گپ اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ
سجھائی نہیں دیتا تھا۔ایسے میں کسی نے ماچس کی ایک تیلی کو روشن کیا تو
گھٹا ٹوپ اندھیرے کو روشنی کی ایک کرن نے چیر کر رکھ دیا اور راستہ دکھائی
دینے لگا۔ میں نے سوچا اگر روشنی کی ایک کرن چار سو پھیلے ہوئے اندھیرا کا
سینہ چاک کر سکتی ہے تو پھر ہم مایوسی کے اندھیروں میں کیوں ڈوبے ہوئے ہیں۔
کیوں ہمیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دشمن
ہمیں مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل کر ختم کر دینا چاہتا ہے۔
امید ایسی روشنی ہے جو مرتے ہوئے انسان کو بھی زندگی دے سکتی ہے اور مایوسی
ایک ایسا اندھیرا ہے جو زندگی کو موت کی طرف لے جاتا ہے۔ اپنے بچپن میں
انگریزی کی نصابی کتاب میں ایک واقعہ پڑھا تھا جو آپ کے گوش گزار کرنا
چاہتا ہوں۔ ایک مچھیرا اپنے بیٹے کے ساتھ سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے
گیا۔ لیکن سمندر میں طوفان آگیا اور ان کی کشتی ڈوبنے لگی۔ انہوں نے بہت
کوشش کی کشتی کو بچانے کی لیکن وہ ایسا نہ کرسکے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ
اور اس کا بیٹا سمندر کی موجوں میں بہنے لگے۔ مچھیرا سوچ رہا تھا کہ اب اس
کا آخری وقت آن پہنچا ہے اس لیے کہ وہ زیادہ دیر تک ان موجوں کا مقابلہ
نہیں کرسکے گا۔ یہ سوچتے ہی اس کی ہمت جواب دینے لگی ۔اچانک ڈوبتے ہوئے اسے
اپنے بیٹے کا خیال آیا اور اس نے سوچا کہ اگر وہ ڈوب گیا تو اسے کون بچائے
گا؟ …… یہ سوچنا تھا کہ اس میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی اور اس میں ایک
ایسا حوصلہ پیدا ہوا جو سمندر کے طوفان کو مات دے سکتا تھا۔ تھوڑی سی کوشش
اور جدوجہد سے اس نے قریب سے گزرتے ایک تختہ کو پکڑ لیا ۔ اب اسے اپنی نہیں
بیٹے کی فکر تھی اور وہ اسے آس پاس تلاش کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ بھی
اسے ڈوبتا ہوا نظر آگیا اور اس نے اسے تھام لیا اور یوں وہ اس طوفان میں
بھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے موت کی لہروں کا مقابلہ کرکے زندگی کی جنگ جیت
گئے اور بخیریت ساحل تک پہنچ گئے۔
بحیثیت قوم ہماری کشتی بھی ایسے ہی ایک طوفان میں گری ہوئی ہے اور امید کی
کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ اپنی ذات سے اٹھ کر
سوچنے کی اور خود کو مایوسی کے چنگل سے آزاد کرنے کی کہ اگر ہم مایوسی کے
اندھیرے میں ڈوب گئے تو قوم کو روشنی کون دے گا؟ ہمیں امید کی شمع کو روشن
کرنا ہے کہ روشنی تھوڑی بھی ہو تو اندھیرے کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
سڑک پر ٹریفک تیزی سے رواں دواں تھا۔ ایسے میں کوئی سنگل کو خاطر میں لانے
کو تیار نہ تھا لیکن میں نے یہ سوچا کہ کوئی سگنل پر رکے نہ رکے میں رکوں
گا اور یہ سوچنا تھا کہ میں ایک سنگل پر ٹھہر گیا۔ پیچھے سے آنے والی ٹریفک
نے مجھے رکا دیکھا تو انہوں نے بھی اپنی گاڑیوں کو بریک لگائی۔ شاید اس کی
وجہ یہ ہے کہ ہم بھیڑ چال چلنے کے عادی ہیں۔ اگر ایک بھیڑ اپنے شعور سے
صحیح راستہ پر چل پڑے تو پیچھے والی بھیڑیں بھی بغیر سوچے سمجھے اس کی
تقلید کریں گی۔
ہم دنیا نہیں بدل سکتے لیکن اپنی نظر کا وہ چشمہ تو بدل سکتے ہیں جس سے ہم
دنیا کو دیکھتے ہیں۔ حالات کو بدلنے کے لیے اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اپنی
سوچ کو مثبت رکھنا ہوگا۔ زندگی خوشی اور غم دونوں سے عبارت ہے لیکن اب
ہماری اپنی سوچ پر منحصر ہے کہ ہم اس زندگی میں خوشی کو دیکھیں یا غم کو
یاد کرکے خوشی کے لمحات بھی ضائع کردیں۔برا وقت ہر قوم پر آتا ہے اور زندہ
قومیں وہی ہوتی ہیں جو امید کا دامن تھام کر اس وقت کو بخوشی جھیل جاتی ہیں
اور اچھے وقت کے لیے تیاری کرتی ہیں۔
زندگی میں ایسے کئی واقعات میں نے دیکھے ہیں جن کا ذکر کروں تو یہ صفحات کم
پڑجائیں لیکن یہ واقعات ختم نہ ہوں ۔ ایسے واقعات جو امید کو زندہ کرتے ہیں
لیکن ہم ان کا تذکرہ نہ کرتے ہیں اور نہ ہی بدقسمتی سے سنتے ہیں۔ اس شخص کی
طرح جو اﷲ کی بے شمار نعمتیں پا کر بھی ذرا سی تکلیف پر ناشکرا بن کر چلانے
لگتا ہے۔ مانا کہ ہمارے ملک کو دہشت گردی، لوٹ مار اور اس جیسی بے شمار
بیماریوں نے گھیر رکھا ہے لیکن باوجود اس کے ایسے لوگ اسی ملک میں بستے ہیں
جن کا ان بیماریوں سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ایسے عام سے لوگ موجود ہیں جن
کے پاس لاکھوں کی رقم بھی مل جائے تو وہ واپس کردیتے ہیں۔ جو کسی سے کوئی
سوال نہیں کرتے۔ لیکن ہم ان لوگوں کا تذکرہ کبھی نہیں کرتے ۔ شاید ہم منفی
سوچ کے مالک ہیں۔ اسی لیے آٹے میں نمک کے برابر ان لوگوں کا ذائقہ پورے آٹے
میں محسوس نہیں کرپاتے ۔ نمک تھوڑا بھی ہو تو پورے آٹے کا ذائقہ بدل سکتا
ہے۔ آئیے آج سے ہم بھی اس نمک میں شامل ہو کر اس ملک کی تقدیر بدل دیں کہ
آغاز ہمیشہ ایک سے ہوتا ہے۔ |