تین پسندیدہ عمل

عن ابی ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ من کان یؤمن با اللّٰہ والیوم الاٰخر فلیکرم ضیفہ ومن کان یؤمن با اللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یؤذ جارہ ومن کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلیقل خیر ااو لیصمت۔
حل لغات: فلیکرم :عزت کرے۔ضیفہ:اپنے مہمان کی، لایوذ: تکلیف نہ دے ، جار:پڑوسی ،لیصمت :خاموش رہے۔

ترجمہ :’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :جو کوئی اﷲ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو،وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتاہو ،اس کو چاہئے کہ وہ اپنے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘

تعارف راوی:حضرت ابو ہریرہ عبد اﷲ بن عامر رضی اﷲ عنہ نے59 ھ میں وفات پائی ۔وفات کے وقت ان کی عمر 85سال تھی ۔ آپ خیبر کے سال اسلام لائے اور خیبر میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ حاضر رہے اورحصول علم کیلئے آں ضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں رہنے لگے۔ایک بار عرض کیا :یا رسول اﷲ ﷺ ! میں آپ سے سنتا ہوں ۔لیکن یاد نہیں رہتا ۔آپ نے فرمایا:اپنی چادر بچھا لے ۔میں نے بچھا دی ،تو آپ ﷺ نے بہت سی باتیں فرمائیں۔جب آپ نے گفتگو ختم فرمائی ۔تو میں نے چادر کو اپنی طرف سمیٹ لیا ۔پھر اس کے بعد میں آپ کی کوئی بات نہ بھولا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کثیر الروایۃ ہیں ۔

امام بخاری نے کہا کہ آٹھ سو سے زیادہ صحابہ اور تابعین نے ان سے روایت کی ہے ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بحرین پران کو عامل مقرر کر دیا ۔پھر عامل بنانا چاہا ۔تو آپ نے انکار کر دیا اور مدینہ میں رہ پڑے اور یہیں وفات پائی ۔بعض کا قول ہے کہ عقیق میں وفات پائی اور مدینہ منورہ لائے گئے ۔ان کا جنازہ امیر مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان نے پڑھایا۔ (اسد الغابہ جلد5ص316)

تشریح:اس حدیث پاک میں مؤمن کی تین صفات حمیدہ کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور قیامت کے دن میں جزا اور سزا کا یقین رکھتا ہو، اس کو چاہئے کہ آنے والے مہمان کی عزت اور دلجوئی کرے اور اپنے قول و فعل سے اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور یا تو اچھی بات کرے جس میں اس کے دین و دنیا کا بھلا ہو،ورنہ خاموشی اختیار کرے ۔کیونکہ غلط اور معصیت والے کلام سے خاموش رہنا ہی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔ اب ان تینوں صفات حمیدہ پر قدرے روشنی ڈالی جاتی ہے ۔

اکرام الضیف:مہمان کو خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھنا چاہئے ۔ آنے والا مہمان اپنی قسمت کھاتا ہے اور میزبان کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔میزبان کو چاہئے کہ سرکار مدینہ ﷺ کی سنت سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آئے ۔ترشروئی سے پیش نہ آئے ،سخت رویہ نہ اختیار کرے اور حتی الوسع خود خدمت کرے۔امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ ذکر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ مہمان کو نا پسند نہ کرو،جو شخص مہمان کو ناپسند کرتا ہے ،اﷲ تعالیٰ بھی اس شخص کو نا پسند کرتا ہے ۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ کے غلام ابو رافع رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک مہمان آیا تو حضور انور ﷺ نے ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رکھ کر اس کی ضیافت فرمائی۔

حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ مہمان کی دعوت سے شہرت اور فخر کا ارادہ نہ کرے ،بلکہ مہمان کو خوش کرنے اور حضور اکرم ﷺ کی سنت کو اپنا نے کا ارادہ کرے۔‘‘

امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اﷲ علیہ المتوفی 973ھ فرماتے ہیں کہ ’’ جب کوئی مہمان تمہارے پاس آئے ،تو اس کی ضیافت کے وقت تمہارے دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ وہ تمہیں اس دعوت کے عوض کوئی چیز دے گا تم اس سے کوئی دنیوی مطلب حاصل کرو گے ،ورنہ اس دعوت سے اخلاص کی دولت نصیب نہ ہوگی اور نہ ہی سرکار دو عالم ﷺ کی سنت حاصل ہو گی۔‘‘اصل طریقہ یہ ہے کہ مہمان کے ساتھ کھانا کھانا چاہئے ۔

امام ابو حامد محمد بن غزالی رحمۃ اﷲ علیہ المتوفی 505ھ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر ایک دو دن کے بعد مہمان رخصت ہونے کا ارادہ ظاہر کرے ،تو میزبان کو چاہئے کہ مہمان کو تنہا کھانا کھانے کا موقع دے ۔ممکن ہے کہ میزبان کا ساتھ کھانا کھانا اس کی وجہ سے گراں گزرتا ہو۔‘‘

امام شعرانی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ سیدی علی خواص رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا ۔جب تک کہ وہ اپنے پاس آنے والے ہر مہمان کی تعظیم و تکریم نہ کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لوگ اس کے پاس اﷲ تعالیٰ نے بھیجے ہیں ۔ان کے آنے پر خوش ہو اور سنت نبوی ﷺ کے مطابق ان سے حسن سلوک کرے اور ان کی خاطر تواضع مقدور بھر کرے۔ نیز انہوں نے فرمایا :اگر کسی دوسرے شیخ ،استاذ یا کسی دوسرے صاحب منصب کے مریدین ،تلامذہ اور متعلقین کسی دوسرے شخص کے ہاں مہمان ہو کر جائیں ،تو ان کے سامنے ان کے ممدوح کی شان میں کوئی کلمۂ تنقیص نہ کہے اور نہ ان لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے۔جو ان کے ممدوحین سے منقطع ہونے کا سبب ہو ، بلکہ جس قدر ممکن ہو ۔ ان کے سامنے ان کے ممدوحین کی وہ خوبیاں بیان کرے ،جو اصل ان میں موجود ہوں۔(شرح مسلم جلد اول ص146)

پڑوسی کے حقوق:اس حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ مومن کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف دے ۔ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ:آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ واﷲ ! وہ مومن نہیں ہے ، جس کا ہمسایہ ان کی اذیتوں سے بے خوف نہ ہو۔‘‘ ان احادیث میں جو ایمان کی نفی کی گئی ہے ۔اس سے کمال ایما ن کی نفی ہے ۔کیونکہ ایذاء معصیت ہے اور معصیت سے ایمان کامل نہیں رہتا ۔نفس ایمان کی نفی مراد نہیں ہے ۔ایک اور روایت میں ہے : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جبریل (علیہ السلام)ہمیشہ مجھے ہمسایہ کے متعلق وصیت کرتے رہتے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ شاید ہمسایہ کو وارث قرار دے دیں گے۔اس میں حقوق ہمسایہ کا مبالغہ سے بیان ہے کہ وہ ہمسایہ کو وارث کے قائم مقام کہیں گے نہ کہ حقیقتاً وارث۔
عمدۃ القاری شرح بخاری جلد 22ص108میں ہے کہ ’’لفظ جار(ہمسایہ )مسلمان ،کافر،عابد،فاسق،دوست، دشمن، مسافر، شہری، دیہاتی، نفع دینے والا،نقصان دینے والا، اپنا بیگانہ سب کو شامل ہے ۔یعنی مذکورین میں سے جو بھی اس کا ہمسایہ ہو، اس پر لازم ہے کہ ان کے حقوق کا لحاظ رکھے اور اس کی طرف قول و عمل کے ساتھ کوئی تکلیف نہ پہنچے۔‘‘

حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پڑوسی کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اس کو ابتداء سلام کرے اور اس سے زیادہ دیر تک گفتگو نہ کرے ۔اس کے خانگی معاملات کی تفتیش نہ کرے ،بیماری میں عیادت کرے،مصیبت میں اظہار ہمدردی اور موت میں اس کی تعزیت کرے اور تجہیز و تکفین میں شریک ہو ۔خوشی کے موقع پر اس کو مبارک باد دے اور اس کی خوشیوں میں شریک ہو،اس کے عیوب معلوم کرنے کی کوشش نہ کرے ،اس کے گھر میں نظر نہ ڈالے ،اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر والوں کا خیال رکھے اور اس کی خواتین سے گفتگو کرنی پڑے تو نظر نیچی رکھے ،اس کے بچوں سے پیار کرے اور دین و دنیا کی بھلائی سے متعلق جو باتیں اس کے بچے نہ جانتے ہوں ، ان کو بتلائے ۔حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا :اگر پڑوسی مدد طلب کرے ،تو مدد کرو،اگر قرض مانگے تو قرض دو، فقر اور مرض میں اس کی عیادت کرو، مر جائے تو جنازہ میں شریک ہو ۔خوشی کے موقع پر مبارک دو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے مکان کے سامنے اتنا اونچا مکان نہ بناؤ ۔جس سے اس کی ہوا رک جائے ۔(یابے پردگی ہو)

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم سالن پکاؤ ،تو شوربا زیادہ کر دیا کرو تاکہ بوقت ضرورت پڑوسی کو دے سکو۔‘‘

نیز حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں کہ پڑوسی تین قسم کے ہیں : اول وہ جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو،اس کا حق سب سے زیادہ ہے ،دوسری قسم عام مسلمان پڑوسی ، اس کا حق دوسرے درجے کا ہے اور اس تفصیل میں تمام احکام اسی متعلق ہیں اور تیسری قسم کے پڑوسی غیر مسلم ،جو احکام مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ان تمام احکام اور حقوق کا غیر مسلم پڑوسی بھی حقدار ہے۔(شرح مسلم جلد اول ص 145/144)

نوٹ:جار سے مراد ،حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت ہے ۔جو اس کے گھر سے آواز ،ندا کو سن لے اور بعض فرماتے ہیں جو نماز صبح تیرے ساتھ مسجد میں ادا کرے ۔وہ پڑوسی ہے ۔حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ گھر کی جانب سے چالیس گھر حق جوار (پڑوس) رکھتے ہیں۔(عمدۃ القاری جلد22ص108)

خاموشی یا کلام خیر:تیسری چیز جس کا بیان اس حدیث میں ہے ،وہ یہ ہے یا تو کلام خیر کرے یا خاموشی اختیار کرے۔کلام خیر میں ہے کسی کو امر بالمعروف کرنا اور نہی عن المنکر کرنا،وعظ ونصیحت کرنا، جب کسی کو خلاف شرع کام کرتے دیکھے تو اس کو احسن انداز سے منع کرنا ۔اس کو پیار سے سمجھانا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : من را ی منکم منکرا فلیغیر ہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف الایمان۔(اوکما قال) ’’یعنی جو خلاف شرع کام دیکھے اولاً ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے ۔اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے منع کرے اور اگر یہ بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے براجانے ۔یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔‘‘

آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ’’بات کرنی ہے ، تو وہ کرے جس میں اس کا اخروی بھلا ہو۔ورنہ اس کے لئے خاموشی بہتر ہے ۔‘‘ آج کل ہم وقت گزارنے کے لئے ہنسی ،مزاح اور ٹھٹھا کرتے رہتے ہیں ،اپنے نفس کو بہلانے کا نام ’’دل لگی‘‘ کہتے ہیں ،حالانکہ قرآن حکیم میں ہے :(ترجمہ )’’ کوئی قوم کسی قوم سے ٹھٹھا نہ کرے،ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘ اسی طرح نہ عورتیں عورتوں کے ساتھ ٹھٹھا کریں ،ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘ اسی طرح لایعنی اور بیہودہ لغو اور بے فائدہ کلام سے خاموشی ہی بہتر ہے ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ومن حسن اسلام الموء ترکہ مالا یعنیہ۔’’یعنی اسلام کی خوبی میں سے ہے لایعنی گفتگو کو چھوڑ دینا۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے :۔ من صمت نجا۔ ’’جو خاموش ہوا وہ نجات پا گیا۔‘‘
حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ۔
’’دل زیادہ بولنے سے مردہ ہو جاتا ہے ۔چاہے اس کا کلام عدن کے موتی ہوں۔‘‘
مولیٰ تعالیٰ ان اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی توفیق بخشے

اسی حدیث کے بارے میں عینی نے کرمانی کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ یہ ارشاد جو امع الکلم سے آخری حکم عبادات قولیہ کی جانب اشارہ ہے ۔پہلے دونوں فعلیہ کی جانب اور ایک حکم میں صفات سے مزین ہونے کی طرف اشارہ ہے۔’’یعنی جس میں اﷲ تعالیٰ کے حکم کا وصف تعظیم پایا جاتا ہو ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ خلق خدا پر شفقت کرے یا اچھی بات کہہ کریا شر سے خاموش رہ کر یاوہ کام کرے ،جس میں خلق خدا کا بھلا ہو اور اس کام کو چھوڑ دے ، جو نقصان دہ ہو ۔(عمدۃ القاری شرح بخاری جلد 22ص 111)
 
Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi
About the Author: Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi Read More Articles by Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi: 40 Articles with 69273 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.