متاثرین زلزلہ کی دل جوئی۔۔۔

جوں جوں راستے کھلتے گئے وہاں تباہی کے آثار بھی نمایاں ہوتے رہے۔ اکتوبر کی 8 تاریخ کو ایک قیامت دس سال قبل بھی آئی تھی اس کا زکر بھی دل ہلا کر رکھ دیتا ہے راقم کا تعلق بھی اسی ’’ریڈ زون ‘‘سے ہے جو صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔اس بار زلزلہ کی شدت زیادہ تھی ۔لیکن اس کے فضل سے نقصان کم ہوا۔جب ڈیزاسٹر کے ایک قومی ادارے کے ترجمان میڈیا کو یہ بتا رہے تھے کہ زلزلہ سے متاثرہ تمام علاقوں تک نہیں پہنچ سکے اس وقت ہلال احمر کے رضا کار زخمیوں کو نکالنے اور فرسٹ ایڈ کی فراہمی کا آغاز بھی کر چکے تھے۔گلگت بلتستان برانچ،خیبر پختون خوا ،اور فاٹا برانچ ’’سب سے پہلے پہنچو‘‘ کی عملی تصویر بن کر سامنے آئیں۔نیشنل ہیڈ کوارٹرز میں تمام متعلقہ شعبہ جات کو الرٹ کر دیا گیا۔ایک چھت تلے مانیٹرنگ،لاجسٹک،پلاننگ ہونے لگی اور یہاں سے بھی امدادی قافلوں کی روانگی شروع کر دی گئی۔ایک منٹ سے بھی کم زمین ہلی۔۔ زندگی کا کوئی نعم البدل نہیں۔ شہداء کیلئے دعائے مغفرت ۔25 ہزار مکانات تباہ ہوئے‘ سینکڑوں مویشی مر گئے۔مال برداری کے زرائع نہ رہے،آج کل ایک بھینس ڈیڑھ لاکھ سے کم میں نہیں ملتی۔ بکری‘ گائے کی قیمت بھی کم نہیں‘ اس نقصان کا تو اب تک اندازہ ہی نہیں لگایا گیا۔ متاثرین زلزلہ‘ ایوان بالا‘ زیریں میں متعلقہ علاقوں کے نمائندگان نے حکومتی پیکج کو اگرچہ سراہا مگر مکان کی تعمیر کے لئے 2 لاکھ کی رقم کو 5 لاکھ کرنے کا بھی مطالبہ سامنے آیا ہے۔ایرا کو اس بار اس کی ماضی : شاندار کارکردگی: کی بدولت ریلیف اور بحالی سے دور رکھا گیا ہے،پاک فوج سرگرم عمل ہے۔ سب سے زیادہ تباہی چترال میں ہوئی یہاں ایک اندازے کے مطابق 8300 مکانات زمین بوس ہوئے۔ تورغر ‘ شانگلہ ‘ سوات‘ باجوڑ کے علاقوں میں بھی گھر اور دیگر املاک تباہ ہوئیں۔ عمل اور صرف عمل کی حقیقی مثال سیکرٹری جنرل ہلال احمر ڈاکٹر رضوان نصیر نے شانگلہ میں امدادی سامان خود تقسیم کیا۔ اس پیکج میں جستی چادریں، کچن سیٹ، شیلٹر کٹس سمیت دیگر اشیاء ضروریہ شامل تھیں۔ ہلال احمر کے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی بنفسِ نفیس زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں گئے اور امدادی سامان تقسیم کیا۔ ہلال احمر زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں مصروف کار ہے۔ متاثرین کو شیلٹر‘ ادویات کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہسپتالوں کو آپریشن کٹس فراہم کر دی گئی ہیں۔ متعلقہ اضلاع کے 500 متاثرہ خاندانوں کے لئے اشیاء خوردو نوش اور دیگر اشیاء ضروریہ مہیا کیں۔ ہلال احمر کے رضاکار سب سے پہلے متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں پہنچایا۔ ہلال احمر کی ایمبولینس سروس بدستور امدادی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ چترال‘ شانگلہ اور تورغر میں میڈیکل کیمپس بدستور جاری ہیں۔ہلالِ احمر نے 5575 خاندانوں کے 42ہزار افراد کی براہِ راست مدد کی۔ رضاکاروں نے خون کے عطیات بھی دیے ۔ آئی سی آر سی اور آئی ایف آر سی مدد و تعاون کے لئے پیش پیش ہیں۔سوات کے ہسپتالوں میں 250 زخمیوں کے لئے آپریشن کا سامان فراہم کیا گیا ہے۔ درویش صفت ،درد دل رکھنے والے ڈائریکٹر آپریشن غلام محمد اعوان موومنٹ پارٹنر کے ساتھ مکمل رابطہ میں ہیں۔چین نے متاثرین زلزلہ کیلئے ہر ممکن امداد و تعاون کا اعلان کرتے ہوئے چین کے پاکستان میں سفیر مسٹر سن وی ڈونگ نے ہلالِ احمر پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی کو چائنہ ریڈ کراس کی جانب سے متاثرین زلزلہ کیلئے ایک لاکھ ڈالر کا امدادی چیک دیا ہے۔ٹیلی نار پاکستان نے بھی متاثرین زلزلہ کے لئے جاری امدادی سرگرمیوں میں حصہ ڈالتے ہوئے امدادی چیک دیا ہے۔میری ناقص رائے میں سچے رضاکار کو کسی تعریف یا تحسین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رضاکارانہ جذبہ انسانی تسکین اور روحانی تشفی کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے۔ طمانیت قلب ہی سب سے بڑا صلہ ہوتاہے۔ ایک مسلمان خلق خدا کے کاموں میں اس لئے حصہ لیتا ہے تاکہ اﷲ پاک کی رضا مندی اور قربت حاصل کرسکے۔ جہاں تک کسی فرد کی رضاکارانہ سرگرمیوں کے حوالے سے سماجی اور سماجی تنظیموں کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لئے رضاکاروں کی عزت افزائی‘ تصدیق اور توثیق ضروری ہوتی ہے۔پاکستان میں انسانی خدمت کے درجنوں ادارے موجود ہیں۔ ہلال احمر پاکستان ان سب اداروں سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہ ریڈکراس /ریڈکریسنٹ موومنٹ کا حصہ ہے۔ بلڈ بنک نیک نامی کما چکا ہے اور آج بھی خون کی فراہمی ،بلڈ ڈونیشن کیمپس میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ہلال احمر نے جدید طرز کی ایمبولینس سروس شروع کی ہے۔1030 کے ملانے پر سات سے دس منٹ میں یہ سروس فراہم ہوجاتی ہے۔ ایمبولینس میں فرسٹ ایڈ اور فوری طبی امداد کا سامان موجود ہوتا ہے۔ اس سروس کی افادیت کو ایوان صدر نے بھی سند عطا کی اور خود صدر ممنون حسین نے اس کا افتتاح کیا۔ ڈاکٹر سعید الٰہی اور ڈاکٹر رضوان نصیر ایسی سروس پورے مُلک میں شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ایمبولینس کا ڈرائیور ایک ماہر فرسٹ ایڈ ر ہونا چاہیے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے پاکستان میں ڈبلن یونیورسٹی کے اشتراک سے پہلے ایمبولینس کالج کا بھی افتتاح کر دیا گیا ہے پہلے بیج کی کلاسز شروع ہو چکی ہیں ۔ملکی تاریخ کے اس پہلے کالج کا فیتہ وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے کا ٹا ہے۔ اس کالج میں تربیت حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات نہ صرف پاکستان کے اندر قیمتی جانیں بچانے میں معاون ثابت ہوں گے بلکہ بیرون ممالک جا کر قیمتی زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔
Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 63885 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.