کراچی میں صحت و صفائی کے مسائل اور انتظامیہ کی سرد مہری

وہ ایک پتلے دبلے منحنی سے اور کچھ بوڑھے سے حکیم صاحب تھے جو ایوب خان کے دور میں لیاقت آباد کے ایک حلقے سے بی ڈی ممبر منتخب ہو گئے تھے ہمارے ایک مرحوم دوست بتاتے تھے کہ انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حکیم صاحب کے مطب کے سامنے جھاڑو دینے والے بھنگی جنھیں خاکروب کہا جاتا ہے لائن سے مرغا بنے ہوتے تھے ،حکیم جی ہاتھ میں اپنی لاٹھی ہوئے انھیں ڈانٹتے تھے اور چلا کر کہتے کہ ابے کمبخت اونچا ہو کہ مرغا بن چند منٹوں بعد وہ سب کو کھڑا کرتے اور کہتے اب آئندہ چھٹی نہ کرنا اور وقت پر آنا اور ہاں ذرا یہ دیکھنا کہ گلیوں کی صفائی اچھی طرح ہو یہ نہ ہو کہ پولے پولے ہاتھ مار کر بھاگ لو وہ تمام خاکروب ہنستے ہوئے کہتے کہ نہیں حکیم جی آپ فکر نہ کرو ،پھر ایک خاکروب رک جاتا اور کہتا کہ حکیم جی گھروالی کو دو دن سے بخار ہے کوئی دوا دے دو حکیم جی نے اپنی لاٹھی کی نوک اس کے جسم میں ہلکے سے چبھوتے ہوئے کہتے ابے کیا کل مرگیا تھا جو تو مجھ سے دوا نہیں لے کر گیا اس نے کہا کل ایسے ہی بدن گرم تھا میں سمجھا ہلکا بخار ہے رات تک اتر جائے گا لیکن آج بڑھ گیا انھوں نے کہا رک یہ تین پڑیے لیتا جا کھلا دیو ان شاء اﷲ بخار اتر جائے گا وہ تمام بلدیہ کے خاکروبوں پر سختی کرتے تو دوسری طرف ان سے محبت سے پیش بھی آتے اور ان کے صحت کے مسائل بھی حل کرنے کی کوشش کرتے ۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب کراچی کی آبادی 30لاکھ تھی اور 1963میں نیو کراچی آباد ہونا شروع ہواتھا تو لیاقت آباد اور ناظم آباد سے نیو کراچی جاتے تو راستے میں وسیع و عریض میدانوں کو عبور کرتے ہوئے جاتے تھے جہاں اب گھنی آبادیا ں ہو گئیں ہیں ۔

اس دور میں صفائی کی صورتحال یہ تھی ایم اے جناح روڈ کو روزآنہ پانی سے دھویا جاتا تھا کراچی کی تمام بستیوں میں جھاڑو دینے والا عملہ دن میں دو بار گلیوں کی صفائی کرنے کے لیے آتا تھا صرف بارش کے زمانے میں پانی کئی کئی دن تک کھڑا رہتا تھا وہ بھی اس لیے کہ کے ایم سی والے کہتے کہ یہ چونکہ بارش کا موسم چل رہا ہے اس لیے ہم آج پانی صاف کریں گے کہ پھر بارش ہو جائے گی ا س لیے کچھ دن رک کر صفائی ہوتی تھی لیکن بارش کے پانی کے علاوہ سیوریج کے گندے پانی کے تالاب کی طرح بہنے کا تصور ہی نہیں تھا ۔اگر کہیں اتفاق سے لائن چوک ہو جاتی تو ایک دو دن کے اندر کے ایم سی کا عملہ آجاتا اور بغیر کسی کے شکایت کرنے کہ از خود ہی سیوریج کا گندا پانی صاف کر دیا جاتا ۔یہ بات الگ ہے کہ اس زمانے میں ہر جگہ سیوریج لائینیں نہیں ڈالی گئی تھیں اس لیے بعض آبادیوں بالخصوص کچی آبادیوں میں لوگوں نے گہرے کنوئیں کھدوا رکھے تھے جس کا کنکشن واش روم سے جوڑ دیا جاتا اس طرح گھروں کے باہر کہیں گندگی نہیں ہوتی وہ کنواں یا گٹر جب بھر جاتا تو دوسرا کھو دلیا جاتا کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض کے تدارک کے لیے ہر دو تین ہفتے بعد اس میں چونا ڈال دیا جاتا یہ ایک سیلف سسٹم تھا جو لوگوں نے اپنی سہولت کے لیے اختیار کیا ہوا تھا پھر جب بلدیہ کراچی نے عبدالستار افغانی صاحب کے دور میں ہر کچی پکی آبادیوں میں سیوریج لائینیں ڈالی گئیں تو یہ سسٹم بھی ختم ہوگیا ۔

آج سیوریج لائینوں کی ٹو ٹ پھوٹ اور ان کے چوک ہو جانے کا سلسلہ کراچی میں ہر جگہ آپ کو نظر آئے گا لیاقت آباد ،ناظم آباد ،گلبہار ،نیو کراچی ،لانڈھی ،کورنگی ، ملیر ،کھوکھرا پار سعودآباد، شاہ فیصل کہیں بھی چلے جائیں آپ کو ہر جگہ گندے پانی سے واسطہ پڑے گا ،یہ تو خیر گنجان آبادیوں کی صورتحال ہے جہاں آسمان کی طرف آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے پرانی گنجان آبادیاں جس میں میٹھا در کھارادر رنچھوڑلائن ،صدر ایم اے جناح روڈکی پرانی بلڈگیں یہاں تو ہر وقت کہیں نہ کہیں آپ کو سیوریج پانی بہتا ہوا نظر آئے گا ۔

سوال یہ ہے کہ یہ صورتحال کیوں رونما ہوئی ؟کراچی ایک ایسا یتیم و یسیر شہر ہے جسے سب لوٹنا تو جانتے ہیں لیکن یہاں پر کوئی خرچ کرنا نہیں جانتے بلدیہ کراچی میں ایم کیو ایم پچھلے چار سال سے برسراقتدار تھی اس نے بھی صحت و صفائی کے حوالے سے کراچی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں کوئی طویل المعیادمنصوبہ بندی نہیں کی ،جس کی وجہ سے آج کراچی کے لوگ پریشان ہو رہے ہیں ۔

لیاقت آباد میں رہتے ہوئے 62سال ہو گئے آج کل اس آبادی میں دو بڑئے اہم مسائل جس سے اہل لیاقت آباد دو چار ہیں اور یہ دونوں مسائل کم وبیش کراچی کی ہر آبادی میں نظر آئیں گے ۔پہلا مسئلہ تو سڑکوں اور گلیوں کی صفائی کا ہے لیاقت آباد میں اندرونی گلیوں کے علاوہ مین روڈ پر جگہ جگہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے ہیں کاغذ اور پلاسٹک کی تھیلیاں ہوا سے اڑ کر بائیک والوں کے منہ پر لگتی ہیں اندر گلیوں کی صورتحال تو اس سے بھی بدتر ہے ہفتوں خاکروب جھاڑو دینے نہیں آتے اور جب آتے بھی ہیں تو ہر گھر سے پیسے مانگتے ہیں ۔صھت و صفائی کے بلدیہ کے ذمہ داران تو کہیں نظر نہیں آتے اگر دفتر ملاقات کے لیے جاؤ تو بتایا جاتا ہے کہ صاحب علاقے میں ہیں ہیلتھ کے انسپکٹراور دیگر افسران کب اپنے دفتر میں آتے ہیں اور کب جاتے ہیں کسی کاکچھ پتا نہیں ۔اس وقت لیاقت آباد کی صورتحال یہ ہے کہ تقریباَ ہر جگہ سیوریج کے پانی نے چلنا پھرنا دشوار کر دیا ہے وہ خاص خاص مقامات جہاں ہر وقت یا آئے دن گندا پانی بھرا رہتا ہے ان میں لیاقت آباد نمبر دس میں مسجد دارالسلام کے نزدیک یہ لیاقت آباد کے نمبر 9اور10کادرمیانی روڈ ہے جو پچھلے چار پانچ سال سے سیوریج کی ناقص صورتحال کی وجہ سے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے یہ قومی اسمبلی کے حلقہ 246جہاں ضمنی انتخاب ایم کیو ایم کے امیدوار کنور جمیل نوید کامیاب ہوئے تھے ۔اس علاقے سے ان کو عام لوگوں نے جھولی بھر کر ووٹ دیا تھا اور انھوں نے بھی وعدہ کیا تھا وہ لیاقت ااباد کے سیوریج کے مسائل سے واقف ہیں اور کامیابی کے بعد پہلی فرصت میں یہاں کا مسئلہ حل کروائیں گے ان ہی کے حلقے میں سکندراباد اور پیلی کوٹھی کا علاقہ بھی ہے جہاں آئے دن گندا پانی بھرا رہتا ہے لیاقت آباد دس نمبر کی کھڑی لائن میں مسجد رضوان کے قریب آ ئے دن سیوریج کا پانی نمازیوں کے لیے آزمائش بن جاتا ہے اسی طرح بلاک نمبر 3اور 4کی درمیانی سڑک پر مستقل سیوریج کا پانی بھرا رہتا ہے یہ سارے وہ علاقے ہیں جو حلقہ246میں آتے ہیں جہاں کے ووٹروں نے ایم کیو ایم کے کنور نوید کو بھاری تعداد میں ووٹ دیے تھے اس وقت پوری ایم کیو ایم نے بڑے وعدے وعید کیے تھے کہ آپ صرف اس بار ووٹ دے دیں ہم آتے ہی آپ کے سارے مسائل حل کردیں گے لیکن یہاں پر کوڑے کرکٹ اور سیوریج کی کیفیت ویسی ہی ہے جیسے ضمنی انتخاب سے پہلے تھی ۔

لیاقت آباد کے بقیہ حصوں میں بھی کوڑے کرکٹ اور سیوریج کچھ اسی طرح ہے فردوس شاپنگ سنٹر سے ہوٹل چار سو بیس تک ،نرسری بلاک پانچ میں طیبہ مسجد کے پاس بھی مستقل گندا پانی بھرا رہتا ہے نمازیوں کو بہت لمبا چکر گھوم کر مسجد تک جانا پڑتا ہے ۔لیاقت آباد میں یہ صورتحال اس وجہ سے ہورہی ہے کہ 90گز کے ایک مکان کو توڑ کر اس میں 11فلیٹس بنائے جارہے ہیں اور یہ کام اتنی تیزی سے ہورہا ہے کہ ہر گلی میں آپ کو ایک دو تعمیرات ہوتی ہوئی نظر آئیں گی اس طرح کی تعمیرات کراچی کے اور علاقوں میں بھی ہے لیاقت آباد میں سیوریج کی لائنیں جو پہلے ہی بوسیدہ ہو چکی ہیں ان نو تعمیر فلیٹوں کی وجہ سے آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ان سیوریج کی لائنوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور پوری کی پوری سیوریج لائنیں تباہ ہو کر رہ گئیں گھروں تک میں گندا پانی بھرا رہتا ہے اگر لیاقت آباد کو گندے پانی میں ڈوبنے سے بچانا ہے تو ان تعمیرات پر فوری پابندی لگائی جائے اور ان بلڈروں کو پابند کیا جائے کہ وہ جہاں تعمیرات شروع کریں پہلے وہاں کی سیوریج پائپ لائنوں مرمت کروائیں سیوریج کے مین ہولوں کو ٹھیک کروائیں پھر تعمیر کا آغاز کریں ۔

لیاقت آباد نمبر دس کی آخری بیک ڈور کی گلیاں ہیں جہاں گندے پانی کے ساتھ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آرہے ہیں ان گلیوں کے رہنے والے دن بھر بدبو کے اندر رہتے ہیں یہ اپنی پتلی گلیوں کے دروازے نہیں کھول پاتے بعض گھروں میں تو اندر تک داخل ہو چکا ہے لوگ اپنے روزگار سے پہلے ہی پریشان ہیں پھر ان الجھنوں کے تدارک کے لیے وہ کتنی چھٹیاں کریں کہاں جائیں کس سے بات کریں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ایک سیاست زدہ ادارہ بن کے رہ گیا ہے جہاں عام لوگوں کوئی داد و شنوائی نہیں ہوتی ۔بعض سیاسی جماعتیں جان بوجھ کر دفاتر میں موجود اپنے حامیوں کے ذریعے آبادی میں کوڑا کرکٹ پھیلانے ،سیوریج کے پائپوں میں اور گٹروں میں کنڈی مین اور بھنگیوں کے توسط سے رکاوٹیں ڈال کر انھیں بند کردیا جاتا ہے پھر ایک گٹر کی صفائی کے لیے یہ ہزاروں روپئے طلب کرتے ہیں جو محلے والے جمع کرکے دیتے ہیں تھوڑے دن بعد پھر ایسی ہی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے یہ مسئلہ اس وقت ہی حل ہو سکے گا جب KWSBکے افسران گہری نیند سے بیدار ہو جائیں گے ۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50030 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.