کسی بھی اچھے کام کے حصول کے لیے
آنے والی مشکلات کو تسلیم کرنے سے دل سے کیا ہوا صرف ایک انکار بعض اوقات
اس انسان کی قسمت بلکہ قوموں کی قسمت کا بھی فیصلہ کرجاتا ہے قائد اعظم کا
الگ ملک کے حصول سے پیچھے ہٹنے کا انکار قیام پاکستان کا باعث بن گیا جہاں
آج ہم امن اور سکون سے بیٹھ کر لوٹ مار میں مصروف ہیں ،ڈاکٹر عبدالقدیر خان
کا ملک کی خدمت سے پیچھے ہٹنے کا انکار ہمیں ایٹمی قوت بنا گیا جسکی بدولت
آج ہم دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی باتیں کررہے ہیں سابق چیف جسٹس کا پرویز
مشرف کے حکم پر مستعفی ہونے سے انکار انہیں قومی ہیرو بنا گیا اور اب آرمی
چیف جنرل راحیل شریف کا دہشت گردوں کے سامنے جھکنے سے انکار ضرب عضب کی شکل
میں ہمارے سامنے ہے اور تو اور امریکہ جسکی مثال ہر جگہ ہمار پیچھا کیے
ہوئے ہے وہاں پر آج سیاہ فاموں کی جو آزادی ہے وہ بھی ایک خاتون کے انکار
کی بدولت ہی معرض وجود میں آئی وہ کیسے ؟ اس بہادر خاتون کے انکار جی ہاں
صرف ایک انکار نے وہ تاریخ رقم کردی جو سینکڑوں لوگ متحد ہو کر بھی نہیں
کرسکتے تھے یہ دسمبر 1955کی ایک سرد شام تھی اور دِن بھر کی پْر مشقت اور
تھکا دینے والے سلائی کڑھائی کے کام سے فراغت پا کر روزا پارکس نامی ایک
سیاہ فام عورت، اپنے دستی تھیلے کو مضبوطی سے سینے سے چمٹائے ہوئے اْس بس
سٹاپ پر جا کر کھڑی تھی جہاں سے اْس کے گھر کی طرف جانے والی بس کو گزرنا
تھااور اسی انتظار میں روزا پارکس کے ذہن میں وہ افسوس ناک غیر انسانی
مناظر گھوم گئے جو اْن دنوں امریکہ میں عام دیکھنے کو ملتے تھے کہ کسی بھی
سیاہ فام کو اْسکی نشست سے اْٹھا دینا تاکہ وہاں پر ایک سفید فام بیٹھ سکے
امریکی قانون سیاہ فاموں کو اِس بات سے سختی سے منع کرتا تھا کہ وہ کسی
سفید فام کے کھڑے ہونے کی صورت میں قطعی نہیں بیٹھ سکتے ۔معاملہ صرف یہاں
تک ہی محدود نہیں تھا، اگر کوئی سیاہ فام بزرگ عورت کسی نوجوان سفید فام کے
کھڑے ہونے کی صورت میں بیٹھی پائی جاتی تو اْس بزرگ اور بوڑھی عورت پر
جْرمانہ کیا جاتا تھا۔جی ہاں، یہ اْسی زمانے کی بات ہے جب دوکانوں یا کھانے
کے ریستورانوں کے دروازوں پر فخر سے ایسی تختی لٹکائی جاتی تھی جِس پر لکھا
ہوتا کہ یہاں بِلیوں، کتوں اور سیاہ فاموں کا داخلہ منع ہے نسل پرستی پر
مبنی یہ رویئے روزا پارکس کو غمگین اور افسْردہ کیئے رکھتے تھے ۔ وہ ہمیشہ
یہی سوچتی رہتی کہ کب تک ہم سیاہ فاموں کے ساتھ یہ امتیازی اور کمتر سلوک
جاری رہے گا؟ آخرکب تک سیاہ فاموں کو قطاروں کے آخر میں رکھا جائے گا اور
سفید فاموں کے جانوروں کو برابری کے حقوق دیئے جائیں گے ؟ اِنہی سوچوں میں
گْم روزا پارکس اپنے سینے میں درد چْھپائے بس کے آنے پر اْس میں سوار ہو
گئی۔بس میں دائیں بائیں دیکھتے ہوئے روزا کو ایک خالی نشست نظر آگئی بس کے
انتظار میں کھڑے شل ہوئی ٹانگوں کے ساتھ وہ نشست پر بیٹھ گئی،کْچھ ہی دیر
بعد اگلا سٹاپ آ گیا جہاں سے بس میں مزید لوگ سوار ہو ئے اور بس بھر گئی۔بس
میں سوار ہونے والا ایک نوجوان سفید فام آہستگی سے اْس کرسی کی طرف بڑھا
جہاں روزا پارکس بیٹھی ہوئی تھی۔ سفید فام اِس انتظار میں تھا کہ روزا اْس
کیلئے نشست چھوڑے گی مگر آج معاملہ اْلٹا ہو گیا تھا، روزا نے سفید فام کو
اْچٹی سی نگاہ سے دیکھا تو سہی مگر اْس کیلئے نشست خالی کرنے سے انکار کرتے
ہوئے اپنی نظریں باہر کی طرف سڑک پر ٹِکا دیں۔ سفید فام کے چہرے پر توہین
کا احساس نمایاں تھا۔مسافروں کا رویہ بھی روزا کے ساتھ کرخت ہوگیا مگر روزا
کی طرف سے صرف انکار تھا بس کا ڈرائیور ایک سیاہ فام عورت کی اِس قانون
شکنی کی جرا ت اور سفید فام کی توہین پر یوں خاموش نہیں رہ سکتا تھا، اْس
نے بس کا رخ پولیس سٹیشن کی طرف موڑ دیا تاکہ پولیس اِس سیاہ فام عورت کو
ایک معزز سفیدفام کی توہین کرنے کی جرا ت کا مزا چکھا سکے ۔اور حقیقت میں
بھی ایسا ہی ہوا، پولیس نے روزا پارکس کو گرفتار کر کے تحقیق کی اور بعد
میں اْسکا جرم ثابت ہونے پر اْسے15 ڈالر جرمانے کی سزا سْنائی گئی، تاکہ
اْسکی سزا دوسروں کیلئے ایک مثال بن جائے اور آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کرے
۔بات تو چھوٹی سی تھی مگرروزا کا انکار امریکا کی سر زمین پر ایک چنگاری بن
کر گری۔ مْلک بھر میں بسنے والے تمام سیاہ فام روزا پارکس کے ساتھ پیش آنے
والے اِس ناروا سلوک پر آگ بگولہ ہو گئے اور ایک تحریک چل پڑی کہ وہ نقل و
حمل کے تمام وسائل کے خلاف اْس وقت تک احتجاج کے طور پر بائیکاٹ کریں گے جب
تک امریکی حکومت اْن کو تمام تر انسانی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتی اور
اْنکے ساتھ مہذب معاملے کا وعدہ نہیں کر لیا جاتا۔یہ بائیکاٹ اپنی تمام تر
ثابت قدمی کے ساتھ ایک طویل عرصے تک چلا، سیاہ فاموں نے 381دنوں تک احتجاج
کیا اور امریکی حکومت کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔روزا پارکس
کی فتح ہوئی اور عدالت نے ملک میں نہ صرف نسلی امتیاز کے اِس قانون کو بلکہ
اِس جیسے کئی امتیازی رواجوں کو فوری طور پر ختم کردیا۔امریکی تاریخ میں
ایک سیاہ فام عورت کے تاریخی انکار کی اس وقت پھر یاد تازہ ہوگئی جب
28اکتوبر2001ء کو مِیشی گن کے شہر ڈیئر بورن میں واقع ھنری فورڈ عجائب گھر
کے منیجر سٹیو ھامپ نے اْس پرانی بس کو خریدنے کا فیصلہ کیا۔جی ہاں 1940
ماڈل کی یہ بس جس میں روزا پارکس کے ساتھ وہ سانحہ پیش آیا تھا، ایسا سانحہ
جس نے امریکا میں انسانی حقوق کی تحریک کو جنم دیا اور پھر سیاہ فاموں کو
بھی برابر کے حقوق حاصل ہو گئے ۔اور یہ پرانی بس چار لاکھ بیانوے ہزار ڈالر
میں خرید کی گئی۔اور پھر 92سال کی عمر میں وفات پانے والی اِس بہادر خاتون
کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے ہزاروں سوگوار جمع ہوئے ۔وہ با ہمت اور
بہادر خاتون جس نے انسانی حقوق کی برابری کیلئے علم بْلند کیا تھا۔روزا
پارکس کے جنازے میں کئی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی اور ہزاروں لوگ
ڈھاریں مار مار کر رو رہے تھے ، امریکا کا جھنڈا سر نگوں ہو کر اِس عظیم
خاتون کو سلامِ عقیدت پیش کر رہا تھا۔روزا پارکس کی میت کو وفات سے دفنانے
تک امریکی کانگریس کی ایک عمارت میں رکھا گیا، تعظیم کا یہ اعزاز سربراہانِ
مملکت یا اہم ترین شخصیات کو دیا جاتا ہے ۔روزا پارکس اِس دنیا سے رْخصت
ہوئیں توصرف اپنے ایک انکار کی بدولت اپنے سینے پر کئی تمغے سجائے ہوئے
تھیں، 1996 میں اْنہیں آزادی کے صدارتی تمغہ سے نوازا گیا جبکہ 1999 میں
اْنہیں کانگریس سے گولڈ میڈل عطا کیا گیا۔روزا کیلئے اِن سب اعزازات سے بڑھ
کر اْنکا اپنا ایک لفظ تھا اور وہ تھا (نہیں)، یہ نہیں امریکا کی تاریخ کا
سب سے طاقتور انکار تھا جِس کی ہاں میں ہاں مِلانے میں اْس کی تمام سیاہ
فام نسل نے ساتھ دیا تھا۔جبکہ ہم آج تک بطور قوم یہ ہی فیصلہ نہیں کرسکے کہ
ہم نے اپنے حکمران کس طرح کے منتخب کرنے ہیں غیروں کی ہاں میں ہاں ملانے
والے یا ملکی مفاد میں قوم کے ساتھ غیروں کی غلامی کو قبول نہ کرنے والے ،کیا
ہماری 20کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں کسی ایک فرد میں حکمرانوں کی لوٹ
مار کے خلاف جرات انکار نہیں ہے ؟ |