جلدی کر.....وقت ِتوبہ ہے!

جب سے دنیامعرضِ وجودمیں آئی ہے،زلزلوں کوہمیشہ ایک ناگہانی آفت کی علامت سمجھاجاتاہے۔یوں تو زلزلوں کی آمدکی کئی وجوہات ہیں اورآج کے جدیددورمیں بھی سائنس دان بھی کوئی ایسا طریق کاردریافت نہیں کرسکے جس کے ذریعے یہ پیش گوئی کی جاسکے کہ کب کوئی زلزلہ آئے گا ؟لیکن ہرمعاشرے میں توہمات کی بناء پرمختلف توجیہات ضرورمنسوب ہیں جہاں ان علاقوں کے مکیں یقینًاان دیکھی
روایات پر یقین کرتے ہیں ۔پہلے وقتوں میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی کا وجود نہیں تھااور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوارمیں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھی۔کسی قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل وعریض چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کی حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہے۔کچھ ثقافتوں میں یہ یقین پایا جاتا ہے کہ بری ارواح نے جب زمین پر دستک دیتی ہیں توزلزلہ وجودمیں آتاہے۔.مذہبی عقیدے کی حامل قوم کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کوزمین ہلا کر ڈراتا ہے۔اسی طرح ہندوں دیو مالائی تصور یہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اورجب وہ تھک کرسینگ بدلتی ہے تو اس کے نتیجے میں زمین ہلتی ہے جبکہ ارسطواورافلاطون کے نظریات کچھ ملتے جلتے تھے جن کے مطابق زمین کی تہوں میں موجودہواجب گرم ہوکر زمین کے پرتوں کوتوڑکرباہر آنے کی کوشش کرتی ہے توزلزلے آتے ہیں۔

سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اوراسطرح ہر نئے سا نحے کے بعد اس کے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجونے پرانے نظریات کی نفی کردی ہے.یوں تو بہت سی قدرتی آفات کے ظہورپذیرہونے سے پہلے پیشگی اطلا ع فراہم ہوجاتی ہواور احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کے باعث کافی بڑے جانی ومالی نقصانات سے بچاجاسکتاہے۔مثلاسمندرمیں بننے والے خطرناک طوفانوں،ان کی شدت اور ان کے زمین سے ٹکرانے کی مدت کا تعین سٹلائیٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے اوراس سے بچا ؤکی تدابیربروقت اختیارکی جاسکتی ہیں مگرزلزلے کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ایک داستان رقم کرکے جاچکا ہوتا ہے۔ بیشک ایسے آلات ایجادہوچکے ہیں جوزلزلے گزرنے کے بعد ان کی شدت، ان کے مرکزاورآفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں۔

ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں ایک وجہ زیرزمیں پلیٹوں(فالٹس)میں ٹوٹ پھوٹ کاعمل ہے اوردوسری آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے۔زمین کی بیرونی سطح کے اندرمختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوامادہ جسے میگماکہتے ہیں موجودہوتا ہے ۔میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیداہوتاہے جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیداہوتی ہے اوروہ شدیدٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دھنس جاتا ہو اور کچھ اوپرکوابھرجاتاہے جس سے زمیں پربسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے۔زلزلے کی شدت اوردورانیہ کاانحصارمیگما کی حرارت اوراس کے نتیجے میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پرمنحصر ہے اسی طرح جب آ تش فشاں پھٹتے ہیں تولاواپوری شدت سے زمین کی گہرائیوں سے سطح زمیں کی بیرونی تہوں کو پھاڑتاہوخارج ہوتاہے جس سے زمیں کی اندرونی پلیٹوں میں شدید قسم کی لہریں پیداہوتی ہیں۔

یہ لہریں زیرزمین تین سے پندرہ کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہیں اورماہیت کے حساب سے چاراقسام میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔دو لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دولہریں جن میں سے ایک پرائمری ویواوردوسری سیکنڈری ویوہے زیر زمین سفرکرتی ہیں ۔پرائمری لہریں آوازکی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیرزمین چٹانوں اورمائعات سے گزرجاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوزکی رفتارپرائمری ویوزکے مقابلے میں کم ہوتی ہے اوروہ صرف زیرزمین چٹانوں سے گزرسکتی ہے ۔سیکنڈری ویوززمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیں مگر وہ جب چٹانوں سے گزرتی ہے توایل ویوزبن کر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اورزلزلے کاسبب بنتی ہیں۔ایل ویوزجتنی شدید ہوں گی اتنی ہی شدت کازلزلہ زمین پرمحسوس ہوگا۔زلزلے اگرزیرسمندر آتے ہیں توان کی قوت سے پانی میں شدید طلاطم اورلہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اورکافی طاقتوراوراونچی لہریں پیداہوتی ہیں جوسطح سمندرپرپانچ سوسے ایک ہزارکلومیٹرکی رفتارسے بغیراپنی قوت اوررفتارتوڑے ہزاروں میل دورخشکی تک پہنچ کرناقابل یقین تباہی پھیلاتی ہے جس کی مثال انڈونیشیا کے زلزلے اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی کی شکل میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ جس کی لہروں نے ہندوستان اورسری لنکا جیسے دوردرازملکوں کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی جس کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے ۔

ربّ کریم نے سورة الحج کاآغازہی قیامت کی آمدکوبھی ایک زلزلے سے تشبیہ دیکرلوگوں کومتنبہ کیاہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ۔لوگو! اپنے پروردگار سے ڈروکہ قیامت کا زلزلہ ایک حادثہ عظیم ہوگا(الحج۔١) پھر ایک اورجگہ تواپنے بندے کودنیاکی حقیقت سمجھانے کیلئے الزلزال کے نام سے پوری سورة نازل فرمادی کہ ہم اس سے نصیحت حاصل کرسکیں۔
إِذَازُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَاوَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَاوَقَالَ الْإِنسَانُ مَالَهَا يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَابِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا۔ جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی اور اپنے بوجھ باہرنکال پھینکے گی انسان کہنے لگے گااسے کیاہوگیا ہے۔ اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا۔(۹۹۔۵:۱)

دورِحاضر میں امتِ مسلمہ ذلت ورسوائی کے جس گڑھے میں گری ہوئی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے دین کوچھوڑدیاہے،ہم نے اللہ اور رسول ۖکی تعلیمات کو بھلا دیا ہے ۔ بظاہرتوہم کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں اسلامی شریعت کومانتے ہیں مگرعمل ہمارااس کے برعکس ہوتا ہے چاہے اجتماعی طورپراس کا مشاہدہ کریں یاانفرادی۔آج ہم کافروں کے ہاتھوں اپنے اعمال کے باعث ذلیل ورسواہورہے ہیں۔ ہم ہی ایسے ظالم اور ناشکرے ہیں کہ اپنے اللہ سے اور اس کے احکام سے منہ موڑ رکھا ہے اوردنیا کی ختم ہوجانے والی فانی اورنفسانی لذات میں محوہوگئے ہیں اور اس میں اتنا مشغول ہوچکے ہیں کہ نہ صرف اپنے رحیم و کریم مالک کی نافرمانیاں کررہے ہیں بلکہ اس کے بندوں کے حقوق بھی غضب کرنے کو اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ خدارا غور کریں کہ آج ہم بے حسی کے کس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ کتے کو بھی جہاں سے ایک وقت روٹی مل جائے تو وہ اس در کاوفاداربن کررہتا ہے لیکن ہم نے کتنی وفا کی اپنے مالک سے جوہمیں کھلارہا ہے، پلا رہا ہے،سلارہا ہے، ان گنت نعمتیں عطاکررکھی ہیں۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سب سچے دل سے توبہ کریں اورآئندہ کے لئے گناہوں سے بازآجائیں۔ وہ تو ایسا رحیم وکریم رب ہے کہ فرمارہاہے:اے میرے بندوں جنہوں نے اپنی جانوں پرزیادتی کی ہے،خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا توسب گناہوں کوبخش دیتاہے۔ وہ توبخشنے والا مہربان ہے۔ (زمر)۔ دیکھیں کہ کس محبت سے مالک اپنے نافرمان بندوں سے مخاطب ہے۔ اگر ہم اب بھی ایسے رب کو بھلا دیں تو ہم سے بڑا احسان فراموش اورکون ہوگا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :کیا اب بھی مومنوں کیلئے یہ وقت نہیں آیاکہ ان کے دل خدا کی یاد سے نرم ہوجائیں ۔ الحدید

آج ہم گناہوں اورفتنوں کی جس دلدل میں پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہےاوروہ ہے توبہ۔ اللہ رب العزت کا ارشادِ ہے: مومنو!خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔ امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دورکردے گا اورتم کوباغہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا(تحریم)۔ حضورۖنے ارشادفرمایا:میں اللہ تعالی سے روزانہ سترمرتبہ استغفارکرتاہوں۔اب ہم ذرااپنی حالت کودیکھ کراندازہ لگائیں کہ ہمیں توبہ واستغفارکی کتنی ضرورت ہے جبکہ سرکاردوعالم ۖ جن سے بڑھ کرکوئی نیک اورتقویٰ والا نہیں ہوسکتا وہ فرما رہے ہیں۔

توبہ سے روکنے کے لئے عام طورپرنفس جو کہ شیطان کاایجنٹ ہے دو طرح کی پٹی پڑھاتاہے۔ ایک تویہ کہ ابھی توبڑی عمرپڑی ہے،ابھی تو جوان ہیں، ابھی توہنسنے کھیلنے کے دن ہیں،مزے کرو،بعد میں توبہ کرلیں گے۔ توسب سے پہلے توہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ موت کے وقت کی کسے خبرہے ممکن ہے اگلے لمحے موت سرپرکھڑی ہواوردوسرے توبہ کی توفیق بھی اللہ تبارک وتعالٰی کی طرف سے ملتی ہے۔آج کے زلزلے کایہی پیغام ہے۔آج اگردل میں توبہ کاخیال پیداہورہاہے تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت کاپیغام ہے۔ اس کوغنیمت جانیں اورآج ہی فوراًاس پرعمل کرلیں، کیاخبر کل یہ توفیق حاصل ہویانہ ہویاایسا ہی کوئی دوسرازلزلہ ہمیں مہلت نہ دے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.