میری دنیا کے غریبوں کو میرا سلام

مادیت کے اس دور میں ہمیں کاربنگلہ ،بینک بیلنس ،دولت اور شہرت نے اس قدر بے حس کردیا کہ ہمیں غریب و فقراء چھوت و کم درجہ کے لگنے لگے ہیں ۔ہم نے اپنے رشتوں کو دولت کے اعتبار سے ،شہرت کے اعتبار سے ،وسائل کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے ۔پھٹے ہوئے کپڑوں والے ۔پھٹی ہوئی چپل والے ۔سوکھی روٹی کھانے والوں کے ساتھ سلام ودعا رکھنا اچھا نہیں لگتا۔ہم اپنے بچوں کو ایسے غریبوں ،حالت کے ماروں کے ساتھ بیٹھک سے منع کرتے ہیں ۔ہمارا سٹیٹس اعلی ہے ۔ان کم درجہ لوگوں سے علیک سلیک ہمیں زیب نہیں دیتی ۔

خیر بات طویل ہوجائے گی ۔لیکن رب کعبہ کی قسم مجھے غریب بہت پیارے لگتے ہیں ۔مجھے فقراء بہت عزیز ہیں ۔پوچھو کیوں ؟اسلیے کہ تاریخ انسانیت بتاتی ہے دنیا میں جس نے بھی انسان دوست کام کیا،انسان کو سکھ دیا،انسان کی دنیا میں تشفی بخش اطمینان کام کیا وہ غربت کی کٹیا میں گھٹے غریب ہی نے کیا۔محلات کی آسائشوں میں رہنے والے ،دولت و ثروت کے مہاراجوں نے انسان کی دنیا کو ہمیشہ کسی نہ کسی حماقت ،زلت و ضلالت میں دھکیل دیا۔کبھی قتل عام برپا کیاتو کبھی اپنی مفادات کی جنگ میں اس کا تہس نہس کردیا۔
مجھے فقراء اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں ۔کہ یہ رب کی تقسیم پر شاکر ہیں ۔تکبر کا مرض ان کے پاس نہیں پھٹکتا۔محبت ،جفاکشی ،خون پسینہ کی کمائی ان کا طرّہ امتیاز ہے ۔مجھے غریب اسلیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ میرے ابو نے بھی غربت میں آنکھ کھولی اور پھر اس ملک کے لیے پاکستان نیوی میں عمدہ کردار اداکیا۔مجھے غریب اسلیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ میرے آقامیری آنکھوں کی ٹھنڈک نے بھی اسے اختیار فرمایااور غرباء و فقراء پرشفقت فرمائی ۔میں دولت کو برا نہیں کہتا ۔میں محلات کو برا نہیں کہتا۔میں کار بنگلہ والوں کو نہیں کہتا۔میں سہولیات و آسائش سے بہرہ مندلوگوں کو نہیں کوستا۔میں بات ان فرعونوں کی بات کرتا ہوں جو دولت کے گھمنڈ میں وقت کے موسی کو تکلیف پہنچاتے ہیں ۔میں خلاف ہوں ان قارونوں کے جنھوں نے دولت کی تہہ در تہہ لگارکھی ہے لیکن ساتھ سسکتے انسان ،بلکتے بچوں پر اسے رحم نہیں آتا ۔میں خلاف وسراپائے احتجاج ہوں ا ن ناسور کے جو غریب کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔اپنی دولت و شہرت کے غرور میں اس کی عزت سے کھیلتے ہیں ۔اس کی عزت نفس سے کھیلتے ہیں ۔اس کی غربت کا مزاح اُڑاتے ہیں ۔

میری دنیا کے غریبو!تمہیں میراسلام۔تمہیں میراسلام ۔۔۔۔۔۔آیک حکایت آپ کے ذوق مطالعہ کی نظر کرتاہوں ۔تاریخ انسانیت کی عظیم ہستی جن کا رہتی دنیا پر عظیم احسانات ہیں ۔ان کی سیرت پڑھیے اور اپنے گریبان میں جھانکیے ۔۔۔۔

حضرت سیدنا سُوید بن غَفلہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :کہ میں امیر المومنین حضرت مولائے کائنات، علی المرتضیٰ شیرِخدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجھَہُ الْکَرِیمکی خدمت سراپا عظمت میں دَارُالاَمارۃکوفہ میں حاضر ہوا۔ آپ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجھَہُ الْکَرِیم کے سامنے جو شریف کی روٹی اور دودھ کا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا، روٹی خشک اور اس قدر سخت تھی کہ کبھی اپنے ہاتھوں سے اور کبھی گھٹنے پر رکھ کر توڑتے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے آپ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجھَہُ الْکَرِیمکی کنیز فِضّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے کہا، آپ کو ان پر ترس نہیں آتا؟ دیکھئے تو سہی روٹی پر بھوسی لگی ہوئی ہے ان کیلئے جو شریف چھان کر نرم روٹی پکایا کریں۔ تا کہ توڑنے میں مشقت نہ ہو ۔فِضّہ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہا نے جواب دیا، امیرالمومنین کَرَّمَ اﷲُ تَعَالٰی وَجھَہُ الْکَرِیم نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ان کے لئے کبھی بھی جو شریف چھان کر نہ پکایا جائے۔ اتنے میں امیرالمومنین کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجھَہُ الْکَرِیم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، اے ابن غفلہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہآپ ا س کنیز سے کیا فرما رہے ہیں ؟ میں نے جو کچھ کہا تھا ۔عرض کر دیا اور التجاء کی، یاامیرَالمومنین !آپ اپنی جان پر رحم فرمایئے اور اتنی مشقت نہ اٹھایئے۔ تو آپ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجھَہُ الْکَرِیم نے فرمایا، اے ابن غفلہ ! دو عالم کے مالک و مختار، مکی مدنی سرکار، محبوب پرورد گار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلّم اور آپ کے اہل و عیال نے کبھی تین دن برابر گیہوں کی روٹی شکم سیر ہو کر نہیں کھائی اور نہ ہی کبھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّمْ کے لئے آٹا چھان کر پکایا گیا۔ ایک دفعہ مدینہ منورہ زَادَھَااللّٰہ شرفًاو تعظیماً میں بھوک نے بہت ستایا تو میں مزدوری کے لئے نکلا، دیکھا کہ ایک عورت مٹی کے ڈھیلوں کو جمع کر کے ان کو بھگونا چاہتی تھی میں نے اس سے فی ڈول ایک کھجور اجرت طے کی اور سولہ ڈول ڈال کر اس مٹی کو بھگودیا یہاں تک کہ میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے پھر وہ کھجوریں لے کر میں حضور اکرم، نور مُجَسَّم، شاہ بنی آدم،رسولِ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم کے حضور حاضر ہوا اور سارا واقعہ بیان کیا تو آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلََّمنے بھی ان میں سے کچھ کھجوریں تناول فرمائیں۔(تذکرۃ الخواص ،الباب الخامس، فیضانِ سنّت، )

محترم قارئین :حکایت پڑھی آپ نے ؟میں مزید کچھ نہیں کہتا۔بس اتنی التجاہے کہ دکھیاروں ،حالات کے ماروں کو ہمدردی کی نظر سے دیکھ لیاکرو۔کچھ کرسکتے ہوتو کردیاکرو۔ضرور کردیاکرو۔میری دنیا کے غریبو ۔تم عظیم ہو۔تم غریب ہو لیکن عظیم ہو۔تم محنت کش ہو۔اپنی غربت پر مایوس نہ ہونا۔وقت گزر جائے گا۔خزاں کے گا۔خزاں کے بعد بہار کی امید رکھو۔سداسلامت رہو۔۔۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542176 views i am scholar.serve the humainbeing... View More