فرانس میں جون1832ء میں پہلی بار
مزدورں کے انقلاب کی مسلح تحریک پیرس کی سڑکوں پر نمودار ہوئی دو دن تک
ہزاروں مزدورں نے فوج کامقابلہ کیا فوج نے اس تحریک کو بے دردی سے کچل
دیاپیرس کی سڑکیں پورا ہفتہ خون آلو د رہیں۔ اس بغاوت کے پس منظر میں ایک
ایسا غیرمساوی معاشی استحصالی نظام تھاجس میں مزدوروں کے لئے دن رات مشقت
کر نے کے باوجود پیٹ کی آگ بجھانامحال ہو چکا تھا۔ صحت اور تعلیم کی سہولت
اقرباء کی پہنچ میں تو تھی مگر مزدوروں کے لئے نزدیک نزدیک ہسپتال و تعلیمی
ادارے دیکھنے کو بھی میسر نہ تھے ۔اپریل 1834ء میں شہر لیون میں دوبارہ
بغاوت کا پرچم بلند ہوا اس بغاوت کی حمایت میں پیرس اور دیگر شہروں میں جوش
وخروش سے مظاہرے ہوئے پورے فرانس کے بغاوت زدہ شہروں میں فوج نے کنٹرول
سنبھال کر مزدوروں کو بے بس کر دیا انقلاب کی چنگاری جو مزدوروں کے دلوں
میں معمولی سا شعلہ بن کر جلی تھی اپنے ساتھی مزدوروں کی موت سے دہکتی ہوئی
آگ بن چکی تھی۔ مئی1839ء میں مزدوروں کی انقلابی تحریک مشہورِ زمانہ مزدور
انقلابی فلاسفر بلانکی کی قیادت میں پھر سے اقتدار کے ایوانوں سے ٹکر لینے
کے لئے سڑکوں پر پھیلنا شروع ہو گئی اس بار اس آگ کے شعلے
آسٹریا،ہنگری،چیکوسلواکیہ،اٹلی ،پولینڈ،ہالینڈ ،بلیجیم،جرمنی و دیگر یورپ
سے ہوتے ہوئے انگلستان کے ساحل تک دکھائی دینے لگے روس بھی اس آگ کی لپیٹ
میں آئے بنا نہ رہ سکا۔ آئے روز ان ممالک میں اس تحریک کے روح رواں مزدور
اپنے سر قلم کرا تے نظر آ تے انقلاب کا یہ جوش کسی ایک ادارے تک محدود نہ
تھا اس وقت کا شائد ہی کوئی ادیب ،فنکاریا مفکر ہو گا جس نے اس انقلابی
تحریک کا اثر محسوس نہ کیا ہو اس زمانے میں سوشلزم کا بہت چرچا ہوا سوشلزم
کے بہت سے مبلغ بھی پیدا ہوئے جن کی تحریریں درمیانی طبقے کے علاوہ مزدور
حلقوں میں بہت شوق سے پڑھی جا رہی تھیں کارل مارکس ،روسو،اینگلز،چارلس کی
سوشلزم پہ جادوئی تحریریں ہر طبقے کو متاثر کر رہی تھی سر تھامس مور کے
یوٹوپیا کے نام سے فرضی سفر نامے کے اکتباسات شائع کیے گئے جس میں وہ رافیل
سے مخاطب ہیں تم کسی بادشاہ کے مشیر بن جاؤبہت کا ر آمدثابت ہو گے رافیل
کہتا ہے افلاطون کو بھی یہی غلط فہمی تھی بادشاہ اگر فلسفی ہو جائے یا
فلسفی بادشاہ ہو جائے ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی اس نے
سسلی کے بادشاہ کو فلسفی بنا نے کی کوشش کی مگر ناکام رہا بادشاہ کو سچے
مشیر کی نہیں خوشامدی کاسہ لیسوں کی حاجت ہوتی ہے ۔جہاں املاک ذاتی ہوں
جہاں انسانیت کا معیار پیسہ ہو وہاں یہ بات قریب قریب ناممکن ہے عوام پر
عدل و انصاف کی حکومت ہو اور وہ خوش حال و آسودہ ہوں ۔جہاں مٹھی بھر دولت
مند سب کچھ آپس میں بانٹ لیں وہاں فراوانی کیسے ہو گی سب کی ضرورتیں کیسے
پوری ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ چیزوں کی مساوی اور منصفانہ تقسیم اس وقت تک
ممکن نہیں جب تک ذاتی ملکیت کا حق سرے سے منسوخ نہ ہو جب تک ذاتی ملکیت کا
رواج باقی ہے آبادی کی غالب اکثریت جو انسانیت کا کا بہترین جز ہے غربت و
افلاس کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہو گی ۔اس زمانے میں چوری کی سزا پھانسی تھی
لیکن چوری کی وارداتوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا ایک پھانسی گھر میں
بیسوں افراد کو روز پھانسی دی جاتی مگر چوروں کی تعداد میں کمی نہ ہوتی تھی
رافیل کہتا ہے پھانسی سے تو چوروں کی تعداد نہیں گھٹ سکتی البتہ ان حاجت
مندوں کی معاش کا بندوبست کر دیا جائے انہیں روز گار مل جائے چوریاں خود ہی
ختم ہو جائیں ۔یہ کہاں کا انصاف ہے تم کسی بد نصیب کو پہلے چوری کرنے پر
مجبور کرو پھر اسے پھانسی دے دو۔1840 ء کی دہائی میں صدیوں کے عرصے پہ محیط
مزدوروں کی انقلابی خونی تحریک اپنی جدو جہد میں کا میابی سے سرفراز ہونے
لگی۔ مزدوروں کے حقوق تسلیم کر لئے گئے جس کے نتیجے میں پہلی :انٹرنیشنل
ورکنگ مینز ایسو سی ایشنـــــ: کا قیام عمل میں آیا جہاں مارکس نے تاریخی
جملہ دہرایا ـ اے دنیا کے مزدورو ایک ہو جاؤ ۔مزدور خوش حال ہونا کیا شروع
ہوئے انڈسٹریل سیکٹر میں جادوئی ترقی شروع ہو گئی مشینی شعبے میں نت نئی
ایجادیں ہونے لگی مزدور پیٹ کی فکر سے آزادہوئے ورکنگ سیکٹر مضبوط ہونے لگے
تاریخ گواہ ہے جہاں جہاں مزدورں کے انقلاب آئے وہ ممالک ترقی یافتہ قرار
پائے۔ آج پاکستان کے مزدوروں کے حالات صدیوں پہلے معاشی استحصالی کے شکار
مزدوروں سے بھی بدتر ہیں۔ جہاں سکول اور ہسپتال تو چپے چپے پہ موجود ہیں
مگر ڈاکٹر ز اور ماسٹرز کی فیسیں مزدوروں کی دسترس میں نہیں۔ جہاں آئین میں
لیبر قوانین تو موجودہیں مگر اس قانون کی ایک شق کا اطلاق بھی انڈسٹری
سیکٹر پہ لاگو نہیں ۔جہاں ہر فیکٹری کے باہر چائلڈ لیبر ممنوع کا بورڈ تو
لگا ہوا ہے مگر اندر بچے مزدوری کرنے پرمجبور ہیں۔ جہاں بزنس پرمٹ میں
مزدوروں کے لئے صحت ،ٹرانسپورٹ،سوشل سکیورٹی انشورنس کی سہولت مہیا کرنے کے
دستخط موجود ہیں مگر مزدور ان سہولتوں سے مسلسل محروم ہیں۔جہاں ہر آنے والی
حکومت مزدور کی فی کس تنخواہ مقرر تو کرتی ہے مگر مقرر کردہ تنخواہ کا نصف
بھی مزدور کو نہیں مل رہا۔ جہاں فیکٹریوں کی عمارتیں زمین بوس ہوتی ہیں
سینکڑوں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جہاں کارخانوں کو آگ لگنے سے
ہزاروں مزدور جھلس کے مرتے ہیں۔جہاں مزدوروں کوپینے کا صاف پانی تک میسر
نہیں۔جہاں سب سرمایہ دس فیصد خاندان آپس میں بانٹتے ہیں باقی کے نوے فیصد
اپنے پیٹ کی آگ بجھانے سے بھی دن بدن قاصر ہوتے جا رہے ہیں ۔جہاں ہر شہر
میں ایک لیبر افسر تو ہے مگر اس افسر تک مزدور کو رسائی حاصل نہیں جہاں ان
پڑھ زہنی مریض سرکاری افسر بھرتی ہوجاتے ہیں لیکن ڈگری ہولڈرز کو چپڑاسی کی
نوکری بھی نہیں ملتی۔ جہاں ڈگریاں جلا کر پیٹ بھرنے کے لئے چو ر ڈکیٹ بننے
پرمجبور ہونے کے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں اپنے حالات بدلنے کے لئے ہمیں
ماضی کے انقلابات کو سامنے رکھتے ہوئے مزدور انقلابی تحریک کا جدید طریقے
سے آغاز کرنا ہوگا نہیں تو اس غیر مساوی معاشی استحصالی نظام کے لپیٹ میں
جکڑ ی ہوئی آپ کی آنے والی نسلوں کو پیٹ کے لئے جیب کاٹنا پڑے گی۔جب تک
مزدور انقلاب نہیں آئے گا کسی جمہوریت کسی آمریت کا کوئی فا ئدہ حاصل نہیں
ہو سکے گا دس فیصد لوگ نوے فیصد لوگوں کے وسائل اور حقوق یوں ہی لوٹتے رہیں
گے۔
|