قاری اور لکھاری

قاری اور لکھاری کا باہمی تعلق بہت گہرا ہوتا ہے قاری اور لکھاری کی باہمی تعلق داری کا تعین نہ بھی کیا جائے تو بھی یہ رشتہ یہ تعلق نہایت واضح ہے یہ رشتہ ایک دوست کی طرح ہے کہ دوست ہی اپنے دوست کی شخصیت اور نفسیات سے اس کے مزاج، نظریات، پسند و نا پسند اور رجحانات سے بخوبی واقف ہوتا ہے اسی طرح قارئین بھی لکھاری کی تحریر کے پردے سے جھلکتی مصنف کی شخصیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں بشرطیکہ قاری لکھاری کی تحریر کا مطالعہ پوری دلچسپی سے کرتا ہو کسی بھی تحریر کو محض سرسری نگاہ سے پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہوتا اور اچھا قاری وہی ہے جو تحریر کا باریک بینی سے مطالعہ کرتا ہے تحریر کے ہر پہلو پر نظر رکھتا ہے صرف کسی ایک بات یا ایک ہی نکتے پر ہی نظر نہیں رکھتا بلکہ کسی ایک نکتے کا بھی مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہو-

اسی طرح کسی تحریر پر قاری کا تبصرہ و تنقید، آراء یا تعریف لکھنے والے پر اپنے قارئین کی شخصیت رجحانات اور نظریات سے آگاہی حاصل کرتا ہے جو لکھنے والے کے لئے اپنے قاری کی شخصیت کو سمجھنے میں معاونت کرتی ہے اور یہی چیز یعنی قارئین کی پسند و نا پسند اور نظریات سے آگاہی لکھنے والوں میں مزید نت نئے موضوعات پر لکھنے کا رجحان پیدا کرتی ہے-

جہاں لکھاری کے لئے قاری کی تعریف و توصیف حوصلہ افزا ہوتی ہے وہاں قاری کی تنقید بھی لکھاری کے لئے سر آنکھوں پر اور قابل قبول ہونی چاہئیے بلکہ اچھا لکھاری تعریف سے زیادہ تنقید کو اپنے لئے قابل ستائش گردانتا ہے کہ جہاں تخلیق پر قارئین کی تعریف لکھنے والے کے لئے حوصلہ افزا ہوتی ہے وہیں پر قارئین کی ننقید بھی لکھنے والے کے لئے مزید اصلاحات کے در وا کرتی ہے اور لکھاری کو خوب سے خوب تر کی ترغیب دلاتی ہے سو قارئین کی تنقید پر ناراض ہونا ایک اچھے لکھاری کے لئے مناسب نہیں بلکہ انہیں تو ناقدین کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ تبصرہ نگار و نقاد کس گہرائی سے کسی تخلیق کا مطالعہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات لکھتے وقت بہت سے ایسے پہلو جو لکھاری کے ذہن میں آنے سے رہ جاتے ہیں قارئین کی رائے ان پہلوؤں پر سوچنے کی تحریک دلاتی ہے اور لکھنے والے کو مزید نئے سے نئے موضوعات کی راہ دکھائی دیتا ہے اگرچہ کسی بھی لکھنے والے کی بیشتر تحریریں اول اول لکھاری کے اپنے ذہن کی اختراع یا کسی ذاتی تجربے یا پھر مشاہدے کے باعث تخلیقی صورت میں سامنے آتی ہیں لیکن بعد میں بیشتر تخیلقات قارئین کی آرا کی روشنی میں ہی ورطہ تحریر میں لائی جاتی اور منظر عام پر آتی ہیں اس کی ایک مثال خود راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ راقم کی ابتدائی تحریروں سے صرف نظر بعد کی بیشتر تحریریں قارئین کی دلچسپی ، توجہ ، محبت، آرا تبصرے اور تنقید کے بعد ہی لکھی گئی ہیں-

جس طرح لکھاری ہمیشہ سے یا پیدائشی لکھاری نہیں ہوتا بلکہ پہلے قاری اور پھر لکھاری بنتا ہے یوں تو دنیا میں لکھاری سے زیادہ قارئین کی تعداد ہے لیکن یہ مطالعہ کا شوق ہی ہے جو کسی قاری کو لکھاری بننا سیکھاتا ہے-

اچھا قاری وہ ہے جو لکھاری کی تحریر کا مطالعہ توجہ، دلچسپی اور گہرائی سے کرتا ہے اور اپنی قیمتی آراء سے لکھاری کو آگاہ کرتا ہے بقدر ضرورت اپنی فہم کے مطابق مشورے بھی دے سکتا ہے تنقید بھی کرسکتا ہے تاکہ لکھاری اپنی تحریروں میں مزید نکھار پیدا کر سکے اس کے علاوہ تحریر کے حسن و خوبی کے پیش نظر قارئین کو لکھاری کے خیال اور انداز بیان کو سراہنا بھی چاہیے کہ تعریف اور حوصلہ افزائی فنکار کا حق بھی ہے اور اس سے اپنے فن میں مزید نکھار کی تحریک بھی پوشیدہ ہوتی ہے نیز یہ تمام چیزیں قاری اور لکھاری کے باہمی تعلق میں مضبوطی و خوشگواری پیدا کرنے کا باعث بھی ہے-

قاری و لکھاری کے باہمی رابطے کی صورت میں ہی بیشتر خوبصورت تخلیقات و تصنیفات منظر عام پر آتی ہیں اور یہ سلسلہ اسی وجہ سے آج بھی مسلسل جاری و ساری ہے اچھی تحریرں پڑھیں اچھے انداز سے تنقید کریں قابل تعریف تخلیق کی تعریف بھی کریں حوصلہ افزائی بھی کریں تنقید اس طرح کریں کہ کسی کے دل پر گراں نہ گزرے اور نہ ہی دل شکنی کا باعث بنے کہ ہر انسان اپنے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے خاص طور پر یہ فنکار قسم کے افراد مثلاً تخلیق کار شاعر مصنف یا مصور وغیرہ کچھ زیادہ ہی حساس ہوتے ہیں اسی لئے ہر چیز کو بہت گہری نگاہ سے دیکھتے ہیں دل سے پرکھتے ہیں اور اگر ان کے شیشہ دل میں ہی دراڑ آ جائے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے سو اپنے انداز اپنے الفاظ اپنے بیان جاری کرتے وقت یہ خیال ضرور رکھیں کہ نادانستہ کسی کی دل شکنی نہ ہو بلکہ اپنے ہر عمل سے آپس میں خوشیاں بانٹنے کی کوشش کریں دوسروں کو خوشی دینے کی کوشش کریں مسکراہٹیں بکھیرنے کی کوشش کریں کہ یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی افسردہ ماحول میں بھی جینے کی امنگ پیدا کرتی ہیں اور زندہ رہنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں-

قاری و لکھاری اپنی اس خوبصورت تعلق داری میں دوستی کا رنگ شامل کریں اپنے رشتے کو خوشگواری بخشیں الفاظ کے نشتر سے نرم و نازک جذبات میں چھید نہ کریں بلکہ پھولوں جیسی نرم و نازک دل چھو جانے والی خوشبو جیسی بات کریں جو ہمارے ماحول سے بارود اور خون کی بو ختم کر سکے اور ہر طرف محبت کی بھینی بھینی حیات افزا خوشبو پھیلانے کا باعث بنے-
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 458373 views Pakistani Muslim
.. View More