کراچی سے وابستہ یادیں اورموجودہ حالات

کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتاتھا پاکستان کے مختلف صوبوں اور شہروں کے لاکھوں لوگوں کو جو وہاں مزدوری کیلئے گئے اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔اس شہر کو جسے پاکستان کا اکنامک ھب بھی کہا جاتا ہے سے میری بچپن کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ میرے ددھیال اور ننھیال دونوں وہاں ہونے ے باعث اکثر سکول اور کالج کی چھٹیاں وہیں گزرتی تھیں۔رات کو 12بجے کے بعد کلفٹن جانا اور ساحل سمندر کی ٹھنڈی لیکن نمی سے بھری ہوئی ہواؤں کا مزا۔ صدر میں بندو کے کباب اور وہاں پر موجود پرنس ، نشاط بیمبینوں اور دیگر سینماؤں میں فلمیں دیکھنا۔نیشنل سٹیڈیم ، بختیاری یوتھ سنٹر میں کرکٹ کے میچز دیکھنا۔ حیدری میں موجود ھل پہاڑی ، گاندھی گارڈن میں چڑیا گھر اور ہاکس بے کے خوبصورت سمندری کنارے جسے آسٹریلیا کے مشہور زمانہ فاسٹ باؤلر ڈینس للی نے دنیا کا بہترین سمندری کنار قرار دیا ہے پر ہٹ کرائے پر لے کر تمام خاندان کیساتھ پکنک منانا بہترین مشاغل تھے۔ اپنی گومل یونیورسٹی کی طرف سے انٹر یونیورسٹی کرکٹ چمپئن شپ ، انٹر یونیورسٹی ٹیبل ٹینس اور نیشنل چمپئن شپ آف بیڈ منٹن کھیلنے کیلئے بھی وقتاً فوقتاً کراچی جانا ہوتا تھا۔ کراچی جاتے ہوئے جو خوشی ہوتی تھی وہ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔ لیکن جب وہاں سے واپس آنا پڑتا تو وہ غمگین جذبات بھی قابل بیان نہیں۔ اکثر جانا ٹرین یا جہاز سے ہوتا ، ملتان سے ایک دفعہ PIAکا جہاز خراب ہو گیا تو PIAانتظامیہ نے اپنے خرچے پر ایک رات کچہری چوک ملتان میں واقع شیزان ہوٹل میں قیام و طعام کی سہولت فراہم کی۔ ریل کا سفر بھی ملتان سے ہوتا جو اپنا الگ مزا لئے ہوئے ہوتا ، دونوں کے کرائے انتہائی موزوں اور سفر آرام طلب ہوتا تھا۔دو دفعہ بائی روڈ Drive کر کے بھی کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ لیکن پھر وہ وقت آیا کے کراچی کے حالات بگڑنا شروع ہو گئے۔ جان و مال کی گارنٹی نہ رہی راتوں کو نکلنا اور گھومنا تو چھوڑیں لوگ دن میں بھی اپنے گھروں میں محفوظ نہ رہتے ۔ گلبرگ میں میرے ماموں کے گھر میں دن دیہاڑے ڈاکو گھسے اور جتنا سونا نقدی گھر میں موجود تھا لے گئے۔اسی طرح حیدری میں ایک رشتے دار کے بنگلے میں 7مرتبہ ڈکیتی کی واردات کے ساتھ انکا نوجوان بیٹا جو دبئی میں ملازمت کرتا تھاچھٹیوں پر گھر آیا ہوا تھا ، وہ اپنے گیٹ پر اپنے دوست کے ساتھ کھڑا تھا کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے اسے شہید کر دیا۔اسنے اپنے بوڑھے باپ کی گود میں دم توڑ دیا۔لڑکے کا باپ اس کے بعد سے عارضہ قلب میں مبتلا ہے اور لڑکے کی ماں بے بسی اور غم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔نہ جانے کتنی ماؤں کی گودوں سے درندے ، قاتلوں نے انکے لخت جگر چھین لئے۔قاتل کا کوئی تعین نہ ہو سکا ۔ دوسرے دن مختلف سیاسی جماعتوں کے کارندے اپنی اپنی پارٹی کا جھنڈا لے کر آگئے کہ اسے آپ تابوت پر چڑھا دیں اور کہیں کہ یہ ہمارا کارکن تھا ۔ قتل و غارت ، چوری ، ڈکیتی کی وارداتوں سے تنگ آ کر انہوں نے وہ گھر ہی فروخت کر دیا۔ کراچی میں گراؤنڈ فلورپر موجود کوئی بھی گھر ، بنگلہ چوری ڈکیتی نقب زنی کی واردات سے محفوظ نہیں رہا۔ اس لئے لوگوں نے فلیٹوں وغیرہ میں رہنے کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے۔ جس میں وہ اپنے آپ کو قدرے محفوظ تصور کرتے ہیں۔ گاڑیاں ، موٹر سائیکل، اغواء برائے تاوان موبائل فون چھیننا آئے روز کا معمول بن گیا ہے۔موجودہ سال 2015میں رینجرز کی بھر پور کاروائی جاری ہے۔ لیکن اسکے باوجود 1600سے زائد گاڑیاں چوری کرنے کی FIRدرج ہو چکی ہیں۔موبائل چھیننے کی وارداروں کی تعداد ہزاروں میں ہے ، جو پارکس کھیل کے میدان وغیرہ عوام اور بچوں کی تفریح کیلئے بنائے گئے انہیں جسکا بس چلا اپنوں میں تقسیم کر کے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔اسکے علاوہ عام شہریوں کے پلاٹس ، فلیٹوں پر با اثر سیا سی گماشتوں اور بد معاشوں نے قبضہ کر لیا۔ کسی کی ہمت نہیں کہ وہ قبضہ چھڑا سکے۔ کیونکہ اس تمام تر عمل میں پولیس (جو کہ مکمل طور پہ سیاسی ناجائز بھرتیوں کے باعث غیر مؤثر ہو چکی ہے )ملوث ہے۔جسکا جہاں بس چلا اپنے اپنے بد معاشوں، چوروں ، اچکوں، ان پڑھوں کو پولیس اور دیگر اہم اداروں میں بھرتی کروا کے نا صرف اداروں کا بیڑہ غرق کیا بلکہ انصاف اور میرٹ کا بھی گلہ دبایا۔نسل ، زبان ، قوم اور مذہب کی بنیاد پر سیاسی و مذہبی گرو ہوں نے ایک دوسرے کا قتل عام کیا اپنے مسلح ونگز کے ذریعے عوام کودونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ بھتے کی پرچیوں میں سالانہ اربوں روپیہ بھتہ وصول کرنے والوں میں کون کون سی جماعت ملوث ہے اسکا ذکر سابقہ چیف جسٹس نے ایک فیصلے میں کیا لیکن نہ تو زرداری حکومت نے کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی نواز حکومت نے اپنے پہلے ڈھائی سالہ دور میں ۔مذہبی منافرت کے نام پر کئی جید علمائے کرام حتیٰ کے حکیم سعید جیسے محب وطن سے محروم ہو گئے۔ کھیل کے میدان ٹیموں کے انکار کے باعث ویران اور رات کو روشنیوں کا شہر انتہا درجے کی لوڈ شیڈنگ اور جرائم کے باعث اندھیروں کا شہر بن گیا۔کراچی شہرجہاں پر میں نے ٹرام اورڈبل ڈیکر چلتی ہوئی دیکھیں اب آئے روز کی پہیہ جام ہڑتالوں، احتجاجی دھرنوں ، جلسوں اور جلوسوں کے باعث اسکا معاشی پہیہ جام ہو گیا۔جسکے اثرات پورے ملک کی معیشت اور عوام پر پڑے ۔ جعلی ڈگریوں کے سکینڈلز اور نا اہل اساتذہ کی تعلیمی اداروں میں بھرتیوں نے تعلیمی صورت حال کو خطر ناک حد تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن ہماری ہر مرکزی حکومت مصلحتوں کا شکار رہی کوئی ٹھوس کار وائی نہ کی گئی اب گزشتہ چند ماہ سے رینجرز کی جانب سے کی جانے والی بلا امتیاز کاروائیوں ، پکڑ دھکڑ نے کراچی کے حالات کو قدرے بہتر کرنا شروع کر دیا ہے۔ میں نے جب وہاں کے موجودہ حالات کے بارے میں اپنے ایک قریبی عزیز سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ بہتری آ رہی ہے۔ لوگوں کا خوف و ہراس کم ہو گیا ہے۔ وارداتوں میں بھی قدرے کمی آ گئی ہے۔ لیکن انہوں نے تحفظ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک پکڑے گئے ملزمان کو لٹکایا نہیں جاتا خطرہ موجود رہے گا کیونکہ رینجرز کی کاروائی کب تک رہے گی پتہ نہیں کسی نئی آنے والی حکومت کی کیا پالیسی ہو تی ہے۔پتہ نہیں ؟اگر گرفتار ملزمان کو واقعی سزا نہ ملی توانکی رہائی ممکن ہے جو بعد ازاں دوبارہ جرائم کی سرگرمیوں میں جُتھ جائیں گے۔ اور جرائم کے ساتھ ساتھ انتقامی کاروائیاں بھی کریں گے۔اس لئے ہماری ان سطور میں ارباب اختیار خصوصاً آرمی چیف جنرل راحیل شریف صاحب سے درخواست ہے کہ کاروائی کو کسی سیاسی دباؤ کے بغیر بلا اامتیاز جاری رکھا جائے اس وقت تک جب تک کراچی مکمل طور پر جرائم اور جرائم پیشہ افراد سے پاک نہیں ہو جاتا اس سلسلے میں فوج کا سربراہ کوئی بھی ہو وہ گزشتہ کاروائی کو جاری رکھے تاکہ کراچی دوبارہ روشنیوں ، محبتوں ، روزگار، سرمایہ کاری ، انڈسٹری اور خوبصورتی کا شہر بن جائے۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 138025 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.