رشوت انسانی معاشرے کیلئے ناسور
(Ata Ur Rehman Noori, India)
رشوت کے لغوی معنی ڈول کی رسی ہے
۔جیسے رسی اور ڈول جوڑکا کام دیتے ہیں ویسے ہی رشوت، دینے والے اور لینے
والے کے درمیان جوڑ کا کام انجام دیتی ہے۔ رشوت کی دو اصطلاحی تعریف ہے۔
( ۱)رشوت وہ ہے جو حق کو باطل اور باطل کو حق یعنی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو
سچ ثابت کرنے کے لئے دی جاتی ہے ۔
(۲)رشوت وہ چیز ہے جو آدمی کسی حاکم یا غیر حاکم کو اس مقصد کے تحت دیتا ہے
کہ فیصلہ اس کے حق میں ہو یا اس کے من پسند منصب پر اسے فا ئز کیا جائے ۔
رشوت انسانی معاشرے کے لئے ناسور اور مہلک مرض ہے ۔بلکہ مہلک مرض سے زیا دہ
خطرناک ہے ۔کیونکہ مہلک مرض سے انسان جان گنوا دیتا ہے جبکہ رشوت انسان کو
لقمہ جہنم بنا دیتی ہے ۔ رشوت عدل و انصاف کا گلا گھونٹ کر حق کا خا تمہ کر
دیتی ہے۔جس کے نتیجے میں وہ معاشرہ جو امن و سکون کا گہوارہ بننے والا
تھا،اختلاف و افتراق اور انتشار و خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔رشوت کی وجہ
سے اخوت و محبت ،ہمدردی و بھائی چارگی ،اصول و ضوابط اور قوانین کا خاتمہ
اور بغض و عناد ،نفرت ،عداوت و شقاوت کا شعلہ بھڑک اٹھتا ہے ۔رشوت سے امن
وشانتی ،صلح و آتشی کے ساتھ امانت کا خرمن ہستی جل کر تباہ و برباد ہو جاتا
ہے۔معاملات میں دھوکہ دہی ،جھوٹی گواہی ،ظلم و تشدد اس طرح کے کئی افعال
شنیعہ کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہے اور حق داورں کی حق تلفی ہوتی ہے یہ
سب ایسے مبغوض اور بدترین قسم کے جرائم ہیں جن سے اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی اور
مسلمانوں میں بغض و عداوت اورعام فتنوں کا سبب بنتے ہیں ۔
رشوت سے اجتماعی نقصانات کے ساتھ ہی اخلاقی ودینی نقصانات بھی ہوتے ہیں
انسانی اخلاق کو تباہ وبرباد کرنے میں رشوت کا اہم رول رہا ہے یہی وجہ ہے
کہ رشوت خور وزراء، حکام اور دیگر سرکاری ملازمین وغیرہ کے اخلاق نہایت ہی
خراب ہو تے ہیں ان میں ا چھے برے کی تمیز حق وباطل میں امتیاز ،حلال وحرام
،جائز ونا جائز کا فرق مٹ جاتا ہے۔ رشوت کی یہ فطرت انسان کو خواہشات
نفسانی اورحرص وہوس کا پجاری بنا دیتی ہے ۔برادران اسلام کو چاہئے کہ اپنے
پا کیزہ معاشرے کو اس نجاست سے پاک کرنے کی کوشش کریں اس لئے کہ شاہکار دست
قدرت مصطفی جان رحمت ﷺ نے فرمایا کہ جب کو ئی برائی دیکھیں اور اسے نہ
مٹائیں تو ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے۔ اور ویسے
بھی ہر اس چیز کے لئے رقم خرچ کرنا جو مخالف شریعت ہو ایک بد ترین فعل ہے
کیونکہ یہ روپیہ ایسی راہ میں صرف کیا جا رہا ہے جس کی طرف رخ کر نے سے بھی
اﷲ اوراس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔کیو نکہ اس کی وجہ سے خدائی قانون کی
پامالی ہو تی ہے۔ حق کی فضاء زہر آلود ہو کر باطل کو فروغ ملتا ہے اور اس
کے مرتکب کا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے اور پھر ایسا انسان رفتہ رفتہ دین
الٰہی سے بیزار اور جھوٹی اور بناوٹی زندگی کی رعنائیوں اور رنگ رلیوں میں
غر ق ہو کر کفر سے قریب تر ہوجاتا ہے ۔ |
|