سول سرونٹ بہادر خواتین

ایک وقت وہ تھا کہ خواتین کو صنف نازک سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا تھا۔اسے گھریلو ملازمہ سے زیادہ حثیت و مقام دینا اپنی ہتک تصور کی جاتی تھی یا پھر نسل انسانی کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھا جاتا……جبکہ ہمارے مشرقی معاشرے کی شرم و حیا کی چادر میں لپٹی خواتین گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں بھی ہاتھ بٹانا اپنی ذمہ داری خیال کرتیں…… اس سب کے باوجود اگر کسی خاتون یا لڑکی نے خاندان کی مشکلات میں کمی لانے کی غرض سے کہیں کام کاج کرنا چاہا تاکہ وہ اپنے خاندان کے نامساعد حالات میں ہاتھ بٹا سکے ،اپنے باپ اور بھائیوں کے کندھوں سے بوجھ ہلکا کرنے میں انکی مدد کرپائے، تو سب اسے ایسے دیکھتے جیسے اس نے لنکا ڈھا دی ہو۔ سب اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے۔’’ اپنی مردانگی ‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئے فیصلہ دیتے کہ ’’کڑئیے تو کوئی کم وم نئیں کرنا اسی مرتے نئیں گئے کہ تو ساڈے جیوندیاں گھروں باہر جاکے کم کاج کریں‘‘ بیٹیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے سکول اور کالج تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ……بیٹوں کو ہر طرح کی مکمل آزادی حاصل ہوتی وہ جو چاہے کریں…… سیاہ کریں یا سفیدی کریں، انہیں کسی قسم کی روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج حالات اس سے بالکل مختلف ہیں، اکیسویں صدی میں لڑکیوں نے ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں، تعلیمی میدان کا چیلنج ہو یا کھیلوں کا میدان۔صنعتی اداروں میں محنت مزدوری کی فیلڈ ہو یا پھر سرکاری ملازمت کا پیشہ ہو یا پھر میدان حرب ہو ……سب جگہ آج خواتین مردوں کے شانہ بشانہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا ہی نہیں منوا رہیں بلکہ اپنے جوہر بھی دکھا رہی ہیں۔

آج خواتین جنہیں صنف نازک قرار دیکر گھروں کی چار دیواری میں قید رکھنے میں فخر و غرور سمجھا جاتا تھا آج وہیں خواتین فیکٹریوں میں مردوں کے شانہ بشانہ محنت کرنے سے عدلیہ میں انصاف کی کرسی پر بیٹھ کے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں …… وطن عزیز کی تعمیر وترقی کے لیے افواج پاکستان سے وزارت خارجہ تک مردوں سے بہتر خدمات سرانجام دینے میں پیش پیش دکھائی دیتی ہیں۔سول جج سے لیکر اعلی عدلیہ کی مسند انصاف پر بیٹھ کر اہم مقدمات کے فیصلے سنا رہی ہیں۔ سول سروس میں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ سے پولیس گروپ ہو یا سکریٹریٹ گروپ ہو غرض سب جگہ آپ کو خواتین اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتی نظر آئیں گی، اسسٹنٹ کمشنر ، ڈپٹی کمشنر جیسے انتظامی عہدوں اور پولیس میں کانسٹیبل سے لیکر ڈی ایس پی اور ایس ایس پی کے پر خطر منصب پر تعینات ہوکر اضلاع میں امن وامان کی صورت حال کو قائم رکھنے اور انتظامی امور اور دہشت گردی کی جنگ میں ’’جواں مردوں‘‘ سے کہیں بہتر نتائج دکھا رہی ہیں۔ اس وقت پنجاب کے آدھے سے زیادہ ڈسٹرکٹ اور تحصیلوں میں ڈپٹی کمشنر ، اسسٹنٹ کمشنر اورڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سمیت دیگر اہم عہدوں پر خواتین تعینات ہیں۔

وفاقی محکموں میں بھی خواتین بیوروکریٹس بہتر کردار ادا کرکے ملکی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں’’ نرگس سیٹھی ‘‘ کا نام سن کر بڑے بڑے دبنگ بیوروکریٹس کے پسینے چھوٹ جاتے تھے ،وہ جس محکمہ میں بھی تعینات ہوئیں ‘‘ہلچل ‘‘ مچ گئی ،آخر کار حکمرانوں کو اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث انہیں وزارت پانی و بجلی کی سکریٹری کے منصب سے قبل از ریٹائرمنٹ طویل رخصت پر بھیج کر ان سے جان چھڑوائی……پنجاب فوڈز اتھارٹی کی ڈائریکٹر عائشہ ممتاز اور ضلع شیخوپورہ کی ڈی سی او ’’کرن خورشید‘‘ بھی اپنے جرااتمندانہ کردار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ’’بسیرا ‘‘ کیے ہوئے ہیں، عائشہ ممتاز نے لوگوں کو حرام اشیاء خصوصا گدھوں اور مردہ جانوروں کے گوشت سے نجات دلانے کا مشکل ترین ذمہ اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لیے بھرپور جدجہد کر رہی ہیں ،اسی طرح ضلع شیخوپورہ کی ڈی سی او کرن خورشید جنہیں ’’خاتون آہن‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ انہوں نے ضلع میں اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور بڑے سے بڑے ناجائز خور، حرام خور کو ’’نتھ‘‘ ڈال کر ثابت کیا ہے کہ وہ کسی سے ڈرنے اور دبنے والی نہیں ہیں ۔ڈی سی او کرن خورشید ضلع شیخوپورہ سے ناجائز تجاوزات سے پاک کرنے اور اسے خوبصورت بنانیکے مشن پر چل رہی ہیں ‘ ایسی ہی ایک بہادر دختر پاکستان بطور اسسٹنٹ کمشنر تحصیل شرقپور شریف نہایت دلیری و بہادری اور جرآت مندی سے عوام اور ملک کی خدمت سرانجام دے رہی ہے، جو مردوں کے اس معاشرے میں جس میں مردوں کی بالا دستی کا تصور غالب ہے۔ ’’ جری جوانوں کی طرح بلا خوف و خطر اپنے فرائض منصبی ادا کر رہی ہے ‘‘ میں زیادہ دیر آپ کو تجسس میں نہیں رکھنا چاہتا ،میری مراد ’’میڈم نورش صبا ‘‘سے ہے۔۔ میڈم نورش صبا کاپنجاب کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق ہے ان کے والد پاک فوج کے ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ میڈم نورش صبانے انتظامی عہدے پر کام کرتے ہوئے مشکل سے مشکل ٹاسک کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور اسے حاصل کرکے خود کو اپنے ’’بگ باسز‘‘ کے سامنے سرخرو کرکے انکا سر فخر سے بلند کیاہے، میڈم نورش صبا ء نے ایسے ایسے پیچیدہ کام کرنے کی ذمہ داری قبول کی جنہیں ہمارے’’دبنگ مرد حضرات‘‘ سرانجام دینے سے گریزاں رہے، میڈم نورش صباء ؟انہوں نے اپنی سول سروس کی زندگی کی ابتدا کیسے کی؟

ان کے والدپاکستان آرمی سے کرنل کے منصب سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں، آرمی میں انکی خدمات کے صلے میں انہیں تمغہ امتیازسے نوازا ،انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی فیملی میں سے سول سروس میں جوائن کرنے والی پہلی فرد ہیں عموما ہمارے معاشرے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ خواتین بھاری ذمہ داریاں نبھانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں لیکن یہ خاتون سول سروس جوائن کرکے خواتین کے بارے میں پائے جانے والے اس تاثر کو بدلنا چاہتی ہے میڈم نورش صبا سول سروس میں آنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ اس فیلڈ میں آگے بڑھنے ، بلدیوں کو چھونے اور ترقی کے بہت مواقع موجود ہوتے ہیں اور اسکے علاوہ رنگ برنگے لوگوں سے ملنے کا تجربہ انسان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے ،میں نوجوان نسل کی نمائندہ بچیوں کو باور کرانا چاہتی ہوں کہ وہ روایتی تعلیم سے باہر نکلیں اور صحت اور تعلیم کے شعبہ کے ساتھ ساتھ سول سروس میں آکر ملک و قوم کی خدمت کریں-

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بچپن ہی سے ’’وکھری ٹائپ ‘‘ کی لڑکی تھی جرآت مندانہ کام کرنے کو ترجیح دیتی تھی ،پھر ان کے والد نے ان حوصلہ بڑھا یااور تھپکی دی کہ شاباش بیٹا ! ہمت ،جرآت و جوش اور جذبے کے ساتھ ٓاگے بڑھو اور ملک و قوم کی خدمت کرو ……ہاں انہیں ایک گلہ یا شکایت ضرور کرتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں صنفی امتیاز بہت پایا جاتا ہے…… یہ خاتون محض تنخواہ لینے کی غرض سے آفس نہیں آتی اور نہ ہی آفس میں ہی بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتی ہے ،یہ سمجھتی ہے کہ میرا کام عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی ہے اس لیے وہ آفس سے باہر نکل کر عوام کے حقوق کے خلاف کام کرنے والے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نبٹتی ہے گرانفروشوں ناجائز فروشوں اور ملکی قوانین کی خلاف ورشی کرنے اور سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیے ہمہ تن تیار رہتی ہے، جب اپنے آفس سے باہر نکلتی ہے تو ہر طرف شور مچ جاتا ہے ،اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے لیے وہ کسی قسم کے خوف اور ڈر کو اپنے نزدیک نہیں آنے دیتی……ایسی ہی خواتین پر قومیں فخر کیا کرتی ہیں -

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144529 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.