹمرکے چیک ا ن اور چیک آؤٹ کی اطلاع، ان کی تعداد اور ٹاٹمنگ کے ریکارڈ کو بھی مربوط کرلیا گیا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی اجنبی اور مشکوک شخص کے بارے میں باآسانی معلومات حاصل کی جاسکیں گی۔پولیس نفری کی کمی اور وسائل کے محدود ہونے کی شکایات کا حل بھی اسی میں مضمر ہے انہوں نے افرادی قوت بڑھانے کی بجائے انٹیلی جنس کی طاقت کے دریعے اور دورجدید میں استعمال ہونے والے موبائلز انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کی مدد سے اس مسئلے پر بھی قابو پالیا ہے ۔اب ایک شخص دس لوگوں کے برابر کام کرنے کی capacity کا حامل بن چکا ہے مزید روایتی کلچر کو ختم کرتے ہوئے ریسکیو15 سروس میں تعینات عملے کی یونیفارم بھی سول ہے جس سے مزید پولیس کی چھاپ والہ امیج ختم ہوگیا ہے اس میں آ ر پی او ملتان طارق مسعود یسین جیسے لوگوں کی سرپرستی اور جواد سخا جیسے ایماندار اور فرض شناس پولیس آفیسرز کی معاونت بھی کاونٹ کرتی ہے

درج بالا عمل کاموں سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈی پی او لودھراں اسد سرفراز اس بات کو ثبوت کررہے ہیں کہ ہر شخص کو اپنی ڈیوٹی حقیقی معنوں میں ادا کرنی چاہئے پولیس کو سرکار کی ملازم اور پبلک سرونٹ کے طور پر اپنا کردا ر ادا کرنا چاہئے بطور محکمہ ٹریٹ کیاجانا چاہئے اسے سیاسی رکھیل نہ بنایا جائے کسی بھی معاملہ کو میرٹ پر حل کرنے کی اجازت دی جائے ۔مظلوم کی داد رسی ہو اور ظالم کی رسی کھینچی جائے ۔ علاوہ ازیں صحافتی سرگرمیوں کو اثر انداز نہ ہونے دیا جائے،محکمانہ influence ختم کردیا جائے اقربا پروری ، اپنی پسند و ناپسند کی ترجیح کو نکال دیا جائے پولیس میں زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے ، انکی تربیت بھی جدید اور تعلیمی طریقوں پر کی جائے اور سب سے اہم بات کہ پولیس کو سہولیات کی فراہمی بہتر کی جائے جس میں نفری میں اضافہ،تنخواہ اور سہولیات میں اضافہ ، 24 گھنٹے ڈیوٹی میں کمی ، جدید آلات کا مہیا کیا جانا تو یقینا پولیس کی کارکردگی اور پولیس کا عوام سے باہمی تعلق 75 فیصد تک خوشگوار اور بہتر ہوسکتا ہے ۔اور معاشرے سے پولیس کا خوف ، پولیس سے نفرت اور بداعتمادی کی فضا کوختم کیا جاسکتا ہے

اس حوالے سے گذشتہ ادوار میں کاوشیں بھی کی گئیں۔اس امر کوقابل عمل بنانے کیلئے ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا۔جس کا مقصدپولیس کا ’’قبلہ درست‘‘کرنا مطلوب تھا کیونکہ اس بات کو یقیناشدت سے محسوس گیا گیا کہ اس محکمے میں سدھار لانا از حد ضروری اور وقت کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ عملہ کریجویٹ ہوگا اور محرر و ڈیوٹی افسر کمپیوٹر لٹریٹ رکھے جائیں گے ۔ ان تھانوں میں کمیونٹی پولیسنگ کا نظام رائج کیا جائے گا یعنی روایتی انداز میں جھاڑ پلانے کی بجائے مشروبات سے عوام کی تواضع کی جائے گی اور گالی گلوچ اور بدتمیزی کلچر کی بجائے سب کو عزت و احترام دیا جائے گا۔
 
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211796 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More