دل توڑ القابات کا استعمال-- چھوڑ دو نہ یار

ایک بات تو بتائیں ذرا آپ جو بڑے پھنے خان یا خود کو شہزادہ/ شہزادی سمجھ کر دوسروں کے اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ، ان سے اچھے طرح سے پیش آنے کے بجاے انکے حوصلے کو نچوڑ کر بار بار شرمندہ کرتے تو یاد رکھیں آپ کا زندگی میں کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں جب تک آپ دوسرے کے ٹوٹے دل کو اپنی معافی کی ایلفی سے نہیں جوڑتے

دیکھیں جی بات چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو مگر دل توڑنے اور موڈ خراب کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے. یہ ایسے ہی ہے جیسے ٹیکے کی چھوٹی سی سوئی لگواتے وقت چھبن ہوتی ہے. اکثر ہم کسی کو اصل نام کی بجاے اسکی جسمانی حالت جیسے موٹا ، کالا ، لمبو، کوڈو ، بڑے منہ والا ، گنجا ، وغیرہ معذور کو لنگڑا ، ٹنڈا، انّا وغیرہ اور طنز میں طلاقن ، جاہل وغیرہ یا پھر کسی کو انکے خاندانی کاموں کے حساب سے جیسے اوے کمی ، اوے موچی کے بچے، دھوبی کے بچے ، نائی کی اولاد وغیرہ وغیرہ

ایک بات تو بتائیں ذرا آپ جو بڑے پھنے خان یا خود کو شہزادہ/ شہزادی سمجھ کر دوسروں کے اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ، ان سے اچھے طرح سے پیش آنے کے بجاے انکے حوصلے کو نچوڑ کر بار بار شرمندہ کرتے تو یاد رکھیں آپ کا زندگی میں کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں جب تک آپ دوسرے کے ٹوٹے دل کو اپنی معافی کی ایلفی سے نہیں جوڑتے

خدا کے لئے چھوڑ دیں ایسے دل توڑ القابات سے نوازنا دوسروں کو ، خیال رکھا کریں عزت نفس کا. آپکو لگتا ہو گا کہ یہ چھوٹی یا معمولی سے بات ہے لیکن یار قسم سے آپکا مذاق سے کہنا بھی دوسرے کو ہمیشہ گولی کی طرح لگتا ہو گا. . یاد رکھو پیارے پڑھنے والو، یہاں جسمانی اور مالی حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے. موٹا سمارٹ بھی ہو سکتا ، کالا گورا بھی اور گنجا تو دنوں میں بالوں والا ہو جاتا آجکل. اسی طرح کسی اور کی طرح آپ بھی ٹنڈے ، لنگڑے ، اندھے ہو سکتے، اور کسی بھی موچی، نائی یا دھوبی کی اولاد استاد، پروفیسر، ڈاکٹر یا انجنیئر وغیرہ بن سکتی. طلاق یافتہ عورت دوبارہ سے گھر بسا سکتی ہے اور پھر اپنی حالت بہتر کرنے کے بعد ایسے لوگ کہاں یاد رکھیں گے ان تمام کو جنہوں نے بار بار دل دکھایا تھا کبھی

اوپر سے ایسے الٹے ناموں سے پکارنے والے اپنے دفاع میں کہتے کہ ہم تو بس ویسے ہی پیار میں کہتے، بندہ پوچھے یہ کیسا پیار ہے جس میں یہ دوسرے بندے کا اعتماد لہو لہان کر کے رکھ دیں ، یہ معصوم لوگ بار بار اپنا دل زخمی کروا کے بھی چہرے پر ایسی مسکراہٹ سجا کر رکھتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں. سلام ہے ایسے ہنس کر شرمندگی چھپانے والوں کی ہمت پر. یقین مانیں ایسی ایسی قابلیت چھپی ہوتی ایسے موٹے ، کالے ، کمی وغیرہ لوگوں میں کہ سوچ ہے آپکی، صرف کچھ لوگوں کی غلط پکار کی وجہ سے اعتماد کھو کر سامنے نہیں آتے اور پیچھے ہٹنا شروع کرتے ہیں . یہ بیچارے لوگ صرف اکیلے میں رو رو کر اپنے رب سے فریاد کرتے بس. رب بھی تو پھر ٹوٹے دلوں کی جلدی سنتا اور ایسے بلاوجہ رد کے جانے والے لوگوں کو ایسے بھاگ لگاتا کہ مستقبل میں یہی لوگ پہچانے نہیں جاتے کہ یہی وہی لوگ جو کبھی برے القابات سے نوازے جاتے تھے اور آج اتنی ترقی کر گئے کہ برے ناموں سے بلانے والے انکو اپنا دوست ، پرانا کلاس/کالج فیلو، محلے دار وغیرہ کہنے پر فخر محسوس کرتے. پتا کیا، اللہ بھی پھر نہ صرف ان لوگوں کو عزت دیتا بلکہ ان لوگوں کو بھی مکافات عمل کی سختی میں ڈال دیتا جو پہلے ایسے لوگوں کا دل دکھاتے تھے

اسی پہ ایک واقعہ یاد آیا ایک لڑکا اپنی امی کی ساتھ اپنی ایک ممانی کے گھر گیا. گھر کے دوسرے بچے لان میں کھیل رہے تھے تو یہ لڑکا بھی وہاں چلا گیا اور اسکی امی ممانی کے پاس اندر کمرے میں . تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا اندر آیا اور چپ چاپ اپنی امی کے پاس آ کر بیٹھ گیا. اسکی ماں نے جب باہر بچوں کے کھیلنے کی آواز سنی تو اپنے بچے سے پوچھا تم کیوں واپس آ گۓ، تو اس لڑکے نے کہا مجھے سب باہر موٹا موٹا کہ کر بلا رہے ہیں مجھے اچھا نہیں لگتا. اب آگے اسکی مامی کا حال دیکھیں بجاے بچے کو دلاسا دینے کے ، اپنے بچوں کو یہ سمجھانے کہ نام لے کر بولو بھانجے سے کہتی پھر کیا ہوا موٹے کو موٹا نہیں کہیں گے تو پھر کیا کہیں گے؟ اب اس بچے کی ماں تو آخر ماں ہے وہ بھی آگے سے اپنے بیٹے کی دل کی حالت کو جان کر کہتی آپا وہ اپنا کوڈو کہاں پہ ہے آج نظر نہیں آ رہا تب ممانی صاحبہ کی شکل دیکھنے والی تھی کہتی باجی ایسا تو نہ کہیں وہ محسوس کرتا ہے تو آگے سے ممانی کو یہی سننے کو ملا آپا اب نکے سے قد والے کو کوڈو نہیں کہیں گے تو پھر کیا کہیں گے....سمجھ تو گئی تھی ممانی کہ ایسی باتیں صرف اپنے ہی نہیں دوسرے بچے بھی محسوس کرتے. تبھی انہوں نے ہنس کر بات ٹال دی

چلتے چلتے بتاتا چلوں وہی موٹا لڑکا آج آرمی میں میجر ہے اسکا موٹاپا تو کب کا غائب ہو چکا تبھی وہ آرمی میں بھی ہے لیکن اس کو یہ بچپن کا واقعہ ، کزنز کا رویہ اور ممانی کی بات کبھی نہیں بھولتی. اور دوسری طرف وہ کزنز جنہوں نے اپنے فیس بک پہ تصاویر تو کمال کی لگائی ہوئی ہیں جس میں صرف چہرہ ہی نظر آتا لیکن اصلی حالت میں ایسے ہیں کہ کمرے داخل ہوتے وقت ان سے پہلے ان کا پیٹ اندر جاتا ہے اور کپڑے کے آدھے تھان سے شاید صرف انکی قمیض ہی بنتی ہو . اسے کہتے ہیں مکافات عمل، تگڑا اور رگڑا مار کے

اسی طرح وہ لوگ جو ایسی پکار کو سہتے ہیں ان سے بھی گزارش ہے کہ کبھی بھی ایسے لوگوں کے فضول نام دینے سے خود کو احساس کمتری میں محسوس نہ کیا کریں. یہ ایک معاشرتی برائی ہے جس کو اگر آپ روک نہ سکیں تو اگنور تو کر سکتے ہیں نہ . آپ بس رب سے حوصلہ کی دعا کرتے ہوے ہمّت سے برداشت کرتے ہوے آگے بڑھتے جائیں. اگر کوئی کمی ہے بھی تو مثبت سوچ کے ساتھ اسکو ختم کریں اور خوب محنت سے ترقی کر کے سب کو حیران کر دیں. یاد رہے کہ یہ دنیا صرف انہی کو برے القاب سے نوازتی جو غیر اہم یا عام ہوتے. خود کو خاص بنا لیں پھر دیکھنا سب آپ کو موٹے پیٹ، کالے رنگ ، دوسری کمیوں کے ہوتے ہوے بھی ہمت نہیں کریں گے الٹے نام سے پکارنے کی . یقین نہیں آتا تو اپنے ارد گرد نظر دہرا کر حوصلہ پکڑیں کہ کتنے اہم اور مشہور لوگ چاہے زندگی کے کسی بھی میدان سے تعلق رکھتے ہوں ان میں موٹا بھی ہے ، کالا بھی ہے ، لمبا ، کوڈو ، معذور وغیرہ اور موچی ، نائی وغیرہ کی اولاد بھی ہیں

آخر میں صرف یہ کہ الله تعالیٰ نے بھی قرآن میں فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کو اچھے ناموں سے پکارو تو دوستو براہ مہربانی، اونچا مقام اور لوگوں کا دل جیتنے کے لئے دل توڑ القابات کا استعمال چھوڑ دیں اور اپنے بچوں ، بھایئوں، دوسرے گھر والوں اور دوستوں کو بھی سمجھائیں . اس لئے آنکھیں کھول کے پڑھ لو سب لوگ ، باز آ جاؤ سارے جو ایسا کرتے ہیں ، پھر نہ کہنا سمجھایا نہیں تھا کسی نے ایسا-

Mian Jamshed
About the Author: Mian Jamshed Read More Articles by Mian Jamshed: 111 Articles with 171821 views میاں جمشید مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہیں اور اپنی فیلڈ کے علاوہ مثبت طرزِ زندگی کے موضوعات پر بھی آگاہی و رہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔ ان سے فیس بک آئی ڈی Jamshad.. View More