تحریر۔۔۔چوہدری ناصر گجر
اطراف میں پھیلے جلے ،کٹے اور خون میں لت پت انسانی اعضاء،درد بھری چیخ و
پُکار ،آہ وبکاہ ،ہر سُو چھایا خوف،ہزاروں پُر نم آنکھیں،سوگوار فضانے
پاکستانیوں کے دلوں سے سکون اور آنکھوں سے نیند چھین لی تھی لیکن جب تاریکی
زیادہ چھا جاتی ہے تب سورج کی پہلی کرن تاریکی کو توڑنے کے لیے تیار ہوتی
ہے اسی طرح پاکستان میں بھی جب دہشت گردوں نے ظلم کی تمام حدیں پار کیں تو
دہشت گردوں کے فیصلہ کُن قلع قمع کے لیے اس دھرتی کے سپوتوں نے ضرب عضب کا
آغاز کیا اور اﷲ کے فضل و کرم سے کامیابی سے یہ آپریشن جاری ہے اور اس ضمن
میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جا رہی تاکہ انسانیت اور ہمارے مُلک کے
دشمنوں سے اس سر زمین کو پاک کیا جا سکے لوگوں کے دلوں پر چھائے خوف اور بے
چینی سے اُنہیں نجات دلائی جا سکے پاک فوج کی طرف سے ہر ممکن کوشش جاری ہے
کہ ہمارے مُلک میں ہر طرف امن ہی امن ہو ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں کبھی
کسی میں ہمت نہ ہو کہ وہ معصوموں کی زندگیوں سے خون کی ہولی کھیل
سکیں۔اسلام جہاں امن و محبت کا درس دیتا ہے وہیں ظالموں کے خلاف لڑنے کا
بھی حکم دیتا ہے دوسروں کی عزت،جان ومال کی حفاظت کی بھی تاکید کرتا ہے بے
گناہ لوگوں کو ناحق قتل کرنے والے،دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے،لوگوں کی
عزت اور مال کو نقصان پہنچانے والے،بے کسوں اور مجبوروں کا نا جائز فائدہ
اُٹھانے والے،انصاف میں بد دیانتی کرنے والے،غریبوں کا استحصال کرنے والے ،شرک
و گُمراہی کی طرف لے جانے والے سب کا شمار ظالموں کی صف میں ہوتا ہے اور
ظالم کی مدد کرنے والا بھی اسی فہرست میں شامل ہے ۔
ہمارے مُلک میں دہشت گردوں کی کوئی ایک قسم موجود نہیں جو لوگوں پر خوف
مسلط کرتی ہے میری نظر میں چھوٹے بڑے کئی سفیدپوش دہشت گرد ہمارے درمیان
موجود ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی پل پل مرتا ہے اور موت کی دعائیں کرتا ہے
حکمران اوراکثرسرکاری محکموں میں کام کرنے والے بھی کسی دہشت گرد سے کم
نہیں یہاں تک کہ کسی راہ گذر سے کسی وزیر کا گزرنابھی عام لوگوں کے لیے
اذیت سے کم نہیں ہوتا سیا ستدانوں کے زیر سایہ بدمعاش لوگ اور قبضہ مافیا
کیا دہشت گرد نہیں؟عوامی دولت جو کہ پاکستان اور عوام کی فلاح و بہبود کے
لیے استعمال ہونی چاہیے اُس کی لُوٹ مار اورضیاع کر کے ریاست کی جڑوں کو
کھوکھلا کرنا دہشت گردی نہیں؟اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے اقرباء
پروری کرکے دوسروں کے حقوق چھیننا دہشت گردی نہیں؟عدل و انصاف کی راہ میں
رکاوٹ ڈالنا اور انصاف فراہم نہ کرنادہشت گردی نہیں؟وہ کونسی جگہ ہے جہاں
عام آدمی کو ظالموں کا سامنانہیں کرنا پڑتا۔علمائے کرام کے پاس جائیں تو
فرقوں کے نام پر قتل و غارت گری کا درس ملتا ہے،مدد کے لیے پولیس کے پاس
جائیں تو رشوت ادا کرنے کے باوجود غلیظ گالیاں اور دھکے ملتے ہیں،پٹوار
خانوں میں جائیں تو تمام جمع پونجی لُوٹ لی جاتی ہے،انصاف کے لیے قارون کے
خزانے اور صبر ایوب ضروری ہیں،ڈاکٹرز کے پاس جائیں تو موت بانٹتے نظر آتے
ہیں،تعلیم حاصل کرنے جائیں تو اعلیٰ کردار کے حامل اساتذہ دکھائی نہیں
دیتے،خوراک خریدنے جائیں توفوڈ انسپکٹرز کے زیر سایہ ملاوٹ مافیا کا راج
ہے،مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے لیبر آفیسرز محو خواب ہیں،مہنگائی
،بے روزگاری اوربے جا ٹیکسز نے زندگی اجیرن بنا رکھی ہے،انصاف نہ ملنے پر
زیادتی کی شکار حوا کی بیٹیاں خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔آخر کونسی ایسی
چیز ہے جس کی بناء پر حکمران مُلک میں خوشحالی کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں ایسے
تمام مظالم کا سامنا ایک عام آدمی کو ہر روز اور ہر موڑ پر کرنا پڑتا ہے
لیکن وہ خوف کی وجہ سے چپ چاپ زندگی کے دن پورے کر رہا ہے روز اپنے بھوکے
بچوں کو دیکھ کر اندر ہی اندر گُھٹ کر مرنے پر مجبور ہے یہ وہ ظلم اور دہشت
گردی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور دکھائی بھی دیتی ہے لیکن
حکمرانوں کی نظر میں اسے ظلم و دہشت گردی کہنا سراسر غلط ہے کیوں کہ اُن کی
نظر میں یہ ظلم نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا حُسن ہے صرف ننانوے فیصد غلط
لوگوں کی وجہ سے سب کو تو غلط نہیں کہا جا سکتا ناں۔۔اس وقت پوری قوم جہاں
ضرب عضب کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے وہیں اُن کی حسرت بھری نگاہیں پاک
آرمی اور جنرل راحیل شریف کی طرف ہیں اور اُنہیں یہ یقین ہے کہ اﷲ کا یہ
مرد مجاہد اس مُلک کی اور اس مُلک کی عوام کی اندرونی و بیرونی دشمنوں سے
حفاظت کرے گا خونی کھیل کھیلنے والوں کے ساتھ ساتھ اس مُلک کی جڑیں کھوکھلی
کرنے والوں اور ظلم کرنے والے سفید پوش دہشت گردوں سے بھی ہمیں نجات دلائے
گا۔ |