حقوق نسواں کا واویلا اور حقیقت

 آج معاشرے میں عورت پرظلم وستم کی حالت یہ ہے کہ بھائی،ماں باپ کے تمام مال اور جائیدادپرقبضہ کرلیتے ہیں۔بہن اور بیٹیوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا ،عورتوں کو وراثت سے محروم کرنا،عورت کو مارنا پیٹنا،عورت پربے جاالزام لگانا،عورت کے مال پرقبضہ کرنا عورت کو بے جا طلاق دینا،عورت کی جبری شادی کرنا،عورت کو ـــ ـــ ’’ونی‘‘کی بھینٹ چڑھانا،کاری کرنا اوراسکی شادی قرآن سے کرنایہ وہ ظلم ہیں جومعاشرے کواپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔

دنیاکی ہر ثقافت کا آغازعورت سے ہوتا ہے۔1710ء میں برطانیہ نے حجاب اور سکارف پرپابندی لگا ئی برطانوی حکومت نے عورتوں کوزبردستی کم کپڑے پہننے پر مجبورکیااورعورتوں کو زبردستی گھروں سے باہر نکالا،ان سے فیشن پریڈکروائیں یہ ان ہی فیشن پریڈ کانتیجہ ہے کہ آج یورپ سماجی برائیوں کاشکار ہوچکا ہے۔عورتوں کے حقوق کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ دنیا میں عورتوں کو آزادی اوربرابری کاحق بیجنگ کانفرنس سے شروع ہوااور ان کی مظلومیت،مقہوریت اورپست مرتبے کو بہتر بنانے کے لئے1995ء میں عالمی برادری نے پہلی دفعہ اعلان کیا،دکھ اورافسوس کی بات یہ ہے کہ آزادی نسواں کے حوالے سے جس مذہب کوخواتین کی آزادی کے راستے میں سب سے زیادہ رکاوٹ سمجھا جاتا ہے و ہ اسلام ہے اور جس قوم کو عورتوں کے سلسلے میں اجڈ ،گنوار اورظالم کہا جاتا ہے وہ مسلمان ہے۔لیکن حالت اس کے بالکل برعکس ہے صرف چند مثالیں ملاخطہ فرمائیں جس سے آپ کو حقیقت کا ادراک ہو جائے گا۔

اسلامی لباس خاص کرسکارف کے خلاف بغض وعناد اس وقت پوری دنیا میں پایا جاتا ہے اور یہ سخت پابندیوں کی زد میں ہے۔جیک اسٹراجس کا تعلق برطانیہ کی لیبر پارٹی سے ہے وہ کہتے ہیں کہ مسلمان خواتین کا پردہ مختلف تہذیبوں کے درمیان رکاوٹ ہے اوروہ جب اپنے حلقے میں پردہ نشین مسلمان خواتین سے ملتے ہیں تو انہیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں محسوس ہوتا ہے جیسے خواتین ان سے دیوار کے پیچھے سے مخاطب ہیں،انہوں نے مسلمان خواتین سے کہاکہ’’ وہ جب ان سے ملاقات کیلئے آئیں تو نقاب اتار کر آیا کریں‘‘۔

امریکا میں خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کی کوئی تنظیم ایسی نہیں جس کی رپورٹوں کے مطابق ہرسال60سے70%خواتین اپنے باس یا سینئر کے ہاتھوں جنسی بلیک میلنگ اور بعض اوقات جنسی تشدد کا شکار نہیں ہوتیں،وہاں پرہر سال10لاکھ کمسن بچیاں ناجائز بچے پیدا کرتی ہیں اور اتنی ہی اسقاط حمل کرواتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ہرسال15ہزارامریکی خواتین اپنے خاوندوں ،سابقہ خاوندوں یا پھر بوائے فرینڈز کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہیں،یہ تعداد دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، امریکا میں آج تک جتنی بھی خواتین قتل ہوئی ہیں ‘ان سب کی کل تعداد میں سے34%ایسی تھیں جنہیں ان کے خاوندوں نے قتل کیا، قتل اور تشدد کے علاوہ مارپیٹ امریکی گھرانوں کا معمول ہے، زخمی حالت میں ہسپتال آنے والوں میں30%عورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کوحادثے سے نے نہیں بلکہ ان کے خاوندوں نے زخمی کیا ہوتا ہے۔امریکا میں ہر2منٹ بعد1عورت جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ صرف ایک سال 1996ء میں 3لاکھ10ہزارعورتیں پولیس رپورٹ کے مطابق جنسی تشدد کا شکار ہوئیں ورنہ اصل تعداد9لاکھ سے بھی زیادہ بنتی ہیں،اسی ایک سال میں12لاکھ کے قریب بچے زیادتی کانشانہ بنے تو ان میں بھی75%لڑکیاں تھیں۔امریکا میں اگر دن میں100بچے پیدا ہوتے ہیں توان میں35بچے ایسے ہوتے جو باپ کے بغیر اس دنیا میں آتے ہیں یعنی ان کے خانہ ولدیت میں باپ کانام درج کرنے کے لئے کوئی شخص میسر نہیں ہوتا۔
دوسری طرف جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے نہیں تھکتے اس ہی ہندوستان میں عورتوں کو خاوند وں کے ساتھ زندہ جلانے کی رسم کو مذہبی تقدس کا درجہ حاصل ہے اس کے علاوہ وہاں روزانہ کم جہیز لانے کے جرم میں عورتیں زندہ جلا دی جاتی ہیں لیکن کبھی مغربی میڈیا ہندومعاشرے کو خواتین کا دشمن قرار نہیں دیتا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آزادی حقوق نسواں کی ساری یلغاراورنزلہ اسلام کے خلاف نکلتا ہیں۔عورتوں کو عزت واحترام دینے والا اسلام آج پوری دنیا میں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے،جو مذہب عورت کے حق میں متعصب ہے اسے آج عورت کے خلاف متعصب سمجھا جاتا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ2ہزار سال گزرنے کے باوجودآج تک ویٹی کن سٹی میں کسی عورت کو پوپ کے منصب پر فائز نہیں کیا گیا،دنیا بھر کے چرچوں میں مرد اورعورتیں اکٹھی عبادت کر تیں ہیں لیکن آج تک کسی ایک بھی عورت نے چرچ میں دعا کی قیادت نہیں کی،کروڑوں ہندؤں مندروں میں پوجا پاٹ کرتے ہیں ان کی عورتیں بھی ان کے ساتھ پوجا میں شریک ہوتی ہیں لیکن آج تک کبھی کسی گرو،کسی پروہت کی کرسی پرعورت نہیں بیٹھی؟

مشرف دور میں امریکا نے اپنی52این جی اوز پاکستان بھجوائیں ان این جی اوز نے بڑے پیمانے پرسماجی تبدیلیوں کے لئے کوششیں شروع کیں،انہوں نے حقوق آرڈینس کو مرکز بنایا اور اس کی آڑ میں تحفظ حقوق نسواں بل داغ دیا،حدود آرڈینس جیسے نان ایشو پر25کروڑروپے خرچ کئے گئے۔تحفظ حقوق نسواں بل امریکا کے مشہور تھینک ٹینک’’رینڈکارپوریشن‘‘کااسپانسرکیا ہوا ہے،اس بل کی بعددفعات وہی ہیں جو18ویں اور19ویں صدی میں متعارف کرائی گئی تھیں۔ان این جی اوز کے علاوہ ایسی سینکٹروں این جی اوز اس وقت پاکستانی معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے سرگرم ہیں۔یہ این جی اوز مختلف ناموں سے آئے روزپروگرام منعقد کرتی رہتی ہیں،یہ پروگرام کبھی آزاد عورت کے نام پر،کبھی حقوق نسواں کے نام پر اور کبھی عورت کو معاشرے میں مقام دلانے کے نام پر منعقد کئے جاتے ہیں۔یہ این جی اوز چاہتی ہیں کہ پاکستانی عورت گھرسے باہر نکلے،برقع کو دور پھینکے،جم،باراورکلب کی طرف رخ کریں،بیوٹی کنسرٹ میں حصہ لے اور پاکستانی معاشرے کو لبرل بنا دیا۔اسلام نے عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دئیے ہیں،اسلام کے بجائے حقوق نسواں کے مظاہروں اور درسوں کی چرچوں اورمندروں کو زیادہ ضرورت ہیں۔
 
Shahid Iqbal Shami
About the Author: Shahid Iqbal Shami Read More Articles by Shahid Iqbal Shami: 41 Articles with 54323 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.