انسان بھی عجیب ہے، اپنے
غلط فیصلوں اوررویوں پر فطرت کا ٹیگ لگاتا ہے اور خودبری الزمہ ہوجاتا ہے
کہ اس نے جو کچھ بھی کیا وہ تو عین فطرت ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور
نہیں۔ اپنے غلط فیصلوں کو خدا کی مرضی کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن ایک لمحے کے
لیے خدا کی بنائی ہوئی اس خوب صورت کائنات پر نظر دوڑائی جائے تو اس خدا کی
عظمت کا اندازہ ہوتا ہے جو انسان سے ایک ماں کے مقابلے میں بھی ستر گنا
زیادہ محبت کرتا ہے اور یہ حقیقت روشن ہوکر سامنے آتی ہے کہ اتنی خوب صورت
کائنات کا بنانے والا بدصورت فطرت کا خالق کیسے ہوسکتا ہے؟
فطرت کا ٹیگ لگانے کے جس عمل کی میں نے بات کی اس کا سب سے زیادہ شکار
ہمارے معاشرے میں عورت ہوتی ہے۔ عورت جسے دین اسلام نے عزت دی، حقوق دیے،
وہ آج اسی ملک میں رسوا ہورہی ہے جس ملک کو ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا
تھا۔ جس ملک کے نام میں ہی لفظ اسلامی پہلے آتا ہے اور اس کا نام بعد میں،
یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ آج اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حوا کی
بیٹی کی عزت کو پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔ کبھی اس کے دوپٹے کو تار تار
کیا جاتا ہے۔ تو کبھی اس کی روح کو معاشرے کے طعنے چھلنی کر دیتے ہیں۔ ہم
تو یہ بات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسا کچھ
ہوتا ہے، لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ یہاں ہر دن کہیں نہ کہیں حوا کی بیٹی
اپنی عزت اور وقار کو بچائے اپنے اندر ہی سسک سسک کر مر رہی ہے۔ اس کی پکار
سنے والا کوئی نہیں اور اگر کوئی سن بھی لے تو ہمارا معاشرہ ایسی خواتین کو
برداشت ہی نہیں کرتا جو اپنے اوپر ہونے والی ظلم کی روداد معاشرے کے سامنے
لائیں۔ اگر ایک عورت اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے ازالے کے لیے قانون کا
دروازہ کھٹکھٹائے اور انصاف کی متلاشی ہو تو اسے بے شرمی کا طعنہ اور چپ
رہنے کا درس دیا جاتا ہے، ایسی خواتین کو ہماری سوسائٹی قبول نہیں کرتی۔
مرد اگر عورت کے ساتھ کچھ غلط کرے تو اسے عین فطرت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اور ان ’’عین فطرت‘‘ اعمال میں سڑکوں اور دفاتر میں خواتین کو ہراساں کرنے
سے گھروں میں انھیں تشدد کا نشانہ بنانے تک ظلم کا ہر عمل شامل ہے۔ اس
حوالے سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی
عظمی بخاری کے مطابق تین سال کی تگ ودو کے بعد خواتین پر ہونے والے تشدد کی
روک تھام کے لیے بل تیار کرلیا گیا ہے، جو اسمبلی کے اگلے سیشن میں منظور
کرلیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بل کی رو سے تشدد کی شکایت سامنے آنے
کے بعد کی کارروائی میں کہیں مرد اہل کار نہیں ہوں گے اور ڈیسک سے لے کر
فارنسک لیبارٹری تک عورتیں ہی ہوں گی۔ متاثرہ خاتون کی شکایت پر ایف آئی آر
کٹے گی اور اسے تحفظ بھی ملے گا اور اس کی پراسیکیوٹر بھی خاتون ہی ہوگی۔
عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ یہ بل پیش کرنے کے سلسلے میں اَنھیں اپنے ہی
ساتھیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ظاہر ہے یہ ساتھی سیاست داں ہی ہوں
گے۔ ان کی جماعت کے منتخب نمائندے، جنہیں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی
منتخب کیا ہے۔ پھر ان کی جانب سے اس بل کی مخالفت کیوں؟ اس سے اندازہ لگایا
جا سکتا ہے کہ عورت کو کمتر سمجھنے کی سوچ فقط ناخواندہ افراد ہی میں نہیں
پائی جاتی بلکہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ بھی عورت کو اپنے جیسا انسان سمجھنے کو
تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کی نصف آبادی کے ایک بڑے حصے کے ساتھ یہ امتیازی
اور ناروا سلوک ہمارے اسلامی ریاست ہونے پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے اور
جمہوری ملک ہونے پر بھی۔
صرف غریب اور ناخواندہ گھروں میں خواتین پر تشدد نہیں ہوتا بلکہ اعلیٰ
تعلیم یافتہ گھرانوں میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان واقعات کے
پیچھے عورت کو کمتر، عزت سے محروم اور باندی سمجھنے کی سوچ کارفرما ہے۔
یہ مکروہ سوچ گھروں میں تشدد اور تذلیل کی صورت میں سامنے آتی ہے تو گھر سے
باہر خواتین کو ہراساں کرنے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ہراساں کرنا بھی تشدد
کا ایک خوف ناک عمل ہے، جس میں جسم پر کوئی نشان نظر نہیں آتا لیکن دل سے
روح تک پورا وجود زخمی ہوجاتا ہے۔ صرف کسی راہ چلتی عورت پر آواز کس دینا
یا اس سے جان بوجھ کر ٹکرا جانا ہی ''ہراسمنٹ'' نہیں، روزگار کے لیے گھر سے
باہر نکلنے والی عورت کو بڑے مہذب انداز میں معاشی مسائل حل کردینے کی
پیشکش کرنا، نہ ماننے کی صورت میں اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، کسی
خاتون کی مجبوری دیکھ کر اس کی ناموس خریدنے کی کوشش کرنا․․․یہ سب''
ہراسمنٹ'' ہی ہے، اور اس سب کے لیے ہراساں کرنا بھی بہت چھوٹا لفظ ہے، یہ
ایک عورت کی توہین ہے، یہ بہ حیثیت انسان عورت کی تذلیل ہے، حؤاکی بیٹی کو
غلیظ گالی دینے اور اس کی روح پر تیزاب پھینک دینے کے مترادف ہے۔ یہ ایسا
ہی ہے جسے کسی مرد کو پیسے دکھا کر غلام بن جانے یا اپنی بیٹی کا سودا
کرلینے کی پیشکش کی جائے۔ ورکنگ ویمن کو قدم قدم پر اس ذہنی اور روحانی
تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ہمارے ملک میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قوانین موجود ہیں، لیکن سوال
یہ ہے کہ اس ظلم کا شکار ہونے والی عورت ثبوت کہاں سے لائے؟ گواہ کہاں
ڈھونڈھے؟ اگر اس حوالے سے کوئی شکایت درج کرائی بھی جائے تو جواب میں
الزامات اور بہتان اسے مزید گھائل کردیں گے اور ہراساں کرنے کے خلاف ریاستی
قوانین متاثرہ عورت کی بے بسی دیکھتے رہ جائیں گے۔ ان قوانین کو کس طرح
مؤثر بنایا جاسکتا ہے اور ایسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ یہ سوال
خواتین کی تنظیموں، وکلاء اور منتخب نمائندوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔
قوانین اور ان کا نفاذ اپنی جگہ، مگر ہر عورت کو محض اپنی ناپاک خواہشات کی
تکمیل کا ذریعہ سمجھنے والوں کو اتنا تو سوچنا چاہیے کہ مجبوری کل ان کے
گھر پر بھی دستک دے سکتی ہے اور ان کی بہن بیٹیوں کو بھی سڑکوں پر اور
کارگاہوں کی طرف معاش کے لیے سفر کرنا پڑسکتا ہے۔ آخر میں عورت کو انسان نہ
سمجھنے والوں کے لیے ایک نظم:
یہ ہوں میں
․․․․
دربار سے بل بورڈ تک
صورت، بدن، جلوہ، ادا
تفریح، تعیش، دل لگی
بس یہ ہوں میں؟
بس یہ ہے آزادی مری؟
میں کون ہوں اور کیا ہوں میں
کھیتوں میں جاکر دیکھ لو
محنت بھی میری دیکھو اور
موسم کے تیور دیکھ لو
تم صنف نازک کہتے ہو!
بختاورَ سندھ کون تھی
جون آرک اور حضرت محل
تاریخ پڑھ کر دیکھ لو
نسل وزباں اور خانداں
تہذیب کے سارے نشاں
آغوش میں میری پلے
محفوظ میں نے ہی رکھے
مضبوط ہیں یہ کس قدر
نازک سے پیکر دیکھ لو
میں معاشرت کی پاسباں
سمجھو اسے گر تم گْماں
پلٹو ذرا گھر دیکھ لو
دربار کی زینت نہیں
بل بورڈ کا ساماں نہیں
میں صاحبو! انساں بھی ہوں
بس بیوی، بیٹی، ماں نہیں
(محمد عثمان جامعی) |