قوم کے ڈاکو رکھوالے

جب پہلی بار ایسا ہوا تو میں نے غیر محسوس طریقے سے نظر انداز کر دیا۔ دوسری بار ہونے پر بھی میری توجہ اس طرف نہ گئی۔ تیسری بار ہونے پر میرے دماغ میں ہلچل ہونے لگی اور ضمیر نے مجھے خاموش رہنے نہ دیا۔ میں سوچنے لگا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہوگی۔ کہی یہ موجودہ حالات کے وجہ سے تو نہیں ہورہا؟

قارئین کرام! سوات سے کراچی آتے ہوئے ہر دفعہ جب بھی گاڑی سکھر پہنچ جاتی ہے تو قانون کے رکھوالے جگہ جگہ ناکے لگائے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنی فرائض سے وہ باخبر ہیں اور بخوبی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ہر دفعہ کم از کم تین جگہوں پر پولیس گاڑی میں چڑھ کر سواریوں کی تالاشی لیتی ہے۔ پہلی دفعہ آتے ہوئے میں نے اس طرح کوئی توجہ نہیں کی۔ کیوں کہ ملک کے اکثر حصوں میں عموما معمول کی چیکنگ ہوتی رہتی ہے۔ دوسری دفعہ آتے ہوئے مجھے محسوس تو ہوا کہ ایک ہی ضلع میں تین دفعہ چیکنگ ہو رہی ہے۔ مگر ذہن میں یہ بات آئی کہ شاید وزیرستان اپریشن اور ملکی صورتحال کے پیش نظر یہ لوگ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔

تیسری دفعہ جب ہماری بس سکھر پہنچی تو پہلی بار روکھنے پر مجھے پچھلی تلاشی یاد آئی اور میں نے بات کی تہہ تک پہنچنے کا عزم کیا۔ آخر تین تین بار تلاشی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ پہلی چیکنگ پر مجھے محسوس ہوا کہ شاید چرس کے خلاف اپریشن ہو رہا ہے۔ دوسری دفعہ بھی جب پولیس گاڑی میں آئی تو سواریوں کے جیب سے ہر چیز نکال کی سونگنے لگی۔ مجھے کچھ اطمینان ملا کہ چلو کوئی اچھا کام ہو رہا ہے۔ چرس ، پوڈر، افیون وغیرہ کے خلاف اپریشن ہونی چاہیے۔ جب تیسری بار پولیس گاڑی پر آگئی تو میں نے ہر پہلو کی طرف غور شروع کیا۔ چار پولیس والے گاڑی پر چڑھ کر چیکنگ کرنے لگے۔ نیچے پولیس وین کھڑی تھی جس کے پاس دو پولیس بیٹھے تھے۔ پولیس گاڑی پر چڑھتے ہی کنڈکٹر نیچے اتر گیا اور پولیس وین کے پاس چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اس کے ساتھ ایک اور پولیس والا آیا اور بس میں موجود سپاہیوں کو نیچے بلایا۔

گاڑی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی لیکن میرا دماغ جامد ہوچکا تھا۔ معاملہ میرے سمجھ میں نہیں آیا۔ میں بے چین ہونے لگا۔ آخر جب رہا نہیں گیا تو کنڈیکٹر کے پاس جاکر پوچھا کہ بھائی یہ کیا ماجرا ہے۔ اس نے بتایا کہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ ہماری ٹائم کی سروس ہوتی ہے۔ طے شدہ وقت میں اپنا سفر مکمل کرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اس لیے روکھتے ہیں تاکہ ہمارا وقت ضائع ہوجائے۔ ان کا مقصد پیسے لینا ہوتا ہے۔ مجبورا وقت بچانے کے لیے ہمیں پیسے دینے پڑھتے ہیں۔ تب باہر والا پولیس اوپر والوں کو بلا لیتے ہیں۔

جب حقیقت کا پتہ چلا تو بہت افسوس ہوا۔ جن کو قوم کی رکھوالی کا ذمہ دار بنایا گیا وہ ڈاکو بن گئے ہیں۔ جن کی موجودگی ہم اپنی حفاظت سمجھتے ہیں وہ خود ہمیں لوٹنے لگے۔ یہ سلسلہ آخر کب تک چلتا رہے گا؟ کیا متعلقہ تھانوں کے ذمہ دار تو اس کھیل میں ملوث تو نہیں؟ کیا حکام بالا ان باتوں سے باخبر نہیں؟ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ کون ان کے پیچھے ہے؟ حکومت کیا اقدامات کررہی ہے؟ حکومتی حکام، افسران اعلیٰ، آرمی چیف اور خصوصا سندھ رینجرز سے استدعا ہے کہ کراچی کے کرپٹ عناصر کے طرح سکھر سمیت سندھ بھر اور پورے ملک میں کرپشن کے خلاف اپریشن کرے اور ان جیسے واقعات کے روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔
 
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 83144 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.