ٹریفک پولیس حوالدار نے بتایا کہ
پولیس اہلکاروں کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ لوگوں کی مجبوری دیکھ کر ہمیں
بھی ان پر ترس آتا ہے اور ہم ہر کسی کا چالان نہیں کرتے اور اگر کردیں تو
اپنے(آمدنی) سے اسے چالان جمع کرانے کے لئے پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ آئی آئی
چند ریگر روڈ پر ٹریفک کے انتظامات سنبھالنے والے اس پولیس حوالدار نے مزید
کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اہلکاروں نے جس کو روک لیا اس کا چالان
ہونا 99فیصد ممکن ہے۔ میں نے پھر ایک بار حیرت سے پوچھا کہ اگرچے اس کے پاس
تمام چیزیں مکمل ہوں․․․ اس پر انہوں نے کہا اگرچہ سب کچھ ہو مگر چالان کرنا
ہوگا تو ہو جائے گا۔ اس پر انہوں نے بڑی عجیب سی بات بتائی کہ اگر کوئی
ایسا چالان کاٹا جائے جس کے ثبوت اس کے مسافر کے پاس ہوں تو پھر یہ بات
ہمارے لئے پریشان کن ہوسکتی ہے، تاہم ایسے شخص پر اگر پولیس اہلکار چالان
کاٹنے کا سوچ لیں تو پھر اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے اہلکار کے ہاتھ کے اشارے
کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہنستے ہوئے ان کا یہ انداز شفقت چیمہ کے جیسا لگا تھا۔
ہوٹل میں بیٹھے ہوئے اہلکار نے مزید بتایا کہ دن بھر چالان کاٹنے کا ایک
ہدف مکمل کرنا ہوتا ہے ۔ ایک کوٹا پورا کرنا ہوتا ہے جسے پورا کرنا مجبوری
ہوتی ہے، ورنہ افسران بالا مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ کہیں ہم نے لین دین
نہیں کر لیا ہو۔ ٹریفک پولیس اہلکار سے میں نے ایک آخری سوال کیا کہ بچنے
کا حل کیا ہے، تو انہوں نے سادہ سے انداز میں کہا ’’اچھے طریقے سے معذرت کر
لیں اور پولیس اہلکاروں کی عزت و احترام کا خیال رکھیں اور اپنی کوتاہی کو
دور کرکے قانون کی بالا دستی میں اپنا کردار ادا کریں۔
پاس کی مسجد میں نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو گیٹ پر ایک ٹریفک پولیس سب
انسپکٹر سے ملاقات ہوگئی۔ مہندی کے رنگ میں بھیگی ہوئی خوبصورت سنہری داڑھی
والے اہلکار سے کچھ شناسائی سی محسوس ہوئی۔ بات گھومتے پھرتے ٹریفک قوانین
پر آن پہنچی۔ ان سے سوال کیا کہ پولیس اہلکار تنگ کرتے ہیں تو وہ مسکرائے
اور کہا تنگ تو عوام ہمیں کرتی ہے۔ پھر کہنے لگے کتنا وقت لگتا اگر آپ اپنی
گاڑی کو اچھے حالت میں رکھیں اور ساتھ میں ڈرائیونگ لائسنس بھی بنوالیں۔ ان
کی باتوں میں یقینا ایک نصیحت تھی ۔ لائسنس کے حوالے سے وہ گویا ہوئے کہ آپ
کو لرنگ لائسنس ملے گا، جو کہ ایک سال تک ہوتا ہے اس کے سال کے اندر اندر
آپ اپنا لائسنس بنوا لیں۔
ان کی باتیں بھی اپنی جگہ بہت اہم تھیں، جبکہ حوالدار کی باتیں بھی اپنی
جگہ اہمیت کی حامل تھیں۔ روز مرہ کی زندگی میں ناجانے ہمیں کتنی بار باہر
روڈ پر گاڑی نکال کر جانا پڑتا ہے۔ سفر کی مشکلات تو ہوتی ہیں کہ مگر جب
راستے میں کوئی پولیس اہلکار روک کر ہماری گاڑی سے متعلق مختلف مشکل سوالات
کا بوچھاڑ کرتا ہے تو اس مشکل سفر میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ روکنے
والے اہلکاروں کی تعداد شہر قائد میں گزشتہ دنوں کی بانسبت ان دنوں میں
بڑھی ہے۔ وجہ کوئی بھی مگر ایک عام شہری کو ضرور اس تعداد کے بڑھنے سے
پریشانی لاحق ہے۔
ٹریفک پولیس کے سینئر افسر کی بات بھی قابل غور ہے کہ کیا ضرورت ہے قانون
کے رکھوالوں سے پنگا لینے کی ، اپنے کاغذات مکمل اپنے پاس رکھیں اور اپنی
مشکلات کو آسان سے آسان تر بنائیں۔ مگر ایک عام شہری کے ناطے یہ بات بھی
ناقابل برداشت ہے کہ پولیس اہلکار جسے ہاتھ کے اشارے سے روک لے پھر اس شخص
کا بچنا محال ہے کہ وہ یا تو چالان کٹوائے یا پھر مبینہ طور پر اہلکار کے
ہاتھ گرم کرے۔
گزشتہ دنوں میں اپنے داخلے کے سلسلے میں نیشنل ہائی وے کی جانب جانا ہوا۔
کالج کے ایک فرد نے موٹر سائیکل دی تاکہ میں پاس سے فوٹو کاپی کروائی
جاسکے۔ میں موٹر سائیکل لے کر بغیر کاغذات کے جب نکلا تو بھینس کالونی موڑ
پر 8 اہلکاروں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر فوراً روک لیا۔ میں نے اپنا تعارف
بھی کروایا اور اپنی مجبوری سے بھی آگاہ کیا تاہم وہ ٹس سے مس نہیں ہے اور
آخر کار ایک اہلکار نے میرے پاس صحافتی کارڈ دیکھتے ہوئے سیدھا کہا ہمارے
بھی تعلقات صحافیوں سے ہیں، میں نے خوش آمدید کیا تو وہ سیدھے میری جانب
پلٹے اور کہا خرچہ پانی تو دینا پڑے گا۔ ان کی بات سن کرمجھے ایک دوست کی
کہانی یاد آگئی، ایک بار انہیں کسی اہلکار نے روکا تو انہوں نے اپنی جیب سے
50 کا نوٹ نکالا اور ان کے ہاتھ میں تھما کر چلتا بنا۔ میں حیران ہوا کہ جب
سب کچھ مکمل ہے تو یہ کیوں کیا، وہ کہنے لگے میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ
میں ان کو اپنے کاغذات دیکھانے کے باوجود بھی یہ پیسے دے کر جاتا اس لئے چپ
چاپ دیئے اور اپنا وقت بچا لیا۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ اس
اہلکار نے کہا جلدی جو دینے ہیں دیں تاکہ ہمارا وقت بچ سکے۔ میں اپنے وقت
کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ یہاں تو ان کو اپنے وقت کی پڑی ہوئی تھی۔
ایک روز ٹیکسی ڈرائیور کے پاس بیٹھا سفر کر رہا تھا میں نے جب لائسنس کا
پوچھا تو کہنے لگے 19 سال سے کراچی میں گاڑی چلا رہا ہوں آج تک لائسنس نہیں
بنوایا۔ میں حیرت میں اس کی شکل دیکھتا رہے گیا۔ پھر کہنے لگا میں نے بیرون
ملک کچھ ماہ ٹیکسی چلائی مگر وہ اس قدر سختی ہے کہ کچھ بھی غیر قانونی نہیں
ہوتا۔ یہ بات سن کر خود پر افسوس ہوا کہ کیا میں ایسے ملک میں ہوں جہاں کہ
ٹیکسی ڈرائیور 19سال تک بغیر لائسنس کے گاڑی چلا سکتا ہے۔
آخر غلطی کہاں ہورہی ہے۔ یہ بات نہ صرف عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اس بات کو سمجھنا ہوگا۔ وہ کس کو روک
رہے ہیں اور کسے چھوڑ رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کوئی اتنے عرصے تک اپنے
کاغذات مکمل نہیں کرواتا یا تو قانون سے بچ رہا ہے یا قانون اپنا لوہا نہیں
منوا رہا اور جہاں منوانے کی کوشش کر رہا ہے وہاں غریب شہریوں کی بڑی تعداد
پس رہی ہے۔ مذکورہ پولیس سب انسپکٹر نے ایک اور بات بھی بتائی جسے یہاں آخر
میں زکر کرنا ضروری ہے کہ کلفٹن کے علاقے میں ایک اچھے پولیس افسر آئے ہیں
جن کے بعد وہاں کا عملہ پوری دیانت داری سے کام سر انجام دے رہا ہے اس لئے
بہتر ہے وہاں سے اپنا ڈرائیورنگ لائسنس بنوا لیا جائے تاکہ جب آپ کے کاغذات
مکمل ہوں گے تو آپ قانون کو چکما نہیں بلکہ ان کا تعاون کریں گے۔ اسی طرح
لوٹ کھوسٹ میں ملوث اہلکاروں کے بارے میں بھی کوئی مکمل لائحہ عمل طے کیا
جائے تاکہ ہماری پولیس کا معیار بلند اور شفاف ہو سکے۔ |