پورا ہفتہ اسکول کالج اور جاب پر
جانے والوں کو ایک ہی دن ملتا تھا چھٹی کا جس دن سب گھر والے ساتھ ہوتےتھے
اور پھر جمعہ کی نماز کی تیاری پہلے مرد حضرات نہا دھو کر تیار ہوتے کے
انہیں خطبہ سے پہلے مسجد میں پنچنا ہوتا تھا ۔ اس وقت میں اسکول میں تھی
اور چھٹی ہونے کی وجہ سے امی مجھ سے تھوڑا بہت کام لے لیتیں جیسے اوپر چھت
پر تار پر کپڑے ڈالنے کا کام اور یہ کام مجھے پسند بھی بہت تھا کیونکہ اس
وقت محلے کی مساجد میں سے خطبہ کے بعد وعظ کی آواز جب آتی تو فضا میں ایک
عجیب سا سماں بندھ جاتا تھا مولانا صاحب کی بیان کی ہوئیں بہت ساری احادیث
مجھے زبانی یاد ہوگئیں تھیں۔ ہفتہ بھر بعد لوگ جمعہ پڑھتے ہوئے بہت ساری
باتیں سنتے اور اس پر توجہ کرتے تو بہت سی برائیاں ازخود ختم ہوجاتیں اور
معاشرے کی تربیت بھی ہوجاتی نوجوان نسل کے بگڑے ہوئے بچے اپنی تھوڑی بہت
اصلاح کرلیتے۔ اور پاکستان کی معشیت بھی ٹھیک ٹھاک جارہی تھی ڈالر کے
مقابلے میں پیسے کی قیمت بہت زیادہ نہ سہی لیکن تھوڑی بہت مستحکم تھی دنیا
میں عزت تھی۔ نہ ملک میں آٹے کا بحران ہوتا تھا نہ چینی کا اور نہ ہی آٹا
لینے کے لیئے لائن مین لگنا پڑتا نہ سرعام عزتیں نیلام ہوتیں فحاشی کا کلچر
عام نہ تھا جمعے کے دن سکون سے لوگ مساجد سے نماز پڑھ کر اپنے گھروں مین
آتے اور سکون سے کھانا کھاتے تھے آرام کرتے اور خوش باش زندگی گذار رہے
تھے جیسے کے اللہ نے بھی قران میں کہا ہے کہ
اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکر الہیٰ کی طرف
لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو تمہارے لیے یہی بات بہتر ہے اگر تم علم
رکھتے ہوپس جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں چلو پھرو اور اللہ کا فضل تلاش
کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤاور جب وہ لوگ تجارت یاتماشہ
دیکھتے ہیں تو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں کہہ دو
جو اللہ کے پاس ہے وہ تماشا اور تجارت سے کہیں بہتر ہے اور اللہ بہتر روزی
دینے والا ہے-
پورے ہفتہ میں ایک دن چھٹی کا ملنا چاہیئے اگر وہ دن جمعہ کا ہی ہو تو کتنا
مزا آئے سکون سے رب کے آگئے جھکنے اس سے بات کرنے اس کو سننے کا ایک اپنا
مزا ہے۔لیکن اللہ کی آیتوں مین سے اپنے مطلب کے معنی اخذ کرکے اسے دیناوی
فائدے کے حصول کے لیئے استعمال کرنے والے شاید یہ بات بھول گئے ان آیات کے
آخرمیں اللہ نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ
اللہ بہتر روزی دینے والا ہے
جمعہ کا دن چھوڑ کر اتوار کو چھٹی دینے والوں سے کوئی کیوں نہیں پوچھتا کہ
معشیت کدھر اور کہاں مستحکم ہوئی پیسے کے مقابلے میں ڈالر سو کے ہندسے کو
بھی عبور کرگیا سکون سے جامع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے والوں کو سکون اب
اتوار کے آرام میں بھی نہیں ملتا فحاشی اور بے حیائی کا وہ کلچر اس معاشرے
میں عام ہوگیا ہے جس سے اب مغرب بھی پریشان ہے-
آج جب چھت ہر جاتی ہوں تو کسی مسجد سے خطبہ اور وعظ کی آواز نہیں آتی
بلکہ ان ٹھیلوں والوں کی آواز آتی ہے جو مساجد کے باہر کھڑے ہوکر اپنا
مال بیچ رہے ہوتے ہیں۔ انہیں نہ نماز کی فکر ہوتی ہے نہ نمازیوں کی انہیں
صرف اپنا مال بیچنا ہوتا ہے- |