میرا خاندان مجھے لوٹا دو
(Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi)
لفظ خاندان کتنا بھلا لگتاہے ۔چہرے
ہشاش بشاش ہوجاتا ہے ۔ذہن پر اپنے رشتوں کی ایک فلم چلنا شروع ہوجاتی ہے ۔ماں
باپ ،بہن بھائی ،بیوی ،بچے ۔آہ !کتنا خوبصورت تصور ہے معاشرت کا۔لیکن اب یہ
اکائی زوال پزیر ہوچکی ہے ۔زندگی اجتماعیت کی رسیوں سے دامن چھڑا کر
انفرادیت کی راہ پر چل پڑی ہے ۔انسان اب ان بندھنوں کو قید اور حبس بے جا
جاننے لگاہے ۔وہ اس سے کوسوں دور ہوتا چلاجارہاہے ۔اس کے دکھ درد،خوشی و
غمی میں اپنے پرائے کی کچھ خاص تمیز نہیں رہ گئی ۔بلکہ اس کے لیے اپنے
بیگانہ سبھی ایک ہی جیسے رہ گئے ہیں ۔آج انسان اپنی اس حماقت پر نادم بھی
ہے اسے یہ احساس بھی ہوتا چلا جارہا ہے کہ بھیڑ ریوڈ سے علیحدہ ہوجائے تو
اس بہائم و درند میں سے کوئی چیر پھاڑ کے کھاجاتاہے ۔ریوڑ ہی میں اس کی
بقاء تھی ۔خیر ۔اجتماعیت میں برکت ہے ۔جب تقدیر نے یہ رشتے قائم کئیے ہیں
تو اس میں کوئی نہ کوئی حکمت پنہاں ضرور ہوگی لیکن مادیت کی خماری اور خود
پسندی اور کروفر نے ہمیں سب سے جدا کردیا۔اپنے پرائے سبھی حقیر نظر آنے لگے
۔صاحب حیثیت ہے تو دوسروں کو حقیر جانتا ہے اور اگر غریب ہے تو و ہ شکوک و
شبہات اور بدگمانی کی ایسی رسیوں میں جھکڑاہواہے کہ دوسروں کے لیے اس کے
پاس کچھ اچھادینے کو تو نہیں ۔لیکن کچھ اچھا کہنے کوبھی نہیں ۔خیر بات دور
چلی جائے گی ۔اصل عنوان کی جانب چلتے ہیں ۔اجتماعی زندگی میں زیست کا حسن
ہے ۔
محترم قارئین ۔میاں اور بیوی انسانی زندگی کے وہ پہلو ہیں جن کے بغیر زندگی
کاباب نامکمل ہوتاہے ۔(سلامتی)اجتماعی زندگی میں سلامتی کا عنصر ۔اس بات کو
اس طرح سمجھیں کہ سلامتی ،یاسلامتی کا پایا جا نایہ ہے کہ رنج وبیماری کے
نا ہونے کے سا تھ جسمی ،ذہنی اور سماجی آسائیشوں سے پوری طرح بہرہ مند ہونا
()اسی وجہ سے سلامتی کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ بیما ری ،رنج وغم ،گناہوں
کا احساس ،احساس کمتری ،سستی وکسالت ،یا دوسری جسمی اورنفسیاتی بیماریوں سے
محفو ظ ہو ں بلکہ سلامتی یہ ہے کہ انسان عقلی ،سماجی جسمی کارکردگی پر پور
ی طرح قدرت رکھتا ہو۔(صحت):معاشرتی حسن کے لیے صحت و تندرستی اہم چیزیں ہیں
۔ صحت یہ ہے کہ انسان جسمی ،روحی اور سماجی رول کو کامل طریقے سے ادا کرنے
کی صلاحیت رکھتاہو ۔اسی صورت میں معاشرے کا متحرک فردبن کرکام کرسکتاہے ۔
محترم قارئین :خاندانی نظام کو ترتیب دینے میں اہم بات کہ شریک حیات کا
انتخاب کر نے میں توجہ سے کا م لیا جائے۔اس معاملہ میں فقط ظاہری حسن پر
اکتفاء نہ کیاجائے بلکہ اس حوالے سے مد مقابل کے خاندان کی جسمی ،روحی ،
اخلاقی ، تربیتی اور خود اس کی ذاتی سلامتی کومد نظر رکھا جا ئے۔بہت سے
جسمی صفات جیسے ظاہری شکل وصورت ،شخصیتی صفات جیسے شجاعت ،ذہنی صفات جیسے
سمجھ بوجھ کی مقدار یہ سب خاندانی وراثت سے تعلق رکھتی ہیں ۔
عورت اور مرد کاایک دوسرے کی طرف میلان ہو نے کی وجوہات میں سے ایک وجہیہ
بھی ہوسکتی ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ذریعہ اپنی کمیوں اور ضرورتوں کو
پوراکرسکتے اور کمال کی منزلوں کو طے کرسکتے ہیں ()اگر انسان کی طبیعی محبت
کی ضرورت کو شریک حیات پوری نہ کر سکے تو بہت ممکن ہے کہ اس کے بہت برے
نتائج سامنے آئیں جیسے نفسیا تی جمود ،شخصیتی خلل ،کمتری اور کم اہمیتی کا
احساس ،دوستی کے قابل نہ ہو نے کا اضطراب وغیرہ۔
خوشی وخرمی کا وجود خاندان میں محبت کی لہر ایجا د کر تا ہے اورہمیشہ ،توانائی
،اعتماد نفس اور عزت نفس کو بڑھاوادیتا ہے ، خاندان کے جوان افراد جوانی کی
عجیب غریب امنگوں اور توانائیوں کی وجہ سے بہت زیادہ جوشیلے ،خوش وخرم اور
شاداب ہوتے ہیں ، لیکن خوشی فقط نوجوانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اہل
خانہ یہا ں تک کے بوڑھے بھی اپنی پرمعنیٰ زندگی کے علاوہ ، اپنی زندگی کے
نور نظروں کو پر وان چڑھتے دیکھ کر لذت،شادابی اور رضایت کا احساس کرتے
ہیں۔ہم کو یہ ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ زندگی کے ہر موڑپر خوشی ،شادابی اور
رضایت کے کسی مو قعہ کو ہا تھ سے نہ جا نے دیں۔
دورحاضرکی سماجی زندگی ،پیچیدہ ر وابط، مختلف نظریات، متفاو ت تربیتی حالات
اور معاشرے میں بعض اقدارکے ٹکراؤکی وجہ سے لوگ ماڈرن زمانے کی مشکلات کے
ہو تے ہوئے سماج کے ساتھ نہیں چل سکتے اسی لئے انسان کے اجتماع کو قبول
کرنے میں خانوادہ کا ایک بہت بڑا کردار ہوتا ہے آج بہت سے نفسیات کے ماہرین
سماج کے ساتھ قدم بڑھانے کو انسان کے نفسیاتی معیار کا سالم ہو نا جا نتے
ہیں لہٰذا اگر کوئی سماج کے ساتھ چلنے میں نا کا م رہ جا تا ہے تو اس کو نا
ساز گا ر سمجھتے ہیں مثلا دینی سماج کی اقدار میں سے ایک قدر پردہ ہے اگر
کو ئی خاتون اس معیار پر پوری نہ اتر سکے تو اجتماع کی اکثریت کی نظر میں
اس کی یہ روش قابل تحقیر سمجھی جا ئیگی یاا گر کوئی شخص ڈرائیوری کر تے وقت
ٹریفک کے قوانین کی رعایت نہ کرے تو اس کی یہ حرکت اجتماعی غیرمناسب شمار
ہو گی۔خاندان وہ پہلی درس گاہ اور بنیادی مکتب ہے کہ جو بچے کو دینی اور
اجتماعی اقدارکو سکھا سکتا ہے تاکہ لوگوں کی تنبیہ اور ضمیر کے خورد ہو نے
سے دچار نہ ہو سکے۔اور ایک ناساز گا راور الگ تھلگ رہنے والا فرد نہ بن سکے
لہٰذخاندان کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کے لئے سماجی تر بیت کی رو سے ایک
منا سب مقام حاصل کرنے کا راستہ فراہم کرے اور اس میں خو د اعتمادی
صلاحیتوں کو فعلیت تک پہنچانے اور پھلنے پھولنے کے احساسات کو بیدار کرے
اور اس کے مناسب شغل کو انتخاب کرنے میں اس کی کمک کرے تا کہ وہ سماج میں
ایک منا سب مقام حاصل کر سکے۔
محترم قارئین !اجتماعی زندگی اور خاندانی نظام کے متعلق شعور بیدار کرنا ہم
اہل قلم کی ذمہ داری بنتی ہے چنانچہ اسی حوالے سے یہ تحریر آپ کی خدمت میں
پیش کی ۔امید سعید ہے کہ میرے کوشش کو حقائق کے کافی قریب پائیں گئے اور
اسے فقط کسی سکالر مضمون جان کر معلومات کی حد تک ہی نہیں رکھیں گئے بلکہ
اپنی زندگی میں اسکے مندرجات کو ڈھونڈنے کی بھی کوشش کریں گے ۔اﷲ عزوجل
ہمیں اتفاق ،اتحاد سے رہنے کی توفیق عطافرمائے ۔۔آمین
سدا سلامت رہیں |
|