گناہوں کے سمندرمیں سفینہ
پارتوبہ سے
بہت خراب ہیں ،بہت زیادہ خراب ہیں حالات۔ ہرپل نیاحادثہ نیاواقعہ۔ بندہ بشر
اپنی وقعت کھوبیٹھا ہے،تکریمِ انسانیت دم توڑ گئی ہے،اعتبارختم ہوگیاہے۔ حد
ہے انسان انسان سے خوفزدہ ہے، بے کل ہے ،بے چین ہے، کوئی جائے اماں نہیں ،سائباں
نہیں، اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے۔ مفاد عزیز ہے،سب کانہیں بس
اپنا۔ نفسانفسی ہے،قیامت کا منظرہے، نجانے اورکسے کہتے ہیں قیامت!چلئے کوئی
نہ سہی قیامت ِ صغری توہرلمحہ برپا ہے ناں۔ کہیں بم برستے ہیں، کہیں انسانی
بم پھٹتے ہیں، کہیں ڈرون حملے ہوتے ہیں کہیں چھینا جھپٹی ہے، معمولی سی
چیزپر قتل وغارت گری ہے،نقل مکانی ہے،ہنستے بستے گھر اجڑرہے ہیں اورکیمپ
آبادہورہے ہیں۔ شہراجڑرہے اورشہر ِخموشاں میں بدل رہے ہیں۔ کوئی پرسانِ حال
نہیں ہے۔ اب توناگہانی زلزلوں کارخ بھی ہماری آبادیوں کی طرف ہوگیاہے، بہت
ابتر ہیں حالات۔ رونا ہے، آہیں ہیں، سسکیاں ہیں،نالے ہیں۔ کوئی نہیں ہے
اپنا،بیگانے بن گئے سب۔ کیوں ہوا ، ایسا کبھی سوچا ہم نے؟ ہم نے کہاں
ٹھوکرکھائی؟ کیاہمارے اعمال کی وجہ سے ایساہورہا ہے؟جان پربنی ہوئی ہے،اس
عذاب سے نکلنے کاکوئی راستہ بھی ہے کہ نہیں؟
سوچ لیں گھڑی دو گھڑی۔ آپ کیا سوچتے ہیں میں کیا جانوں لیکن میں ٹی وی
چینلزپربڑے بڑے دانشوروں کودیکھتا ہوں،وہ نجانے کیاکیاکہتے ہیں.. .....اس
نے یہ کردیا ،ہم نے تو یوں کیا تھا، اب ایسا کرلو، وہ ہیں ذمہ دار، فلاں نے
بیج بویا تھا.......پھر تلخ کلامی، الزامات، یہ جا وہ جا۔اس بات پر بحث
جاری ہے کہ فلاں علاقے میں ابھی امدادی کاروائیاں شروع کیوں نہیں
ہوئیں،کوئی زلزلوں کے اسباب کی طرف توجہ ہی نہیں دلارہا۔ درمیان میں کمرشل
بریک اور ان میں اچھلتی کودتی بچیاں نازو ادا۔ چھوڑیں جانے دیں آپ بہت
سمجھدارہیں۔ مجھے لگتا ہے.......لگتاکیاہے......یقین ہے ہم اجتماعی گناہوں
کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم رب کے باغی ہیں۔ ہم نے رب کی نعمتوں کاکفران کیا ہے۔
ہم غیروں پر بھروسا کرتے ہیں اور اپنے رب سے مایوس ہوگئے ہیں۔ ہم نے اپنے
رب کو چھوڑ کر دوسرے سہارے تلاش کئے،انہیں پوجا۔ رب نے ہمیشہ کرم کیا،
ہمیشہ معاف کیا۔
اللہ کے رسول ۖ نے قرب قیامت کی جو بے شمار نشانیاں بیان کی ہیں ان میں سے
ایک یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں زلزلوں کی کثرت ہوگی۔کسی زمانے میں جب کہیں
سے یہ اطلاع آتی تھی کہ فلاں جگہ زلزلہ آیا ہے اوراتنے لوگ اس کے نتیجے میں
لقمہ اجل بن گئے ہیں تودینداراورخوف خدارکھنے والے لوگ توبہ استغفار کرنے
لگتے تھے کہ اللہ کے نبی ۖ کی احادیث مبارکہ کی رو سے یہ قرب قیامت کی
نشانیوں میں سے ایک ہے مگر آج کل روزانہ ہی کہیں نہ کہیں زلزلے نمودار ہو
رہے ہیں اور ان کے نتیجے میں جانی اور مالی خسائروقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں
مگر لوگوں کے دلوں میں اس بات کا خوف جاں گزین نہیں ہوتاکہ زلزلوں کااس شدت
کے ساتھ آناقیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے بلکہ دلوں پرخوف کی جگہ
ایک بے حسی کی کیفیت طاری ہو چکی ہے اورنصیحت حاصل کرنے کی بجائے تجاہل سے
کام لیاجانے لگا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سورالزلزال میں وقوع قیامت
کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ:جب زمیں اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی
جائے گی(سور الزلزال) ۔مفسرین اس آیت سے یہ معنی لیتے ہیں کہ اس وقت زمین
کا کوئی مخصوص حصہ نہیں بلکہ پورے کا پورا کرہ ارض ہلا دیاجائے گاجس کے
نتیجے میں دنیاکاوجودختم ہوجائے گامگراس عظیم زلزلے کے واقع ہو نے سے پہلے
پیغمبراسلام ۖ کے فرمان کے مطابق زمین کے مختلف حصوں پرزلزلوں کاایک
لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
یوں توبہت سی قدرتی آفات کے ظہورپذیر ہونے سے پہلے پیشگی اطلا ع فراہم
ہوجاتی ہےاوراحتیاطی تدابیراختیار کرنے کے باعث کافی بڑے جانی و مالی
نقصانات سے بچا جاسکتا ہے.مثلا سمندر میں بننے والے خطرناک طوفانوں،ان کی
شدت اوران کے زمین سے ٹکرانے کی مدت کاتعین سٹلائیٹ کے ذریعے کیاجاسکتا ہے
اوراس سے بچاؤکی تدابیربروقت اختیارکی جا سکتی ہیں مگر زلزلے کی آمدنہایت
خاموشی سے ہوتی ہے اورپتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اوربربادی
کی ایک داستان رقم کرکے جا چکا ہوتا ہے۔
ہمارے بابے کہتے ہیں:انسان کی گھٹی میں پڑاہواہے گناہ،نافرمانی،سرکشی
اورنجانے کیاکیا۔ گناہ ہوجائے تورب کے سامنے ندامت سے سرکوجھکاؤ، آنسو
بہاؤ،وہ معاف کرتارہے گا،اپنی نعمتیں برساتارہے گااورہم نے کیاکیا!سرکشی کی
اوراس پر اِترائے،گناہ کئے اوران پرفخرکیا، بغاوت کی اور اس پر اکڑے۔ کون
ساگناہ ہے جوہم نے نہیں کیا!ہم پرسے رب کاحفاظتی حصاراٹھ گیا ہے۔
رحمت یہ چاہتی ہے کہ اپنی زباں سے
کہہ دے گناہ گارکہ تقصیرہوگئی
بس ایک ہی درہے،بس ایک ہی ذات ِباری ہے جو ہمیں بچاسکتی ہے ......اللہ
جی......بس وہی اور کوئی نہیں کوئی بھی نہیں۔ ہم تو سوچتے بھی نہیں ہیں۔
گھڑی دو گھڑی سوچئے،اجتماعی استغفارکاوقت ہے لیکن شیطانی قوتوں کے سحرنے
جکڑرکھاہے۔دنیاوی فائدے کھوجانے کا خوف دل میں اس قدر جاگزیں ہے کہ خالق
کاخوف جگہ نہ ہونے کی بناء پرواپس لوٹ جاتاہے۔ حدیث کامفہوم ہے کہ اس دل
جیسے لوتھڑے میں صرف ایک خوف ہی سما سکتاہے،اگر دنیا کاخوف ہوگاتورب کاخوف
دبے پاؤں چپکے سے رخصت ہو جاتاہے اورزندگی دنیاکے خوف میں رسواکردیتی ہے
اوراگررب کاخوف موجودہوتوساری دنیا خوفزدہ اورلرزاں رہتی ہے۔٠م نے اپنے رب
سے وعدہ کیاتھا کہ ہم اس خطہ ارضی پرتیراحکم یعنی قرآن نافذکریں گے لیکن ہم
نے اس وعدے سے منہ موڑ لیا۔اب بھی دن میں درجنوں مرتبہ رب سے عہد کرتے ہیں
کہ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اورتجھ سے ہی استعانت چاہتے ہیں لیکن
چندلمحوں میں فراموش کردیتے ہیں۔ فیصلہ توہمیں کرنا ہے۔لاہوری بابااقبال
توبہت پہلے سمجھاگئے تھے!
وہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتاہے
ہزارسجدوں سے دیتاہے آدمی کونجات
بات تومجھے بہت تفصیل سے کرنی تھی پھرسہی۔ آپ کے پاس بھی تووقت نہیں رہاناں
البتہ میں نے کہیں پڑھاتھاوہ سناتاہوں شائدبات سمجھ میں آجائے:ایک مرتبہ
ہمارے ایک استاد نے ہم میں سے ہرایک کوایک تھیلا اورآلوؤں کی ایک بوری ساتھ
لانے کو کہا تھا۔ جب ہم تھیلا اوربوری لے آئے تو استاد نے کہا کہ ہم ہراس
فردکے نام پر جسے ہم نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیاایک ایک آلوچن لیں
اوراس پراس فردکانام اورتاریخ لکھ کرتھیلے میں ڈالتے جائیں۔ ہم نے ایسا ہی
کیا۔ ہم سب کے تھیلے خاصے وزنی ہوگئے۔ پھر ہم سے کہا گیا کہ ہم اس تھیلے کو
ایک ہفتے تک ساتھ ساتھ لیے پھریں۔ رات کو سوتے وقت اس تھیلے کو اپنے بستر
کے ساتھ رکھیں جب دفتر میں ہوں تو اپنی میز کے ساتھ رکھیں۔ ڈرائیونگ کرتے
وقت اپنی برابر والی سیٹ پر رکھیں بس اسے اپنے ساتھ رکھیں۔ ہمیں اس تھیلے
کو ساتھ ساتھ رکھنا ایک مصیبت بن گیا اس لیے کہ ہر وقت یہ توجہ دینی پڑتی
تھی کہ کہیں بھول نہ جائیں۔ ہمیں لوگوں سے ملنے جانا ہوتا جہاں بے حد
شرمندگی ہوتی پھر سوالات کاسامناالگ۔ ہرجگہ خفت کاسامناکرناپڑتا۔ وہ
تھیلاجان کاعذاب بن گیاتھا۔ قدرتی طورپرآلووں کی حالت خراب ہونے لگی وہ
پلپلے اوربدبو دارہونے لگے،لوگ بھی ہم سے دور بھاگنے لگے تھے۔
پھر ایک دن ہم پرآشکارہواکہ روحانی طورپرہم اپنے آپ پرکیاوزن لادے پھر رہے
ہیں۔ یہ اس بات کاایک اثرانگیزاستعارہ تھا کہ ہم اپنی تکلیف اوراپنی منفی
سوچ کی کیاقیمت چکارہے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ معاف کردینادوسرے فرد کے لیے
تحفہ ہے لیکن معاف کردینا ہے بہت مشکل کام۔ ہم معاف کرنا بھول گئے ہیں۔ ہم
دوسروں کوتومعاف کرتے نہیں ہیں اوراپنے رب سے معافی کے طلبگار ہیں۔ کیسے
ہیں ہم!اپنے اپنے بدبودار تھیلے اٹھائے ہوئے ہلکان لوگ۔
خوش رہیں آپ سدا آپ کے چاہنے والے سلامت رہیں۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گابس
نام رہے گا میرے رب کا۔
دل کی دھڑکن،خون کی گردش دھوکاہے
تن من ساراخاک نگرہے،جانوتو
ان دیکھی اک ڈوری کاسب کھیل ہے
یہ دنیابھی اک پتلی گھرہے،جانوتو
جی لینابھی فن تھا،اب توعزت سے
مر سکنا بھی ایک ہنر ہے، جانو تو |