محبت پھول جیسی ہے - قسط 26

یکم جون 2012 بروز جمعہ
مہک کے ساتھ گزارے گئے لمحے میری زندگی بننے لگے۔جانے انجانے میں وہ میری زندگی کا حصہ لگنے لگی۔ ایسا لگنے لگا کہ وہ میرے وجود کا جزو بن گئی۔ اس کی معصوم باتیں جب تک میں سن نہ لیتا میرے وجود کو چین نہ آتا۔اس کے ساتھ وہی اپنائیت محسوس ہوتی جیسا کہ اس کےساتھ۔۔ پانچ سال پہلے کا احساس ایک بار پھر جاگ اٹھا۔

کچھ دن پہلے امی کی برسی تھی۔ جس کی وجہ سے میں سکول نہ جا سکا۔ اس دن کی تمام میٹنگ منسوخ کرنی پڑی۔ اگلے دن جانے پر معلوم ہوا کہ مہک کی والدہ مجھ سے ملنے آئی تھیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ شائد میں کچھ زیادہ ہی مہک کے ساتھ وقت گزار رہا ہوں جو کہ اس کے والدین کو اچھا نہیں لگ رہا اور ویسے بھی یہ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی والدین اپنے بچوں کے لیے اتنے فکرمند تو ہوتے ہی ہیں۔اس لیے میں نے اپنے آپ کو ایک بار پھر سے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر اکسایا۔ مگر اس معصوم سے چہرے کے سامنے سارے ارادے ہوا ہوگئے۔ سوچ بالکل بدل گئی۔ وہی ہنسی، وہی مذاق، وہی باتیں ہونے لگیں۔ جب میں مہک کا چہرہ دیکھتا تو فورا میرے ذہن میں کرن کا وجود چھا جاتا۔ اسی کا خیال میرے وہم و گمان پر حاوی ہوجاتا۔ اسی لیے بار بار یہی دل چاہتا کہ مہک کو دیکھتا جاؤں تاکہ چند دنوں کو کاٹ سکوں۔ جو میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یکم اگست 2012 بروز بدھ
دل کی بے قراری ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑگتی جارہی تھی۔ گنتی کے دن گزارنا محال ہوتا جارہا تھا۔ آنے والا کل آج جینے نہیں سے رہا تھا۔ اس لیے اپنے وعدے کی پاسداری کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا تھا۔ بہت سنبھالا دینے کی کوشش کی مگر میں ہار گیا۔ دل جیت گیا اور میں اس کے گھر کی طرف چل دیا۔ پورا راستہ دل خوشی سے باغ باغ رہا کہ آج تو اس سے ملنے جارہا ہے جس کے لیے پانچ سال انتظار کیا۔ ایسا لگا کہ کہ گیا وقت واپس آگیا۔ مگر تاریخ نے اپنے آپ کو ایک بار پھر سے دہرایا۔ بس فرق صرف اتنا تھا کہ اس دن دروازہ کھلا ملا تھا مگر آج دروازے پر تالہ ملا۔ ایک بار پھر سے سپنے چکنا چور ہوگئے۔وہی درد جو پانچ سال پہلے ملا تھا ایک بار پھر سے ابھر آیا۔ ایک بار پھر سے اسی درد نے جنم لے لیا۔ وہی آنسو پھر سے امڈ آئے۔ اِدھر ادھر اس کے بارے میں بہت دریافت کیا مگر کچھ خبر نہ ملی۔ اور مل بھی تو یہ خبر ملی کہ وہ پانچ سال پہلے یہاں سے جا چکی ہے۔یہ خبر میرے لیے ایسا وار ثابت ہوئی جس نے مجھے زمین پر کھڑے نہ رہنے دیا۔ آنکھیں اشک بہاتے بہاتے ایک دم بے نور ہوگئیں۔ ہر طرف تاریکی چھا گئی۔ اپنے آپ کو بہت سنبھالا مگر وار اتنا زبردست تھا کہ میں پل بھر میں زمین پر تھا۔ آگے کیا ہوا مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ بس اتنا معلوم ہے کہ جب آنکھیں کھلیں تو خود کو لوگوں کہ ہجوم میں پایا۔ ہر کسی کی آنکھیں میری طرف مرتکز تھیں۔
"بیٹا! کیا ہوا؟ " ان میں سے ایک نے پوچھا
"ٹم ٹھیک تو ہو ۔۔؟" دوسری آواز آئی
میں نے کھڑا ہونے کی کوشش کی مگر سر چکرانے لگا لیکن ہمت کرکے کامیاب ہوگیا۔ اور خاموشی سے چل دیا۔ آنکھوں نے ایک بار پھر اشک بہانا شروع کردیے۔ گھر آکر کب تک تنہائی میں اندھیرے کو تکتا رہا۔۔۔ وقت کی پتا ہی نہیں چلا۔باہر کا اندھیرا اندر کے اندھیرے کے مقابلے میں بہت کم تر محسوس ہوا۔ غم کی شِدت اتنی زیادہ تھی کہ نہ میں کچھ کہہ پا رہا تھا اور نہ ہی کچھ سوچ پا رہا تھا۔۔ بس ایک اداسی چہرے پر چھائی ہوئی تھی۔
"ایک انتظار ۔ ۔۔۔۔۔ صرف انتظار ہی تو مانگا تھا میں نے تم سے ۔ ۔۔ تم وہ بھی نہ کرسکی؟ کہاں چلی گئی ہوتم؟ کیا انتظار کرنا اتنا محال تھا ؟" اس کی تصویر کو ہاتھوں میں لے کر سوال پوچھتا ہوں مگر کوئی آواز نہیں آتی ۔
"الولداع دانیال۔۔۔۔ میں جارہی ہوں" ایک سرگوشی ہوا میں گونجنے لگتی ہے
"تمہارا کیا مطلب تھا؟ اگر جانا تھا تو اسی دن بتا دیتی۔۔۔ میں انتظار تو نہ کرتا۔۔ تمہارے لیے اتنا پاگل تو نہ بنتا۔ پچھلے پانچ سال۔۔۔۔ تم جانتی بھی ہو میں نے ایک دن کی خاطر میں نے کیسے گزارے۔۔۔ اور تم نے کیا کیا؟۔۔۔ وہ دن ہی چھین لیا مجھ سے۔۔۔۔ ایک بار پلز۔۔۔ صرف ایک بار ۔۔۔ واپش آجاؤ۔۔ پلز ایک بار۔۔۔۔ تمہیں خدا کا واسطہ۔۔۔ واپس آجاؤ۔۔۔" آنکھوں کی اشک جاری رہتے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
14 اگست 2012 بروز منگل
یہ چودہ دن پچھلے پانچ سالوں سے بڑھ کر تھے۔ پانچ سالوں میں ایک آس تو تھی کہ کوئی ہے جو میرا انتظار کر رہا ہے۔ کوئی ہے جو میری راہ تک رہا ہے ۔ میرے لیے اپنی زندگی کاٹ رہا ہے۔ مگر چودہ دن۔۔۔ میرے لیے کانٹے ثابت ہوئے۔یہ ہمسفر، نہ ہمنوا، نہ کوئی ساتھی، نہ کوئی رہبر، کوئی میرانہیں ۔۔۔ خود کو بہت تنہا محسوس کیا۔۔
" بعض اوقات انسان کچھ فیصلہ جلدی میں کرلیتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے کچھ غلط کیا ہے مگر تب تک کافی دیر ہوجاتی ہے۔" امی کی باتیں مجھے یاد آنے لگتی ہیں۔
"امی آپ ٹھیک کہتی تھیں۔۔۔ شائد میں نے کچھ زیادہ ہی جلدی فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔
" آج اس کی خوشی تمہارے ساتھ ہے لیکن اگر وہ کل کسی اور کو پسند کر لے تو۔۔۔۔۔ کیا کرو گے تم؟ ۔۔۔۔۔ پل دو پل کی خوشی عمر بھر کا روگ بن جائے گی" ایک بار پھر سے یہ سرگوشی ہوتی ہے
" کاش ۔۔۔ میں آپ کی بات مان لیتا۔۔۔ کاش میں آپ کے ڈر کو سمجھ پاتا۔۔ کاش۔۔۔۔! اگر سمجھ لیتا تو آج اس درد سے نہ گزرتا۔۔۔ یہ روگ مجھے نہ لگتا۔۔ آپ کا کہا گیا ایک ایک لفظ سچ ہوگیا ۔۔۔ اس نے مجھے عمر بھر کا روگ دے دیا۔۔۔"

باکل تنہا۔۔۔ سورج، چاند ستارے بھی اتنے تنہا نہیں ہوتے جتنا آج میں خود کو محسوس کر رہا ہوں۔ اس تنہائی کو کبھی گلی کوچوں میں گزارا تو کبھی اشک بہاتے ۔ کبھی یادوں کا سہارا لیا تو کبھی تصویروں سے باتیں کرکے تنہائی کو بانٹنیں کی کوشش کی۔ کبھی دروازے پر نگاہیں رکھیں تو کبھی اپنی قسمت پر کہ شائد وہ لوٹ آئے۔۔۔۔۔

کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب میں نے تمہیں نہ ڈھونڈا ہوا۔ ایک ایک پل تمہاری تلاش میں گزارا۔ اتنا پچھلے پانچ سالوں میں بھی بے چین نہیں رہا جتنا ان چودہ دنوں میں تمہارے لیے بے قرار رہا۔ اگر تم تک پہنچنے کے لیے آگ کا دریا بھی پار کرنا پڑتا تو کر دیتا۔۔۔۔
انہی کانٹوں پر چل کر ، آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اگر کوئی کانٹے بھی بچھا دیتا تب بھی میں تمہاری تلاش جاری رکھتا کیونکہ میرا حاصل صرف تم تھی۔ میں جو کچھ بھی ہوں صرف تمہاری وجہ سے ۔ اگر تم مجھے نہ ملی تو سب کچھ بے معنی ہے۔ یہ دھن، یہ دولت۔۔۔۔ یہاں تک کہ میں خود بھی۔۔ اگر تم میری قسمت میں نہیں ہوئی تو میری زندگی بھی ختم ہوجائے گی۔ میری سانسیں رک جائیں گی۔ میں نہیں جانتا کہ کب تک ان سانسوں کا ساتھ ہے لیکن اتنا جانتا ہوں کہ میرے پاس زیادہ دیر نہیں ہے۔ بہت کم وقت ہے۔ مجھے اس وقت تمہاری بہت ضرورت ہے۔ اگر تم نے مزید دیر کی تو بہت دیر ہوجائے گی۔ فاصلہ بہت بڑھا جائے گا۔ شائد جہان ہی بدل جائے۔ منزلیں ہی بدل جائیں۔ صرف ایک بار میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میری چاہت تمہیں واپس آنے پر مجبور کردے گی۔ مجھے اپنی محبت پر یقین ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی قسط کی جھلکیاں:
پانچ سالوں کا انتظار ختم ہونے کو ہے ۔ ۔۔۔ ملن دوبارہ ہونے کو ہے۔۔۔
لیکن۔ ۔ ۔ کیا منزلیں بھی ایک ہونے کو ہیں؟ یا پھر۔۔۔۔۔۔
جانیے" محبت پھول جیسی ہے " کی اگلی قسط میں
Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 107023 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More