بے چارہ صحافی
(Chohdury Nasir Gujjar, )
لفظ ــ"صحافی"سنتے ہی لوگوں کے
ذہنوں میں کئی عجیب طرح کے خیالات کی آمد شروع ہو جاتی ہے جن میں اچھے اور
بُرے دونوں قسم خیالات ہوتے ہیں لوگ ذہن میں سوچ رہے ہوتے ہیں کہ صحافی
حضرات ایک معمولی سی خبر کو اتنا بڑھا چڑھا کے پیش کرتے ہیں کہ ایسا گُمان
ہونے لگتا ہے کہ جیسے کہیں ایٹم بم گر ا دیا گیا ہے یا یہ سوچ رہے ہوتے ہیں
کہ صحافیوں کا کام کیمروں اور قلم کی طاقت کے بل بوتے پر بے چارے کرپٹ
لوگوں کو ڈرا نا دھمکانا ہے یہ لوگ ہمیشہ دوسروں کے عیب تلاش کرتے پھرتے
ہیں ہر کسی پر تنقید کرنا ان کا مشغلہ ہے انہیں تو ذرا بھی خوف خدا نہیں
وغیرہ وغیرہ۔اس کے علاوہ صحافی کی معاشی حالت کے بارے میں بھی انتہائی
مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے کہ یہ تو نوٹوں میں کھیلتا ہے تمام
ضروریات زندگی اور آسائشیں اسے میسر ہوں گی اس کا خاندان رشک کی نگاہ سے
اسے دیکھتا ہو گادن رات فارغ رہنے کے باوجود کتنے پیسے کما رہا ہے اتنے تو
دن رات محنت کرنے سے بھی حاصل نہیں ہوتے یہ تو صرف باتوں کی کمائی کھا رہا
ہے بلکہ لوگ صحافی کے بارے میں اس سے بڑھ کر قیاس آرائیاں کرتے ہیں تو ایک
صحافی ہونے کے ناطے لوگوں کی اس سوچ کا جواب دینامیرا حق ہے ۔ پاکستان میں
کم و بیش نوے فیصد بیوروکریٹس،سیاستدان اور سرکاری ملازمین کرپٹ ہیں اس کے
برعکس نوے فیصد صحافی غریب ، ایماندار اور محنتی ہیں یہ وہ واحد پیشہ ہے جس
میں چھٹی یا ٹائمنگ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ہر وقت با خبر اور الرٹ
رہنا ان کے پیشے کا جزو لازم ہے ہر اچھی اور بُری خبر سے لوگوں کو بروقت
آگاہ کرنا انکی ذمہ داری ہے اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے یہ دن رات کوشاں
رہتے ہیں۔ دن، رات، سردی، گرمی، دھوپ، بارش، طوفان،زلزلہ،سیلاب،فسادات جیسی
چیزوں کی پرواہ کیے بغیر اپنا فرض بخوبی ادا کرتے ہیں اس فرض کی ادائیگی
میں انہیں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے دشمنیاں مول لینی پڑتی
ہیں دھمکیاں ملتی ہیں اور کئی بار تو اپنی جان بھی گنوانی پڑتی ہے جسکا نہ
ہی اُن کے گھر والوں کو معاوضہ ملتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی
پنشن۔سارے پاکستان سے خبریں اکٹھی کر نے والے صحافیوں کی تنخواہیں بھی بس
گزر بسر کے ہی کام آتی ہیں بلکہ کئی صحافی تو ایسے بھی ہیں جن کو تنخواہ
بھی نہیں ملتی اُن کا گذارہ اخبارات کے اشتہارات میں سے ملنے والی کمیشن کے
ذریعے ہوتا ہے اُن کے بچے عام سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں علاج معالجہ
بھی سرکاری ہسپتالوں سے کرواتے ہیں کرائے کے چھوٹے مکانوں میں رہتے ہیں
جھوٹے مقدمات بھی اُن پر درج کیے جاتے ہیں کسی دربار کے دروازے پر لٹکے
ہوئے گھنٹے کی طرح پولیس اہلکاروں و افسران کاجب دل چاہتا ہے صحافیوں کو
بجا ڈالتے ہیں نیکی کا کام سمجھ کر گالیاں بکتے ہیں چھوٹے شہروں میں
صحافیوں کے ساتھ یہ برتاؤ روز کا معمول ہی بن گیاہے جس کی واضح مثال مجھے
اپنے شہر جھنگ میں دیکھنے کو ملتی ہے شاید جھنگ کی پولیس پورے پاکستان کی
پولیس سے زیادہ کرپٹ ،بدتمیزاور بددماغ ہے ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کے
باوجود بھی صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داری نبھا رہا ہے اگر ہمارے مُلک
میں صحافی نہ ہوں تو کرپشن اور بد عنوانی کے ٹھیکیدار عام آدمی کی زندگی کو
جہنم بنا دیں گے کہاں کیا ہو رہا ہے کیا ظلم ڈھایاجارہا ہے کچھ پتہ نہیں
چلے گاحق کی آواز بلند کرنے والے کی آواز کو ہمیشہ کے لیے دبا دیا جائے گا
صرف تین دن کے لیے اگر تمام صحافی خبریں پہنچانا بند کر دیں تو عوام میں
ایک بے چینی پھیل جائے گی معاشرے میں افراتفری ہو گی۔اس مُلک کی بقاء اور
عوام کی ہمدردی کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لانے والا بے چارہ
صحافی سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنتا ہے کیوں کہ حق بات کہنے والے کے
مخالفین بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ |
|