٦٧ ہزار سات سو چھتیس ان جی اوز ! واہ بھئی واہ
(Salman Rehmani, karachi)
پاکستان میں ٦٧ ہزار سات سو چھتیس ان جی اوز ہیں کہیں ایسا تو نہیں پاکستان کو معاشی ،اخلاقی اور تہذیبی طور پر کھوکھلا کیا جا رہا ہے ۔آئین یا اسلام کے احکامات سے ٹکرانے والی کوئی بھی این جی او کبھی بھی مسلمان معاشرے کیلئے مثبت یا مفید ثابت ہوہی نہیں سکتی |
|
حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا
ہے کہ پاکستان میں 67 ہزار سات سو چھتیس این جی اوز فعال ہیں ان میں سے 47
ہزار چارسو تین پنجاب میں 10 ہزار خیبرپختونخوا میں چھ ہزار ایک سو پچاس
سندھ میں اور بلوچستان میں دوہزار سات سو چھپن این جی اوز کام کر رہی ہیں۔
شکر ہے خدا کا کہ موجودہ حکومت نے کھبنیوں کی طرح اگنے والی این جی اوز کی
گنتی تو مکمل کی ورنہ لگ یہ رہا تھا کہ نواز شریف حکومت کی عمر مکمل ہو
جائے گی لیکن این جی اوز کی گنتی مکمل نہیں ہوسکے گی بہرحال میرے نزدیک اس
کا کریڈٹ بھی چوہدری نثار علی خان کی زیر قیادت وزارت داخلہ کو جاتا ہے کہ
جس نے کڑوا گھونٹ بھر کر این جی اوز کی گنتی کو مکمل کرنے کا فریضہ سرانجام
دے ہی ڈالا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں جو 67 ہزار7 سو 36 غیر سرکاری تنظیمیں یعنی این
جی اوز کام کر رہی ہیں ان کا کام ہے کہاں؟ اور وہ کیا کیا کام کر رہی ہیں؟
ان ملکی اور بین الاقوامی این جی اوز کے مقاصد منشور اور دستور کیا ہیں؟ ان
میں کام کرنے والے لاکھوں افراد ان این جی اوز کے سربراہان مالکان وغیرہ
وغیرہ کے اللوں تللوں دفاتر گھروں ہوٹلوں کے اخراجات کے علاوہ ان کی بھاری
بھر کم تنخواہوں کیلئے فنڈز کہاں سے آتے ہیں؟
ان میں سے کتنی این جی اوز ہیں کہ جن کے خواتین وحضرات اور ان کے پیرول پر
کام کرنے والی لڑکیاں اور لڑکے آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں؟ پاکستان کی
خودی خودمختاری اور اسلامی تشخص کو تسلیم کرتے ہیں؟ اور ملکی قوانین کے
سامنے سرتسلیم خم کرنا اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں؟ممکن ہے کہ ان 67 ہزار سے
زائد این جی اوز میں بعض ایسی این جی اوز بھی شامل ہوں کہ جن کی پاکستانیوں
کے لئے بہت اچھی خدمات ہوں وہ غریبوں یتیموں مسکینوں اور آفت زدہ لوگوں کی
ویلفیئر کیلئے کام کر رہی ہوں ان چند ایک یا چند درجن غیر سرکاری تنظیموں
کو چھوڑ کر باقی ہزاروں این جی اوز کیا پاکستان کی زمین کے نیچے کام کرتی
ہیں یا پھر ان کا کام فضائوں میں ہوتا ہے؟ چوہدری نثار اگر ہمت کرکے عوام
کو یہ راز بھی بتا دیں تو ممکن ہے کہ قوم کا بھلا ہو جائے اور غربت سے تنگ
آکر این جی اوز کے چنگل میں پھنسنے والے نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ان کے دام
فریب میں آنے سے بچ جائیں قارئین کو اگر یاد ہو تو کچھ سال قبل سوات میں
ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی وڈیو منظر عام پر لائی گئی تھی بعد میں یہ خبریں
منظر عام پر آئیں کہ یہ وڈیو جعلی اور خودساختہ تھی اس جعلی وڈیو کو متعارف
کروانے کا فریضہ بھی ایک این جی او کی خاتون نے سرانجام دیاتھا مختاراں
مائی کا معروف زمانہ واقعہ سب کے سامنے ہے اس کیس میں سپریم کورٹ آف
پاکستان نے مختاراں مائی کے خلاف فیصلہ دیا لیکن بعض این جی اوز نے اس
خودساختہ واقعہ کی بنیاد پر پاکستان کو دنیا بھر میں جی بھر کے بدنام کیا
اور دونوں ہاتھوں سے ڈالر سمیٹے۔
کہا جاتا ہے کہ این جی اوز کی آڑ میں ملکی راز چوری کرکے پاکستان دشمنوں کے
ہاتھوں میں فروخت کیے جاتے ہیں حقوق نسواں کے نام پر الیکٹرانک چینلز کو
منہ مانگنے داموں خرید کر این جی اوز اسلام کے احکامات کے خلاف جس طرح کا
پروپیگنڈہ کرچکی ہیں وہ بھی ہر ذی شعور جانتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستا ن ایک نظریاتی اسلامی مملکت ہے مگر اس ملک کے
دارالحکومت اسلام آباد میں بعض این جی اوز کے کل پرزے اجلاس کرکے حکومت سے
یہ مطالبے کرتے ہیں کہ پاکستان میں شراب پر سے پابندی ہٹائی جائے اور یہ
بھی کہ مرزا قادیانی کے پیروکاروں کو مسلم فرقہ تسلیم کیا جائے؟کیا پاکستان
کے قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا یا قوانین کے خلاف اجلاس کرنا این جی
اوز کے دائرہ کار میں آتا ہے؟
مزید حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والا ایک
نظریاتی ملک ہے جہاں چار مختلف مسالک کے پیروکار کروڑوں کی تعداد میں بستے
ہیں مگر ان چاروں مسالک کے کل مدارس کی تعداد تقریبا 30 ہزار کے لگ بھگ
بنتی ہے لیکن حکومت نے سپریم کورٹ کو جو اطلاع دی ہے ا س کے مطابق پاکستان
میں فعال این جی اوز کی تعداد67 ہزار سات سو چھتیس کے لگ بھگ ہے چار صوبوں
کے ایک چھوٹے سے ملک میں انسانی حقوق عورتوں کے حقوق بچوں کے حقوق ملازمین
کے حقوق قیدیوں کے حقوق عوام کے حقوق ظالموں وڈیروں کے خلاف غربت کے خاتمے
اور غریبوں کی فلاح کے نام پر نصف لاکھ سے زائد این جی اوز میدان عمل میں
اترنے کی دعویدار ہیں لیکن اس کے باوجود معاشرے میں انسانی حقوق کی پامالی
پہلے سے دوچند ہوچکی ہے عورتوں کا استحصال ہو رہا ہے بچوں پر مظالم بھی بڑھ
چکے ہیں غربت اور غریبوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جارہی ہے تو اس کی کیا
وجوہات ہیں؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی کھو بیٹھا عالمی استعمار
مسلمانوں کے ملک میں این جی اوز کا جال بچھا کر پاکستان کو معاشی اخلاقی
اور تہذیبی طور پر کھوکھلا کرنا چاہ رہا ہے طرفہ تماشہ یہ ہے کہ
یونیورسٹیوں یا کالجز کی ڈگریاں اٹھائے جو روزگار کی تلاش میں مارے مارے
پھررہے ہوتے ہیں ان میں سے ہر دوسرا نوجوان این جی او یاتو بنالیتا ہے یا
پھر جوائن کرلیتا ہے۔
ایسے نوجوانوں کو جب وافر قسم کا روز کا وظیفہ ملتا ہے تو پھر غیر ملکی این
جی اوز جو چاہیں کام لے سکتی ہیں غیر سرکاری تنظیمیں اس وقت معاشرے کے لئے
رحمت ثابت ہوتی ہیں کہ جب وہ معاشرے کیلئے مفید کام سرانجام دے رہی ہوں
آئین یا اسلام کے احکامات سے ٹکرانے والی کوئی بھی این جی او کبھی بھی
مسلمان معاشرے کیلئے مثبت یا مفید ثابت ہوہی نہیں سکتی۔ |
|