عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر چالیس سیکنڈ میں ایک انسان اپنے ہاتھوں خود
اپنی جان لے لیتا ہے رپورٹ کیمطابق صحت کایہ ایک ایسا مسئلہ ہے ، جس پر
اکثر معاشرے میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او سمجھتاہے کہ
خودکشی روکنے کی حکمت عملی موجود ہے ڈبلیو ایچ اوسنہ2020تک خودکشی کے رجحان
کو دس فیصد کمی پر لانا چاہتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے دس سال کی تحقیق و
تجزیئے کے بعد اپنی رپورٹ کو پیش کی تھی جس کے ماخذ کے مطابق سالانہ آٹھ
لاکھ افراد خود کشی کرکے اپنی جان لے لیتے ہیں ، یہ15 سے29سال کے نوجوانوں
میں اموات کی دوسری بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ مرد عورت
کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تعداد میں خودکشی کرتے ہیں۔خو د کشی کیلئے
مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں ،بیشتر ممالک خودکشی کے رجحانات کو روکنے
کیلئے کچھ نہ کچھ ذرائع یا حکمت عملی استعمال کرتے نظر آتے ہیں لیکن
پاکستان جیسے ممالک میں ایسی کوئی حکمت وضع بھی نہیں کی گئی ہے۔
خود کشی سے متعلق مائل افراد کی نشان دہی کرنے والا موبائل فون’ ریڈار ایپ‘
کو کافی تحفظات کے بعد امدادی تنظیم ’سیمریٹبز ‘نے بند کردیا جو ٹویٹر پر
مائل بہ خودکشی افراد کی نشان دہی کرتا تھا ۔’ ریڈار ایپ‘ نامی اس ویب کے
پالیسی ڈائریکٹر جو فرنز نے ان افراد سے معافی مانگی جن کو ریڈار ائپ کے
سبب پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ ایپ ٹویٹر پر مخصوص جملوں پر نظر
رکھتی تھی جیسے کہ ’ اکیلے رہنے سے عاجز آگیا ہوں ‘، ’ اپنے آپ سے نفرت ہے
‘ ، افسردہ ہوں ‘، میری مدد کرو‘، کسی سے بات کرنی ہے‘۔اسلام نے تو کسی
انسان کی جان لینے کو انسانیت کا سب سے بڑا جرم قرار دیا ہے اور کسی انسان
کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانا قرار دیتا ہے، تو یہاں اس کا
مقصد اس کی اپنی ذاتی جان بھی ہے کہ چاہے وہ اس کی اپنی جان ہی کیوں نہیں
ہے اس کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ ذاتی جان کا خاتمہ صرف اس لئے کرسکے
کیونکہ یہ جان اس کی اپنی ہے۔بہرحال اس کا مقصد یہ نہیں کہ ہمارا معاشرہ ان
رجحانات کے شکار نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرہ ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک اس
میں خودکشی کیلئے مختلف اسباب و وجوہات ہیں ۔ چونکہ بات پاکستان کی کر رہا
ہوں تو یہاں ہم اکثر و بیشتر دیکھتے نظر آتے ہیں کہ نفسیاتی مسائل سے زیادہ
مالی وسائل کی تنگی کے سبب ذہنی طور پر مفلوج ہوکر انسان اپنی زندگی کا
خاتمہ کرنے کو آخری حل سمجھتا ہے۔
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ معاشرہ اس کے سدباب کیلئے سنجیدہ نہیں ہے۔دل تو تب
دہل جاتا ہے ، جب کوئی خاتون اپنی عصمت لٹنے کے بعد انصاف نہ ملنے کے سبب
اپنی جان لے لیتی ہے۔اس طرح کے ان گنت واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ جب
انسانیت کا ہی تصور اٹھا جاتا ہے کہ ایک توطرف تو عورت کی عزت و ناموس
محفوظ نہ رہے تو دوسری جانب عزت کے لیٹروں کو قانون کے اُن ناپاک عناصر کا
آشیر باد ملے جو کسی مظلوم غریب عورت ، لڑکی کو انصاف فراہم نہ کرسکے اور
وہ اس تھانے کے سامنے خود سوزی کرلے۔بھارت میں بچوں اورخواتین کی بہبود کے
وزیر مانکیا گاندھی کے مطابق بھارت میں روزانہ دو ہزار لڑکیوں کو ماں کی
کوکھ میں ہی ہلاک کردیا جاتا ہے۔ صرف ریاست ہریانہ میں 20سے25فیصد لڑکیوں
کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ہلاک کردیا جاتا ہے۔پانی پت میں ایک تقریب میں
خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حیران کن انکشاف کیا کہ ہریانہ کے 70دیہات ایسے
ہیں جہاں گذشتہ کئی سالوں سے ایک بھی لڑکی پیدا نہیں ہونے دی گئی۔خودکشی کے
حوالے سے اسباب و سدباب کیلئے ہماری حکومت کیا کر رہی ہے مجھے اس کا ایک
فیصد بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ لیکن یہاں میں خود کشی کے حوالے سے اپنی ایک
ذاتی تحقیق کا ذکر کرنے چلا ہوں کہ دراصل ہمارا معاشرہ ہی بے حس ہے اور اس
میں زیادہ تر افراد کی تعداد اہمیت ہی نہیں دیتے اور اسے مذاق سمجھتے ہیں۔
گذشتہ دنوں فیس بک کی ایک ایسی پوسٹ کا چرچا رہا جس میں خودکشی کرنے والے
جوڑے نے پہلے ہی سے بتادیا تھا کہ وہ خودکشی کرنے والے ہیں۔ ہم پاکستانیوں
کو بھول جانے کی بڑی عادت ہے ، چلو میں یاد دلا دیتا ہوں کہ یہ واقعہ16سالہ
نو روز اور15سالہ فاطمہ کا تھا جب نو روز نے اپنی خودکشی سے دو روز پہلے
اپنے فیس بک اکاوئنٹ پر ہی لکھ دیا تھا کہ "میں کل مر جاؤں گا" "(tomorrow
I will die) انھوں نے جس طرح منصوبہ بندی کی اور معاشرے کی بے حسی میں اپنی
زندگیوں کا خاتمہ کیا اس نے مجھے کافی پریشان اور افسردہ کئے رکھا۔فیس بک
نے اس اکاونٹ کو تو بند کردیا
سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ ۔
جینا ہے تو جرات اظہار نہ مانگو |