گھریلو جھگڑوں کے اسباب اور ان کا تدارک
(Jaleel Ahmed, Hyderabad)
سب سے زیادہ عام وجہ رنجشوں کی
یہ ہے کہ ہمارا آپ کا سب کا ایک ساتھ رہنا سہنا ہوتا ہے… کیوں؟ آپ کو تعجب
کیوں ہوا…؟ اچھا اس وجہ سے کہ میں شاید ساتھ رہنے سہنے کا کسی برے انداز
میں ذکر کررہا ہوں۔ نہیں نہیں… ایسا نہیں ہے-
بڑوں کی رنجشیں: بچوں کا معاملہ کچھ دوسرا ہی ہوتا ہے لیکن عمر کی پختگی کے
ساتھ خیالات اور جذبات میں پختگی اور ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ اب تو ایسا ہوتا ہے
کہ جو بات بھی دل پر اثر کرتی ہے وہ اپنا اثر ایک مدت کیلئے چھوڑ جاتی ہے۔
بچوںکی طرح ایسا نہیں ہوتا کہ آپ ایک منٹ کیلئے خوش ہوئیں تو ہنسنے لگیں
اور دوسرے منٹ کوئی تکلیف ہوئی تو رونے لگیں‘ بلکہ جب آپ کوکوئی خوشی ہوتی
ہے تو اس سے آپ پہروں مسرور ہوا کرتی ہیں۔ رہ رہ کر وہ خوشی آپ کے اندر جوش
کرتی ہے اور آپ لطف اٹھاتی ہیں۔ اسی طرح جب کوئی دکھ ہوتا ہے تو جہاں اس کا
خیال آتا ہے آپ کا دل بھر آتا ہے‘ آپ رنجیدہ ہوجاتی ہیں۔ اکثر تو یہ اثرات
مہینوں اور برسوں تک رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی عزیز کی موت کے بارے میں
خیال فرمائیے کہ اس کے غم کو بچے کتنی جلدی بھول جاتے ہیں لیکن آپ کو جب
بھی اس کا خیال آتا ہے روہانسی ہوجاتی ہیں۔
بچوں کے مقابلے میں بڑوں میں ایک اور فرق ہوجاتا ہے۔ بچے اپنے غم و غصے کو
یا خوشی اور میل محبت کوچھپانے میں بہت کم کامیاب ہوتے ہیں مگر بڑے اس
معاملے میں زیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو اپنی بڑی سے بڑی
خوشی کو چھپا سکتے ہیں۔ آپ نے تو بارہا ایسا کیا ہوگا کہ کسی سہیلی کی بات
سخت ناگوار گزری آپ کا دل اس کی طرف سے پھیکا پڑگیا لیکن آپ یہ بھی نہیں
چاہتی ہیں کہ آپ کی یہ ناپسندیدگی اس پر فوراً ظاہر ہوجائے ایسی صورت میں
جب وہ آپ سے ملتی ہے تو آپ اوپر ے دل سے ملتی ہیں بظاہر آپ مسکرا رہی ہوتی
ہیں لیکن اگر کوئی آپ کے دل کے اندرجھانک کر دیکھے تو وہاں نامعلوم کتنا
غبار جمع ہوگا۔ غرض یہ تذکرے چھوڑئیے! آپ کو کچھ اچھے بھی نہ لگتے ہوں گے؟
میں نے توصرف اس لیے حوالہ دے دیا کہ آپ بڑوں کی اس کیفیت سے بھی آگاہ
ہوجائیں کہ بڑے اپنے جذبات کے اظہار پر قابو ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ انہیں
بالکل دوسرے رنگ میں پیش کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔
سب سے زیادہ عام وجہ رنجشوں کی یہ ہے کہ ہمارا آپ کا سب کا ایک ساتھ رہنا
سہنا ہوتا ہے… کیوں؟ آپ کو تعجب کیوں ہوا…؟ اچھا اس وجہ سے کہ میں شاید
ساتھ رہنے سہنے کا کسی برے انداز میں ذکر کررہا ہوں۔ نہیں نہیں… ایسا نہیں
ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ اس نے ہمیں ایک ساتھ زندگی گزارنے
کیلئے مجبور کیا ہے اور اسی انعام کی وجہ سے آج ہم اتنے تہذیب یافتہ‘ اتنے
ترقی یافتہ‘ اتنے سلیقہ مند‘ اتنے باشعور ہیں۔ ورنہ تو نہ انسانوں کے
تعلقات ہوتے نہ قدم قدم پر ضرورتوں کا احساس ہوتا اور نہ ہماری عقل کو
روشنی نصیب ہوتی اور نہ ہم آج یہ سب کچھ حاصل کرسکتے جو کچھ ہمارے چاروں
طرف پھیلا ہوا ہے بس زیادہ سے زیادہ جانوروں کی طرح بھٹ کھود لیتے اور اس
میں اپنی عمریں گزار دیتے… ہاں! تو میں بات جس لحاظ سے کہہ رہا تھا وہ یہ
تھی کہ ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو ہر لمحہ اور معمولی سے
معمولی کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ سب انسان ہی ہیں فرشتے تو
نہیں! کسی نہ کسی سے غلطی ہوگئی تو وہ فوراً ہماری نگاہوں کو کھٹکنے لگتی
ہے۔ اچھی باتیں ہمارے لیے یوں ہی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہیں کہ یہ تو ہونا
ہی چاہیے‘ یہ کوئی بات نہیں اور ہم انہیں بھلادیتے ہیں۔
’’اے لو‘ باجی کو ناحق پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت پڑگئی‘ ہم چاہے
جیسے رہیں انہیں کیا؟‘‘
آخر انہوں نے ہمارے دوپٹے پر منہ کیوں پچکایا؟ ایک ذرا سی بات مگر طورمار
بن گئی۔ کیوں؟ اس لیے کہ باجی کا اعتراض آپ کو ایک آنکھ نہ بھایا اب باجی
جب بھی آپ کی نظروں کے سامنے آئیں گی آپ کی ناگواری کو ہوا ملے گی۔ آپ باجی
سے روٹھی رہیں گی۔ خیر یہ تو ایسی بات تھی جس میں آپ کا اور باجی کا براہ
راست تعلق تھا لیکن بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات بن جایا کرتی ہے
مثلاً بوا دہلیز پر بیٹھ کر وضو کرتی ہے۔ آپ کو ہر بار اپنے کپڑے بچا کر
گزرنا پڑتا ہے۔ دل میں یہ خیال آتا ہے کہ بوا کو منع کردیں گی لیکن یاد
نہیں رہتا۔ ایک دن ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کے کپڑے میں ایک ذرا سا کیچڑ لگ
جاتا ہے لیجئے بھس میں چنگاری لگ گئی۔
اور اسے بھی چھوڑئیے! ان کا پرنالہ میرے صحن میں کیوں گرتا ہے؟ اور میری
طرف ایسے کیوں دیکھتی ہے؟ وہ چٹاخ چٹاخ جواب کیوں دیتی ہے؟ وہ ایسے بے ڈھنگ
کپڑے کیوں پہنتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ بدگمانی رنجشوں کیلئے ا ٓگ پر تیل کاکام کرتی ہے۔ اس میں
بعض دوسرے بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ مثلاً آپ کے پڑوس سے کوئی خاتون ملنے
آئیں بے چاری جب ملنے آئی ہیں تو صرف لوٹا پھیری کرنا مقصود تو نہ تھا۔ دو
چار گھڑی آپ کے پاس بیٹھیں گی بھی۔ ظاہر ہے کہ تیری میری باتیں ہوں گی۔ ان
باتوں ہی باتوں میں کچھ زبان سے نکل جائے گا۔ مثلاً وہ بڑی آپا کے بارے میں
کہہ جائیں… ’’بہن! مجھے تو ان کا دن بھر پڑے رہنا اچھا نہیں لگتا۔ اے جب
جاؤ دیکھو اپنے بچوں کے چونچلے ہورہے ہیں گھر کے کاموں سے کوئی غرض ہی
نہیں۔ لو ابھی تمہارا ہی ہاتھ بٹالیں تو ایسا کیا انکا نقصان ہوجائے گا۔‘‘
آپ پہلے ہی سے کام کاکافی بوجھ اپنے کندھوں پر محسوس کررہی تھیں۔ اس تبصرے
نے آپ کے احساس کو اور شدید کردیا اب کیا ہے آپ بڑی آپا سے اپنا دل میلا
کرلیں گی۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ خواہ مخواہ یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ آج جو میں
نے باجی کےکمرے کی صفائی کردی ہے تو وہ کل میرے برتن صاف کردیں گی یامیں نے
فلانی کا سویٹر بن دیا ہے تو اب اس پر میرےغلاف کاڑھنا فرض ہوگیا ہے مگر جب
ان ہی توقعات کے ساتھ آپ اپنے احسان کے بدلے کا انتظار کرتی رہتی ہیں اور
باجی کو آپ کے برتن صاف کرنے کا خیال نہیں ہوتا۔ یا فلانی آپ کے غلاف
کاڑھنے کی فکر نہیںکرتی تو آپ ان سے روٹھ جایا کرتی ہیں۔ ان بے چاریوں کو
یہ خبر بھی نہیں کہ بات کیا ہوئی لیکن آپ کو تو معلوم ہے آپ نے غلط توقعات
قائم کیں اور ان کے پورے نہ ہونے پر بدگمان ہوگئیں۔
ہماری رنجشیں یوں ہی پرورش پاتی ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں
بچے نہ ہوں‘ مثلاً آپ کی پیچک کا دھاگہ ختم ہوگیا‘ آپ نے چھوٹی بہن کی پیچک
استعمال کرڈالی اب جب اس بے چاری کو ضرورت پڑی تو آپ کو دھاگہ منگانا ہی
یاد نہ رہا۔ وہ دو چار دن انتظار کرتی رہی لیکن آپ نے مستقلاً کان میں تیل
ڈالے رکھا۔ مجبور ہوکر اس نے آپ سے تقاضا کیا۔ آپ بجائے اس کے کہ اپنی غلطی
کا احساس کریں الٹے اس پر برس پڑتی ہیں۔ ’’ اے واہ ری لڑکی! ایسا بے اعتبار
سمجھ رکھا ہے‘ لے لینا اپنا دھاگہ کاہے کو جان نکلی جاتی ہے‘‘ آپ کا اس طرح
برافروختہ ہوجانا ہی معاملات کو خراب کردیتا ہے اور خاص طور سے جب رسول
اللہ ﷺ کا یہ قول نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ ’’ جس نے کسی مسلمان کا حق مار
لیا تو اللہ نے اس پر دوزخ واجب کی اور جنت حرام کی۔ ایک آدمی نے کہا:
یارسول اللہ ﷺ اگر معمولی چیز ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ ایک پیلو کی لکڑی
(مسواک) ہو۔‘‘ (مسلم) |
|