زلزلے کیوں آتے ہیں
(mohsin shaikh, hyderabad sindh)
|
میں لکھنے کے لیے موضوع سوچ رہا
تھا کہ کس موضوع پر لکھوں لکھنا خاصہ مشکل ہوتا ہے۔ اور مجھے لکھنا آتا
نہیں بس ٹوٹے پھوٹے الفاظوں میں لکھا لیتا ہوں۔ پیر کی دوپہر 3 بجے کے بعد
حسب معمول اپنا لپ ٹاپ آن کرنے ہی لگا تھا کہ امی نے بتایا کہ ملک میں
زلزلہ آیا ہے۔ میں سندھ کا رہنے والا ہوں۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے سندھ
محفوظ رہا۔ جب میڈیا اور سوشل میڈیا کو دیکھا تو دل تڑپ کے رہے گیا۔ آج سے
دس سال قبل بھی ایسی ہی قیامت آکر گزر گئی تھی۔ مگر ہم بہت جلد بھول جانے
والے انسان ہیں۔ خلیفہ دوم حضرت عمر مدینے کی گلیوں میں گشت پر تھے کہ زمین
ہلی آپ نے اپنی چھڑی زمین پر ماری اور کہا کہ اے زمین تو کیوں ہلتی ہے کیوں
لرزتی ہے۔ کیا عمر کے دور میں انصاف نہیں ہورہا۔ کیا زمین والوں پر رحم
نہیں ہورہا۔ زمین فورا رک گئی۔ زمین نے کانپنا بند کردیا۔ حضرت عمر کہتے
تھے کہ دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا سوگیا تو اسکے ذمہ دار عمر
ہونگے۔ آج تک وہاں زلزلہ نہیں آیا۔ مادر وطن میں پہلے سے زیادہ بڑا زلزلہ
آیا۔ جتنا ظلم بربریت نا انصافی اس زمین پر ہوتی ہے۔ یہ قیامت کی علامت ہے۔
زلزلے کیوں آتے ہیں۔ جب انصاف ناپید ہوجائے۔ ہر طرف ظلم و زیادتی ہو۔ ناچ
گانے دلوں کا سکون بن جائے۔ رشوت خوری ضرورت بن جائے۔ سرکاری ملازم کام نہ
کرنے کی تنخواہ لے اور کام کرنے کی رشوت لے۔ جب اللہ کا دیا ہوا رزق کھا کر
ناشکری اور نا فرمانی کی جائے۔ جب دین حق و قرآن ہمارے جنازوں اور پیدائش
تک محدود ہوجائے۔ جب سود زنا کاری اور بدکاری معمول بن جائے۔ دھوکہ دہی قتل
و غارت عام ہوجائے۔ اللہ کی رحمت مہمانوں کو بوجھ سمجھا جائے۔ شراب و جوئے
کی محفلیں سجنے لگے۔ جب والدین اولاد میاں بیوی استاد اور رشتے دار اپنے
حقوق ادا نہ کریں۔ حوا کی بیٹی کو کاری قرار دے کر قتل کیا جائے۔ بہن بھائی
نکاح کرنے لگ جائے۔ گول روٹی نہ بنانے پر باپ بیٹی کو اور بھائی بہن کو قتل
کردے۔ پہلے کی قومیں بھی انہی گناہوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئی تھی۔ ذرا
غور کریں۔ سوچیں
2005 کے زلزلہ متاثرین کے زخم بھرنے بھی نا پائے تھے۔ کہ 26 اکتوبر کے
زلزلے نے انکے زخم پہلے سے بھی زیادہ ہرے کردیے۔ اس زمین پر عوام کو نہ
جینے دیا جاتا ہے نہ مرنے دیا جاتا ہے۔ دس سال قبل زلزلے کے دوران آنے والی
بیرونی اور اندرونی امداد آئی تھی وہ کہاں غائب ہوگئی۔ اب تک زلزلہ زدگان
ضروریات زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بے چارگی بے کسی اور بے بسی
کی زندگی گزرنے پر مجبور ہیں۔ انکے لیے زندگی شرمندگی اور درندگی بن گئی
ہیں۔ 8 اکتوبر 2005 کے زلزلہ زدگان کے لیے آنے والی بیرونی امداد سے
متاثرین کو فی گھر دینے کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوئے۔
افسوس 2005 کے متاثرین آج تک کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اب
26 اکتوبر کے زلزلہ زدگان کے لیے جو اندرونی اور بیرونی امداد آرہی ہیں۔
ایک بار پھر امداد کے نام پر کرپشن ہوگی۔ 8 اکتوبر کے زلزلہ متاثرین نے
اپنی مدد آّپ کے تحت جو اپنے لیے ٹوٹے پھوٹے آشیانے بنائے تھے۔ افسوس اب وہ
بھی 26 اکتوبر کے زلزلے میں ڈھے گئے۔ یہاں زمین کانپ جاتی ہے۔ لیکن لوگوں
کے ضمیر نہیں کانپتے۔
زلزلہ آنے کے بعد سب سے پہلے مخلوق خدا کی خدمت کا درد ہمارے عظیم محبوب
بہادر سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو ہوا جنرل راحیل شریف نے فورا فوجی
جوانوں افسرانوں کو حکم جاری کردیا کہ جو جس مقام پر ڈیوٹی پر ہیں۔ وہ فوری
طور پر ہمارے حکم کا انتظار کیے بغیر متاثرین کی مدد کو پہنچے۔ کسی قسم کی
کوئی کسر نہ چھوڑے۔ پھر ہماری آنکھوں نے میڈیا پر زخمیوں کو فوجی جوانوں کے
ہاتھوں میں دیکھا۔ جنرل راحیل شریف نے واضح طور پر کہا کہ مسلح افواج کو
حکومت کی طرف سے کسی بھی مدد کی ضرورت نہیں۔ جس فوج کے سپہ سالار عظیم ہوں۔
تو اس کا ایک ایک سپاہی تو عظیم ہی ہوگا۔ بہادر سپہ سالار فوری طور پر
پشاور پہنچے۔ مگر عمران خان نہیں پہنچے۔ حالانکہ انکی حکومت خیبر پختونخواہ
میں ہے۔ جنرل راحیل شریف کی اولین خواہش یہی ہے کہ عوام کو انصاف ملے۔
اکتوبر زلزلوں کے حوالے سے پاکستان میں خوف کی علامت ہی رہا ہے۔ پاکستان کی
تاریخ میں چار بڑے زلزلے اکتوبر میں ہی آچکے ہیں۔ 10 اکتوبر 1956ء 19
اکتوبر 1956ء 8 اکتوبر 2005ء دس سال قبل 8 اکتوبر کو آنے والے زلزلے میں
ایک لاکھ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ آٹھ اکتوبر 2005 کو شمالی علاقہ جات و
کشمیر میں آنے والے زلزلے نے تباہی کے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ اور اب 26
اکتوبر 2015ء کے آنے والے زلزلے کو بھی لوگوں نے ملکی تاریخ کا بڑا زلزلہ
قرار دیا ہے۔ کہنے والوں نے خود اپنے منہ سے کہا کہ اتنی شدت کا زلزلہ پہلی
بار اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بی بی سی کے تجزیہ کار کے زلزلے کا آنکھوں دیکھا
حال آپ کے نظر۔ بس قیامت کا ایک منظر تھا۔ جو کچھ کتابوں میں پڑھا اور سنا
تھا۔ اسکی ایک ہلکی سی جھلک ضرور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ میری گاڑی
ہچکولے کھا رہی تھی۔ جیسے ہی زلزلہ شروع ہوا میں فورا اپنے کمرے سے نکل کر
چھت کی پہلی منزل پر گیا سوچا کہ تھوڑی دیر کے بعد جھٹکے رک جائيں گے۔
لیکن آہستہ آہستہ جھٹکوں کی شدت تیز ہونے لگی۔ پھر کیا تھا میں نے پلک
جھپکتے اپنے بچے کو اٹھا کر باہر سڑک پر پہنچ گیا۔ میری بیوی مجھ سے آگے
بھاگ رہی تھی۔ گلی میں ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ لوگوں کی زبانوں پر کلمہ
طیبہ کا ورد تھا۔ لوگوں کے گھروں سے نکلنے کا شور و غل بپا تھا۔ ہمارے گھر
کے کونے والی عمارت پر موبائل فون کا لمبا ٹاور نصب ہے۔ جو زلزلے کے دوران
جھولا جھولتا ہوا لگ رہا تھا۔ لوہے کے بنے چھوٹے تاروں کے شور سے ایسا لگ
رہا تھا۔ جیسے یہ ٹاور ابھی گرنے والا ہے۔ زمین ایسی سرک رہی تھی۔ جیسے
کوئی کسی کو ہاتھ سے پکڑ کر زور سے جھٹکے دے رہا ہوں۔ یہ سلسلہ تین سے چار
منٹ تک جاری رہا۔ چند لمحوں میں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ خدانخواستہ ہمارے
ارد گرد تمام عمارتیں بس گرنے والی ہے-
حالیہ زلزلوں میں سب سے زیادہ شانگلا دیر اور سوات متاثر ہوئے ہیں۔ جابحق
ہونے والوں کی تعداد 350 سے سے تجاوز کرگی ہیں۔ اور موسم سرما میں متاثرین
کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پاک فوج کے دستے اور سول ادارے زلزلہ
متاثرین کی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم دورہ برطانیہ سے
فوری وطن پہنچے۔ اور انہوں نے خود تمام معاملات کی نگرانی کرنے کا اعلان
کیا۔ ملک میں ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت
ہے۔ مصیبت ٹوٹ پڑنے پر ہم سوچ میں پڑھ جاتے ہیں کہ ہمیں اب کیا کرنا ہے۔
ایک ہماری مسلح افواج ہے جو سوچے بنا متاثرین کی مدد کو فوری پہنچتی ہیں۔
آج ہم نے قرض لینا اپنا معمول بنا لیا ہے۔ امدادی رقم کا ایک حصہ بھی دیانت
داری سے خرچ کیا جائے تو ہمارا معاشرہ جنت بن جائيں۔ مگر افسوس ہمارے
حکمران ایسا کرنا تو بہت دور کی بات سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ہمارے
حکمرانوں کے پاس دل و دماغ اور درد دل نہیں ہے۔ عمران خان حق کی بات تو
کرتے ہیں مگر افسوس کہ وہ بھی انہی حکمرانوں میں بیٹھتے ہیں۔ |
|