تحریر: فاطمہ سباہت
اﷲ تعالیٰ کی ہر تقسیم منصفانہ اور ہر پہلو سے لاجواب ہے، کہ اگر اﷲ نے مرد
کو ہمت سے مالامال کیا ہے تو عورت کو صبر کی دولت کے خزانے بخشے ہیں۔
بہادری صرف میدان میں نکل کر قوت کے مظاہرے کا نام نہیں بلکہ اصل بہادری تو
نام ہے مشکل سے مشکل حالات میں برداشت کرنے کا۔ عورت کی اصل بہادری تو تب
سے شروع ہوجاتی ہے جب اس کی پیدائش میں اس کے پڑھے لکھے روشن خیال گھر والے
حتیٰ کہ اس کی اپنی ماں جو اسے تکلیفیں برداشت کرکے جنم دیتی ہے ایسے اداس
ہوجاتی ہے جیسے اس نے لڑکی کو جنم دے کر کوئی جرم کردیا ہو اور اگر لڑکی کا
بہنوں میں چوتھا یا پانچواں نمبر ہو تو یہ جیسے ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا
کے مترادف ہوجاتا ہے۔ پھر تو گھر والے کیا آس پڑوس کے لوگ بھی افسوس کرنے
لگتے ہیں۔ ایک لڑکی جیسے جیسے بڑی ہوتی ہے بچپن ہی سے اسے بھائی کی اہمیت
کا ایسا سبق دیا جاتا ہے کہ اس کی اپنی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور اس کی
صلاحیتیں ختم ہونے لگتی ہیں۔ بچی اپنے اور اپنے بھائی کی پرورش میں اس فرق
کو حتیٰ کہ کھانے پینے میں بھی امتیازی سلوک دیکھ کر اور محسوس کر کے بھی
اپنے معصومانہ کھیلوں میں مصروف رہتی ہے اور یہ امتیاز اچھے خاصے پڑھے لکھے
گھرانوں میں ہوتا ہے۔ اس دور کو بڑی ہمت اور بہادری کا سامنا کرتے ہوئے جب
اگلے دور میں لڑکی داخل ہوتی ہے تو یہ وہ دور ہوتا ہے جب معاشرے کے انسان
نما جانور لڑکیوں کو کھلونا سمجھتے ہیں۔ کہیں تو ان کے جذبات سے کھیلا جاتا
ہے اور کہیں گلیوں میں شریف لڑکیوں کو باپردہ ہونے کے باوجود ایسی آوازیں
کسی جاتی ہیں جیسے وہ اس معاشرے کے حصہ نہیں۔ لڑکیوں کی بہادری اور ہمت ہے
کہ وہ بے چاری مستقل مزاجی سے اپنی منزل کی طرف چلے جاتی ہیں کسی سے کچھ
کہے بنا کہیں ان کے گھر والوں کو پتہ چل گیا توگھر والوں کی عزت کا معاملہ
بن جائے گا اور ان کا پڑھنا لکھنا بند ہوجائے گا اور وہ گھر بیٹھ جائیں گی
کہ ہمارے معاشرے کا واحد حل بس یہی ہے کہ مسئلے کا حل نکالے بغیر بس لڑکی
کو گھر بٹھا دیا جائے۔ ایک انتہائی تلخ مرحلہ شادی ہے۔ معاشرے میں اچھی
سمجھدار لڑکیوں کی اکثریت اچھے رشتوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ لڑکے والے
لڑکی کو دیکھنے آتے ہیں تو لگتا ہے وہ بکرا منڈی میں پہنچ گئے ہیں۔ لڑکی کا
ایسے بہ غور جائزہ لیا جاتا ہے کہ بس منہ کھلوا کر دانت دیکھنے کی نوبت رہ
جا تی ہے۔ کہیں لڑکی کا قد چھوٹا لگتا ہے تو کہیں لڑکی موٹی ہوتی ہے، یہ
ناپسندیدگی لڑکی پر کیسے اثرانداز ہوتی ہوگی یہ وہی بہتر سمجھ سکتی ہے پھر
بھی وہ گھر والوں کے کہنے پر اگلی دفعہ کے لئے قربانی کا بکرا بننے کے لئے
تیار ہوجاتی ہے کہ آخر معاشرے میں رہنے کے لئے اسے مرد کے سہارے کی ضرورت
ہوتی ہے۔ شادی کے بعد اچھا سسرال مل گیا تو ٹھیک ورنہ معمولی بات پر خود تو
خود اپنے ماں باپ کو بھی برا بھلہ سننے کے لئے اسے تیار ہونا پڑتا ہے۔ یہ
ہے ایک بہاد ر عورت جو تلوار لیکر میدان میں تو نہیں اتر سکتی مگر اپنے
بلند حوصلے اور اپنی برداشت سے پیدائش سے لیکر بڑھاپے تک کے مشکل ادوار سے
گزرتی ہے پھر بھی وہ مقام حاصل نہیں کرپاتی جو اسے ملنا چائیے۔ اگر بچی کی
پیدائش کو اﷲ کی رحمت سمجھ کر اس کی قدر کی جائے، اس کی اچھی تربیت کی جائے
تو یقینا وہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں لے آئے جس معاشرے کی اس وقت اشد
ضرورت ہے۔ ایک لڑکی نہ صرف اپنی تربیت کرتی ہے بلکہ اس نے پورے خاندان کی
تربیت کرنی ہوتی ہے۔ اس کو محض کھلونا سمجھ کر اس کے جذبات سے نہیں کھیلنا
چاہیے۔ مہذب اور شریعی بنیادوں پر پنپنے والے معاشرے میں عورت کی عزت و
احترام نمایاں ہے۔ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بیٹی،
بہن، بہو، ماں اور ایک عورت کو اس کا کھویا ہوا مقام دیا جائے۔ |