زندگی کیا ہے؟ اس جدید دور میں
حالات و واقعات دیکھتے ہوئے تو یہ معنی سمجھ میں آتے ہیں : بھاگم بھاگ،سفرِ
مسلسل ،فکرِ معاش،سوچِ ادائیگیٔ ذمہ داری،موج مستی کا نام اورعشقِ مجازی۔۔۔
بشر لاپرواہی کی زندگی جئے جا رہے ہیں ۔دوسروں کو نیچا دکھا کربرتری حاصل
کرنے میں لگے ہیں ۔اپنے گریبان میں جھانکنے کی بات نہ کرو ،ہاں مگر دوسرے
پر کیچڑ اچھالنے میں د س قدم آگے بڑھاؤ کی مثالیں جگہ جگہ وضح کر رہے ہیں ۔کام
،کام اور کام کے قول پر مصروف ِ عمل نہیں بلکہ موبائل،تضحیکی پیغامات
بنانے،محترم تاریخی شخصیات کا مذاق اڑانے اور سوشل میڈیا پر نامعقول الفاظ
کا استعمال کر نے میں جتے ہیں ۔سر کجھانے کی فرصت تک نہیں ۔اپنی جان بچانے
کے لئے کسی پر بہتان لگا کراسے سنگین انجام تک پہنچانے کے لئے تگ و دو میں
لگ جانے پر اب دل نہیں ڈرتا ۔مظلوموں کی حق تلفی کر کے خود کے لئے راہیں
آسان کرنے میں آخرت کا خوف نہیں ستاتا۔ذرا سی بات پر پستول نکال کر سامنے
والے پر گولی چلا دینے میں ججھک کہاں ۔غصہ تو نوجوانوکی ناک پر دھرا ہے۔
اپنے ہی جگر گوشوں کو بے دردی اور تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دینے میں
ہاتھ کیوں نہیں کانپتے آخر؟؟افسوس صد افسوس کہ ایسے ایسے دردناک اور دل موہ
لینے والے واقعات سننے کو ملنے لگے ہیں کہ روح تک لرز جاتی ہے ۔مگر کرنے
والوں میں اتنا دم خم،اتنی ہمت اور اس قدر بے خوفی کہ خدا کی پناہ۔۔!
معاشرتی برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں ۔کچھ جنونی انسان جنگلی اعمال کا
مظاہرہ کر کے نڈر مثالیں قائم کر رہے ہیں ۔اور پھرمنفی اثر پکڑنے والے
ذہنوں کے لئے راہیں ہموار کرتے ہیں ۔ایسا کرنے والے مقررہ حدود کو پیروں
تلے روند کر بد تہذیب معاشرہ کی روایت کو جنم دے رہے ہیں ۔اور ایسا کر کے
پتا نہیں کس کی صف میں خود کو کھڑا کرنے کے علمبردار ہیں ۔یہ جانتے بوجتے
کہ ہم لوگ مسلمان ہیں ،ہمارا دین اسلام ہے،ہمیں اس دنیا میں آخرت کی تیاری
کرنی ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا ''یاد رکھو کہ تم آخرت کے لئے پیدا کئے گئے
ہو نہ کہ دنیا کے لئے''۔مگرہم مخالف سمت میں چل رہے ہیں ۔ہر وقت دنیا داری
کے لئے خود کو تیار رکھتے ہیں ۔استطاعت ہو نہ ہودنیا والوں کو خوش کرنے میں
ہی خود کی عزت و بھلائی سمجھتے ہیں ۔بس اک نا معقول سی مزدوری ہے کہ جس میں
سب جتے ہوئے ہیں ۔ دل ہزاروں آسائشوں کے باوجود بھی پر سکون نہیں ۔ایک بے
چینی ہے۔بے اطمینانی کا عالم ہے۔تھک جانے کے باوجود بھی سانس لینے کو
بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا۔پریشانیاں ہیں ۔لاکھوں سوچوں نے دماغ میں گھر کر
رکھا ہے ۔ناراضیاں ہیں اورہزار گلے شکوے ۔خلوص توناپید ہو گیا۔گھر والے ایک
دوسرے کی چغلی میں مصروف ہیں ۔سیاست ،سیاستدانوں کے گھروں سے نکل کر اب عام
آدمی کے دل و دماغ میں دنگا فسا د کے شدید انگارے جلانے لگی ہے ۔بزرگوں کی
فرمانبرداری کو نوجوان نسل نے اپنی مرضیوں کے تابع کر رکھا ہے ۔
آہ! آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔کہیں یہی تو وہ حقیقتیں نہیں کہ
جن کا ذکر اس فرمان میں آیا ہے ،ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے
فرمایا''قیامت اس وقت تک برپا نہ ہو گی جب تک علم اٹھا نہ لیاجا ئے
گا۔بکثرت زلزلے آئیں گے ایک زمانہ دوسرے کے قریب تر ہو گا۔فتنہ و فساد ظاہر
ہوگا۔''ہرج ''میں اضافہ ہو گا ۔ہرج سے مراد قتل ہے۔یہاں تک کہ مال کی
فراوانی ہو گی اس طرح کہ ابل پڑے گا''(بخاری)۔دیکھو اور غور کرو ۔کتنے ملتے
جلتے حالات ہیں ۔علم رکھنے والے جاہلوں والی حرکتیں کرنے لگے ہیں۔ زلزلے
شدت کے ساتھ آنے لگے ہیں ۔مہینوں اور سال کو پر لگ گئے ہیں
۔ذرا ذرا سی بات پر ہر کسی کی تیوری چڑھ جاتی ہے۔
مصروف تھے سب اپنی زندگی کی الجھنوں میں
ذرا سی زمین کیا ہلی،سب کو خدا یاد آ گیا
26 اکتوبر کے اس شدید زلزلے نے سب کو انتہائی خوف و ہراس کی دہلیز پر لا
کھڑا کیا۔سینکڑوں کاموں میں الجھے انسانوں کو کچھ ہی لمحوں میں دنیا کے فکر
چھوڑ کر آخرت کی فکرمیں مبتلا کر دیا۔اسے پاکستان کی تاریخ کا شدید ترین
زلزلہ قرار دیا گیا۔سب کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے آج کا دن زندگی کا آخری
دن ہو۔کیا ہی غضب ناک لمحات تھے۔کس قدر دل دہلا دینے والا واقعہ تھا۔ پیروں
تلے زمین کی تھر تھراہٹ بہت خوفناک تھی۔اسی دوران درختوں پر بیٹھے کووں نے
شور مچاتے چیختے ہوئے یک دم اڑنا شروع کر دیا۔ منظر و حالت ایسی تھی کہ
دیوار میں ایک چیڑ کا نیچے سے اوپر کی طر ف ابھرتے چلے جانا، آنکھوں کے
سامنے چیزوں کاتیزی سے ہلنا اور پھر گر جانا ،کانوں میں عجیب سی گھر گھراہٹ
کا شورسا گونجنا،ٹانگوں میں کپکپاہٹ، دماغ کا اس دوران اور کچھ دیر بعد تک
بھی چکراتے رہنا، جابجا لوگوں کے خوف زدہ چہرے اور کلمہ پڑھتی زبانیں۔ اس
رب نے کیسے پل بھر میں اپنی نشانی دکھا دی۔ تمام بے پرواہ دلوں کو اپنی طرف
پھیر دیا۔لوگوں کے چہروں پر پریشانی کے تاثرات عیاں تھے۔ جو اپنی روز مرہ
مصروفیات میں دن گزار تے ہوئے اور اپنے ہائی سوشل اسٹیٹس کی وجہ سے نماز تک
قائم نہیں کر تے ہوں گے ،کیسے ان کے لبوں پر بھی اﷲ اپنا نام لے آیا۔ جب
زلزلے کے آفٹر شاکس کے بارے میں عوام کو آگاہی دے کر حفاظتی اقدامات رکھنے
کی ہدایت کی گئی تو جیسے پریشانی نے دل و دماغ میں گھر کر لیا ۔اس رات
انسان خود کے بچاؤ کی تدابیر سوچنے لگا۔ اس وجہ سے بہت سے لوگ سو نہیں
پائے۔اپنے پیاروں کو کھونے کا ڈر اور خود کی موت کے خوف کی کشمکش میں مبتلا
رہے۔سوات اور پشاور میں آنے والے آفٹر شاکس کی تعداد 41بتائی جا چکی ہے( اس
تحریر کے لکھنے تک)۔بے شک اﷲ ہر چیز پر قادر ہے۔
اﷲ نے اپنے بندوں کو معافی دینے کے لئے ان کو چھوٹے چھوٹے اور آسان عمل بتا
رکھے ہیں ۔ اب یہ اس بشر کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو دنیاوی جال اور ان بے
تحاشا کاموں کے لپیٹے سے دن میں پانچ بار آزاد کروا کر اﷲ کی بارگاہ میں
سجدہ ریز ہو۔ روزانہ کچھ دیر کو قرآن مجید کی تلاوت ضرور کرے۔جب کسی سے بات
کرے تو پہلے سلام کرے۔ کسی اچھی چیز کی تعریف کرنے لگے توماشا ء اﷲ ضرور
کہے۔کسی کام کے مستقبل میں ہونے سے متعلق بات پر انشا ء اﷲ کے الفاظ ادا
کرے۔اﷲ کا شکر بجا لائے۔ اگر پریشانی نے گھر کر رکھا ہے تب بھی اس کی عطا
کی گئی بے شمار نعمتیں ہیں ناں،سر پر چھت ہے،چار دیواری کا سہار
اہے،پیٹ میں بھوک کی شدت نہیں،پینے کا پانی ہے،گھر میں استعمال کی اشیا ہیں،
سردیوں میں سورج کی حرارت اور گرمیوں میں بارش کی ٹھنڈک ہے،قدرتی مناظر کا
حسن ہے،ملنے ملانے اور دکھ درد بانٹنے کے لئے عزیزہیں ،بیماری نہیں،اولاد
ہے ،سر پر ماں باپ کا سایہ ہے،بہن بھائی ہیں ۔۔بے شمار نعمتیں ہیں ایک نہیں
تو دوسری کئی تو ہیں ناں تو پھر شکر ادا کرنے میں اس قدر لاپرواہی اور
کنجوسی کیوں ؟ شکایت نہ کرودعا کرو،مدد طلب کرواور سب اﷲ پر چھوڑ دو۔ اس کے
گھر دیر ہے اندھیر نہیں ۔اور یہ بات بالکل سچ ہے۔ماں باپ کی خدمت کے بارے
میں اﷲ اور اس کے رسول کے ارشادات تو سن رکھیں ہوں گے تو عمل کرو۔اگر زلز
لے کے دن آپ نے اپنا آخری دن سمجھ کر بہت سے پچھتاووں کو اپنے اردگرد حصار
بناتے محسوس کیا تو دیکھو اﷲ نے تمہیں ان سے باہر نکلنے کا پھر سے وقت دیا
ہے۔اپنوں سے ناراضی مت رکھو۔لڑائی جھگڑوں میں حصہ ڈال کر اس قیمتی وقت کو
ضائع تو مت کرو۔مسکرانا سیکھو۔مسکراہٹیں بکھیرو۔رات کو سوتے وقت عشا کی نما
زادا کر کے قرآنی آیات پڑھ کر سوؤ۔اور ہاں اﷲ کا شکر ادا کر کے سوؤ۔جب صبح
اٹھو تو کلمہ طیبہ پڑھو۔ورزش کرو،صبح کی سیر کر و ۔بس وقت نکالنے کی ضرورت
ہے اوراچھے کام کر کے خود کو ایک اچھا انسان بنانا مشکل نہیں۔اﷲ سے نزدیکی
اختیار کرو۔ سنو ''انسان اس وقت پریشان ہوتا ہے جب وہ وقت سے پہلے اور قسمت
سے زیادہ مانگتا ہے''۔ تو دعا کرتے وقت اﷲ سے شکایت کرنے کے تاثرات لب و
لہجہ میں پیدا مت کرو۔ بے شک اس نے ہر چیز کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے ۔بس
بہتری کی دعا کرو۔کہواﷲ مالک ہے۔خوش رہو اور خوش رہ کر زندگی کو آسان
بناؤ،یہ سوچ کر کہ کل وقت مہلت دے نہ دے۔تو کر لے تو بہ اے غافل اوراپنی
مغفرت کا سامان تیار کر۔۔! |