فکر اقبال اور آج کا پاکستان
(Dr Abdul Karim, Muzzafarabad)
علامہ اقبال اپنی بیاض میں لکھتے
ہیں کہ ’فلسفہ حق کی منطق ہے اور تاریخ طاقت کی منطق۔لیکن موخر منطق کے
احکام و اصول ، مقدم کے احکام و اصول سے زیادہ معقول ہوتے ہیں‘ ۔اس کو بس
منظرمیں رکھ کر بات کروں گا۔حسن و کمال کا معیار توازن ہے اور وہی چیز ہمیں
اچھی لگتی ہے جس میں توازن ہو۔اقبال شاعر ہے ، فلسفی ہے ، فلسفی شاعر ہے ،
شاعر فلسفی ہے ، مومن فلسفی ہے۔ بیاض میں ہی ایک اور جگہ تحریر کرتے ہیں کہ
’فطرت قطعی طور پر فیصلہ نہ کر سکی کہ افلاطون کو شاعر بنائے یا
فلسفی۔معلوم ہوتا ہے کہ گوئٹے کے بارے میں بھی وہ اسی قسم کے تذبذب میں
مبتلا رہی ہوگی‘ ۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے اس پر حاشیے میں لکھا کہ
’یہی بات اقبال کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔لیکن ان تینوں شخصیات کی
فطرت میں شاعرانہ اور فلسفیانہ عناصر کا تناسب یکساں نہیں تھا۔افلاطون شاعر
فلسفی تھا تو گوئٹے اور اقبال فلسفی شاعر‘ ۔اقبال بنیادی طور پر شاعر ہے
اور اس کا سارا فکر و فلسفہ اس کی شاعری میں پیوست ہے، تاہم وہ حکیم الامت
بھی ہے اور مصلح بھی۔اس نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک قوم کی تشکیل کی۔ تفکر
اس کی فطرت ثانیہ تھا۔ اقبال نے شاعری کی ابتدا پہلے کی اور ان کے کلام میں
فلسفیانہ رنگ بعد میں آیا۔آپ اقبال کے فلسفوں سے اختلاف کرسکتے ہیں ، اس کی
فکر اور شاعرانہ عظمت سے انکار ممکن نہیں۔لہٰذا وہ فلسفی شاعر ہے ۔
اقبال کی فکر اور فلسفے کو سمجھنے کے لیے کافی تگ و دو کی ضرورت ہے۔اس کی
وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شاعر اور مفکر اپنی فکر کو مربوط انداز میں نہیں پیش
کرتا۔پھر اقبال نے تو تین زبانوں کو استعمال کیا: اردو ، فارسی اور
انگریزی۔اقبال کی فکر کے موتی چننے پڑھیں گے۔اگر اس کی فکر کو ٹکڑے ٹکڑے کر
کے دیکھا گیا ، جیسا کہ مولوی اور مسٹر کررہے ہیں تو ہر ایک کو اپنے مطلب
کی چیز شاید مل جائے لیکن وہ کسی ایک کے ہی کام کی ہوگی نہ کہ قوم کے کام
کی۔اقبال نے اپنے افکار واصطلاحات کو نظم و نثر میں اتنا پھیلا دیا ہے کہ
’لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں‘۔ہرقطرہ ساز ان البحر کی صدائیں
بلند کرتا ہے۔عرض یہ کرنا ہے کہ اقبال پر بات کرنے سے پہلے اس کے مجموعی
جہاں فکر کو دیکھ لیں ، پڑھ لیں ، اس کا مطالعہ کر لیں۔وہ کن کہکشاہوں کی
سیر کرتا ہے۔اسے انسانیت کا کون سا نمونہ زیادہ پسند ہے۔اس کا فلسفہ اور
فکر اس کی کون کون سی نظموں اور خطبات میں جھلکتا ہے۔اس کی فکر کے اساسی
اجزاء کیا ہیں۔بات صرف شاعری سے نہیں بنے گی۔اس کے لیے اردو اور انگریزی
نثر کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا۔خطوط کا ایک انبار ہے اور پھر ان سب کے
مطالعے کے بعد فیصلہ کریں کہ وہ ہندوستانی قوم پرست تھا کہ ملی جذبے سے
سرشار، سیکولر تھا یا کہ ایک الگ اسلامی ریاست کا داعی۔سوشلزم کا حامی تھا
کہ پین اسلامسٹ۔
اقبال نے شاعری میں قومیت سے اپنا سفر شروع کیا ۔انھوں نے ’سارے جہاں سے
اچھا ہندوستاں ہمارا‘ اور ’اے ہمالہ:اے فصیل کشور ہندوستان‘ کے نغمے الاپے
مگر بہت جلد مسلم قومیت کی طرف آگئے۔ اسلام کو انھوں نے قوم پرستی کے اثرات
سے الگ کرکے جہاں جہاں بھی پیش کیا ہے ، بلاشبہ اس کے ایک جامع نظام زندگی
ہونے کا تصور دلا دیا ہے۔ ہمارے ملک کے بڑے مسائل میں سے تعلیم بھی
ہے۔اقبال نے تعلیم پر نظم و نثر میں جو افکار پیش کیے وہ ہنوز تشنہ ہیں ۔ان
میں رہنما خطوط موجود ہیں لیکن اگر فکر اقبل کی ضرورت ہو تو۔علامہ اقبال
جدید اور قدیم نظام ہائے تعلیم کے ناقد بھی رہے اور انھوں نے ان پر کھل کر
تنقید بھی کی۔ انھوں نے قدیم اور جدید نظام تعلیم کے تضاد کو بھی واضح کیا
ہے۔اسی میں انھوں نے کائنات اور انسان کے افکار کو بھی سمو دیا ہے۔ان کی یہ
فکر ان اشعار میں واضح ہے ، اگرچہ انھوں نے اسے نثر میں بھی مربوط انداز
میں پیش کیا۔
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زناری ء برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اقبال مغربی فلسفے کی گہرائیوں میں جب ڈوبنے لگتے ہیں تو کہیں تہہ سے آواز
آتی ہے کہ تم مسلمان ہو ، ایک دین اور ایک کتاب ہدایت رکھتے ہو،ایک قوم کے
فرد ہو۔ اور اقبال میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس کی فکر مسلمان تھی اور
یہی تو ان سب کے لیے عذاب ہے جو ادب میں مذہب کو لانے کے قائل نہیں۔جو بات
ہی دہریت سے شروع کرتے ہیں اور جن کی بات عورت کے تذکروں کے بغیر مکمل ہی
نہیں ہوتی اور ادھر حالت یہ ہے کہ اقبال ہند کے شاعروں ، صورت گروں اور
افسانہ نویسوں سے نالاں ہے کہ ان بیچاروں کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔اقبال
کو شروع ہی سے اس بات کا بھی شعور و ادراک تھا کہ ’شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ
بینائے قوم‘ اور یہ ۱۹۰۲ء کی بات ہے۔ان کی شاعری ہی نہیں ، نثر میں بھی اس
کے حوالے ملتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ شاعر ہی کسی قوم کو کھڑا کرسکتا ہے
کیونکہ وہ یورپ کی شاعری سے واقف تھے جہاں لارڈ بائرن کی شاعری نے اپنی قوم
کو یونانیوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا تھا۔اقبال اپنی
بیاض میں ہی تحریر کرتے ہیں کہ ’قومیں شعراء کے دلوں میں پیدا ہوتی ہیں اور
سیاستدانوں کے ہاتھوں پھلتی پھولتی اور مرتی ہیں‘ ۷۔ اس طرح انھوں نے جس
قوم کی تشکیل کی، اسے ایک مدبر سیاستدان قائد اعظم کے سپرد کیا۔
شاعر فردا علامہ اقبال نے مسائل کا حل جمہوریت میں تلاش کیا اور اس کے لیے
ایک اسمبلی کو لازمی قرار دیا۔لیکن اقتدار کی غلام گردشوں میں اقبال کی
جمہوریت اور پاکستان کے آمروں کے درمیان بالادستی کی جنگ جاری ہے۔سات
دھائیاں گزرنے کے باوجود یہ رک نہیں رہی۔اب ذرا اقبال کی بیاض کے اس شذرے
کی طرف دھیان کیجیے کہ ’فلسفہ حق کی منطق ہے اور تاریخ طاقت کی منطق۔لیکن
موخر منطق کے احکام و اصول ، مقدم کے احکام و اصول سے زیادہ معقول ہوتے
ہیں‘۔تو سوال یہ ہے کہ اس ملک میں اب طاقت کی منطق ہی منطق ہے۔جواب آسان ہے
کہ ’جی ہاں‘ ذرا اس کے خلاف جا کر دیکھ لیں۔اس کا ساتھ دیں ، آپ اور آپ کی
اولادیں بھی سکون اور آرام میں رہیں گے۔
علامہ اقبال عورت اور عورت کی تعلیم کے حوالے سے نظم و نثر میں دو طرح کے
افکار پیش کرتے نظر آتے ہیں اور یہ تناقض آج تک ہمارے معاشرے میں موجود
ہے۔اقبال اپنے انگریزی خطبات میں عورت کے حقوق کے حوالے سے اور طرح کا موقف
پیش کرتے ہیں اور وہ موقف جدید عورت کو پسند ہے جبکہ اپنی شاعری اور خاص
طور پر ’ضرب کلیم‘ میں جس عورت کا تصور ابھرتا ہے وہ روایتی عورت ہے۔تاہم
عورت کے بارے میں ان کے خیالات قدامت پرستانہ زیادہ ہیں جیسے بیاض میں
لکھتے ہیں کہ ’ایسے تمام مضامین جن میں عورت کو نسوانیت اور دین سے محروم
کردینے کا میلان پایا جائے ، احتیاط کے ساتھ تعلیم نسواں سے خارج کردیے
جائیں‘ ۔اب ذرا ’ضرب کلیم‘ کے اشعار دیکھیں
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند
نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
علامہ اقبال آزادی نسواں کی تحریکوں کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔اس لیے کہ
یہ تحریکیں آخرکار مسلمان دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور ایسا ہی ہوا
ہے۔آج کا پاکستان دین بیزار مغرب پرست لیڈیوں کے ہاتھوں یرغمال اور بے بس
ہے۔وہ ضرب کلیم میں اس پر چوٹ یوں کرتے ہیں کہ
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
شذرات فکر میں ہی تحریر کرتے ہیں کہ ’معاشرتی اصلاح کے نوجوان مبلغ یہ
سمجھتے ہیں کہ مغربی تعلیم کے چند جرعے مسلم خواتین کے تن مردہ میں نئی جان
ڈال دیں گے اور وہ اپنی ردا ئے کہنہ کو پارہ پارہ کر دے گی۔شاید یہ بات
درست ہو،لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ اپنے آپ کو برہنہ پاکر اسے ایک مرتبہ پھر
اپنا جسم ان نوجوان مبلغین کی نگاہوں سے چھپانا پڑے گا‘ ۔علامہ اقبال نے
قومیت و وطنیت کے مغربی تصور پر ضرب لگائی۔ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ
Nationalism is an infantile disease, measles of mankind. تو اقبال نے بھی
نعرۂ مستانہ لگایا کہ
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
اقبال کا یہ تصور یورپ سے واپسی کا ہے اس سے پہلے وہ اس زلف گرہ گیر کے
اسیر تھے ۔اس بات کی وضاحت وہ ایک بار پھر اپنی بیاض میں کرتے نظر آتے ہیں
کہ ’اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔اسلام
کسی صورت میں بھی وطنیت کے بت کو گوارا نہیں کر سکتا‘ ۔اقبال نے مذہب و
سیاست کی تفریق پر گرفت کی۔انھوں نے اسی لیے ایک علیحدہ اسلامی ریاست پر
زور دیا جہاں اسلام کے اصولوں کو آزادانہ پنپنے کا موقع مل سکے۔ان کا یہ بے
لاگ تبصرہ یورپ کی اس عام روش پر ہے جو مذہب و سیاست کے معاملے میں وہاں
اختیار کی گئی ہے۔
نظام پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
علامہ اقبال جب لیکچرز کے سلسلہ میں مدراس گئے تو ۷جنوری ۱۹۲۹ء کو مدراس کے
ایک اخبار ’سوراجیہ‘ کے نمائندے نے آپ سے مذہب اور سیاست کے متعلق سوال کیا
تو آپ کا جواب تھا کہ ’امر واقعہ یہ ہے کہ میں بحیثیت ایک ہندوستانی کے
مذہب کو سوراج پر مقدم خیال کرتا ہوں۔ذاتی طور پر مجھے ایسے سوراج سے کوئی
واسطہ نہ ہوگا جو مذہب سے بے نیاز ہو۔یورپ میں تعلیم کا خالص دنیوی طریق
بڑے تباہی آمیز نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوا ہے۔ہمارے سامنے یہ مسئلہ درپیش
ہے کہ روحانی اور مادی امود کو کس طرح یکجا کیا جائے‘ ۔ایک نظر پاکستان کے
منظر نامے پر:سیاسی ، مذہبی ، اخلاقی ، فکری ، سماجی اور تعلیمی
بحران۔بھنور ہی بھنور۔ اﷲ اور رسول ؐ کا نام اب فیشن کے طور پر لیا جاتا ہے
اور یہ ہمارے حلق سے نیچے ہی نہیں اترتا۔اقبال کا نام تو منبر و محراب سے
لے کر اسمبلی تک سب جپ رہے ہیں لیکن تبدیلی نہیں آرہی۔وجہ؟ اقبال کے زریں
افکار سے کسب فیض کے برعکس ہم بھی کور چشم ہی چلے آ رہے ہیں۔اقبال کی یہ
تلقین فراموش کردی گئی کہ
جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اسلام آباد اور مظفرآباد میں اقتدار کی غلام گردشوں گم عاقبت نااندیشوں نے
فراموش کردیا کہ ’کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد‘۔اقبال نے فکر دی
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
مسلم دنیا کا تو کیا رونا کہ شیعہ سنی میں بٹ چکی۔یورپ مذہبی جنگیں ختم
کرکے متحد ہوچکا اور ایک ہم ہیں کہ ۱۴ سوسال سے اس بنیاد پر ایک دوسرے کی
گردنیں مار رہے ہیں کہ خلافت علیؓ کا حق تھایا ابوبکرؓ کا۔ادھر مملکت
خداداد میں راوی کے ساحل سے تا بہ خاک کراچی لہولہو ہے۔ہم نے ہر چیز کو
متنازع کردیا ہے ۔جہاں خلفاء راشدین متنازع بنادیے جائیں وہاں اقبال اور
جناح کی کیا حیثیت۔علامہ نے رنگ ونسل کے تعصب کے ضمن میں یہ سوال کیا تھا
کہ ’تم سبھی کچھ ہو،بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟‘۔ہم نے ’بتان رنگ و خوں‘ کو
توڑنے کے برعکس معاشرہ کو گجر، جاٹ ، سدھن ، راجپوت ، سید ، اعوان ، مغل ،
ملک اور جانے کس کس ذات میں تقسیم کردیا۔یہاں تو اب حکومتیں میرٹ بھی
برادریوں کی بنیاد پر بناتی ہے۔میڈیکل کالج اور جامعات میرٹ کی بنیاد پر
نہیں علاقوں کی بنیاد پر بنتے ہیں۔معیار کیا ہے؟ معالجین کے رویوں کو دیکھ
کر جی چاہتا ہے کہ ان تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں اور شفاخانوں میں
خودکش بمبار داخل کردوں۔ایک غریب ویسے ہی علاج کو سسک رہا ہے اور اس کی
اولاد معیاری تعلیم کو ویسے ہی ترستی ہے جس طرح پہلے تھا۔امیر تو صرف اس کو
زکوٰۃ دیتے ہیں یا صدقہ۔اس ملک میں تعلیم اور صحت کے ساتھ ہم نے ایسے ہی
کھلواڑ کیا ہے جیسے اسلام اور اردو کے ساتھ کیا ہے۔غریب کے بچے کو امیر کے
بچے کے ساتھ مقابلے کے مساوی مواقع مہیا نہیں کیے جا رہے کہ وہ کہیں آگے نہ
آجائے اور مستقبل اپنے ہاتھ میں نہ لے لے۔اس ملک کی اشرافیہ ہی اقبال کی
فکر کی قاتل ہے۔اقبال نے ’مسجد قرطبہ‘ میں کیلنڈر وقت کی بابت کہا تھا کہ
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
یوں دیکھیں تو بقول ڈاکٹر سلیم اختر ’اکیسویں صدی محض ۱۹۹۹ء کے کیلنڈر کا
آخری صفحہ پھاڑ کر دیوار پر نیا کیلنڈر لگانے کے برعکس کچھ اور ہی صورت اور
معنویت اختیار کرلیتی ہے۔علامہ اقبال نے اسی نظم میں آگے چل کر فرمایا کہ
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات، کشمکش انقلاب
صورت شمشیر ہے ، دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
صورت شمشیر تو ہم ہیں لیکن علاقائیت ، صوبائیت ، لسانیت ، برادری ، فرقے کے
لیے۔اسی لیے فکر اقبال تقسیم درتقسیم کے عمل سے گزر رہی ہے۔پورے اقبال کی
پوری فکر کو سامنے نہیں رکھا جارہا۔اسی وجہ سے اس ملک میں اب فکر اقبال
ڈراؤنا خواب بنتی جا رہی ہے۔صرف اقبال کو گانے اور اس کے گن گانے سے مسائل
حل نہیں ہوں گے۔ہم آہستہ آہستہ صرف شخصیت پرستی کے طلسم میں گرفتار ہورہے
ہیں اور اس حالت میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔اگر ان سیمی ناروں ، یوم
اقبال اور مقالوں سے کچھ حاصل کرنا مقصد ہے تو رومانوی سوچ کو چھوڑیے اور
فکر اقبال پر ٹھوس انداز میں کام کو آگے بڑھایے۔ |
|