کیا حق نہ کہوں؟
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
برادر محتر م السلام علیکم ؛
جزاک اﷲ خیرا۔
جناب تو حضرت قائداعظم اور حضرت علامہ اقبال کو پاکستان بدری کا حکم موجودہ
حکومت نے جاری کردیا ہے۔ موئخرالذکر کے یوم ِ پیدائش کی یادگاری تعطیل
وفاقی حکومت نے ایک حکمنامہ جاری کرتے ہوئے منسوخ کردی۔ ہمیں دکھ بھی بہت
ہوا ۔ اور غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ کلام اقبال مومن میں نئی
روح پھونکتا ہے، مسلمان کو خودی دیتا ہے، اسے اس کا مقام بتاتا ہے، دو قومی
نظریہ اجاگر کرتا ہے اور قرآن کی تعلیم دیتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ تمہارے
تہذیب و تمدن سے تم نصاریٰ اورہنود معلوم ہوتے ہو۔ یہود تمہیں دیکھ کر اس
شرماتے ہیں کہ مسلمان کام اپنا ایک تشخص تھا جسکی کڑیاں کہیں کہیں یہود سے
بھی ملتی ہیں ۔انہوں نے اپنا تشخص قائم رکھا ہوا ہے لیکن تم نے چھوڑ دیا۔اس
بات کی منطق سمجھ آگئی جب وزیر اعظم پاکستان جب ہندؤں کے مذہبی تہوار میں
11--11-2015 کو تشریف لے گئے انکی مسرت کی انتہانہ تھی ایسے کوہ قاف کی
وادی میں پریوں کے جمگھٹے کب انہوں نے دیکھے تھے۔ ہندؤں نے بھی وزیر اعظم
صاحب اور انکی جماعت کے دل لبھانے والے سارے انتظامات کررکھے تھے۔ اس مسحور
کن ماحول میں وزیر اعظم اپنا اگلا پچھلا سبھی کچھ بھلاکر کہ بیٹھے کہ یہ
ماحول تو کسی نصیب والے کو ملاکرتا ہے مجھے آئندہ بھی ضرور بلانا۔ یہاں ایک
رکاوٹ انہوں نے محسوس کی کہ مسلمانوں کو ہندؤں کے رنگ سے چڑ ہے تو انہوں نے
اس خدشہ کو دور کردیا کہ رنگ مجھ پر بھی ڈالیں لیکن بلائیں ضرور۔اسی پر بس
نہیں کہا کہ مذہب سے ہٹ کر دل کا رشتہ ہے ۔دل کا رشتہ ٹوٹتا نہیں۔ معلوم
نہیں اس عمر میں کس کو دل دے بیٹھے ہیں۔ ہم کبھی سوچتے تھے کہ میاں نواز
شریف نے آخر بھارت میں شوگر مل کیوں لگائی؟ اب بات سمجھ میں آئی۔ فرہاد
شیری کے لیئے پہاڑ کھود سکتا ہے تو کیا ہمارے وزیر اعظم مل بھی نہیں لگا
سکتے۔انگلستان کے بادشاہ ایڈرورڈ کو عشق پیچھے تخت و تاج سے ہاتھ دھونے پڑے۔
اسکے بعد کچھ سیاستدانوں ،سید خورشید صاحب، وزیر مذہبی امور جناب سردار
محمد یوسف صاحب نے تو حد کردی کہ ہندوو دیگر اقلیتی (ان کی برادری ) کے
تہوار سرکاری سطح پر منائے جائیں گے۔ ہاں جو مزاج یار میں کریں۔ علامہ
اقبال کے یوم پیدائش کی چھٹی بند، شبِ برات اور شب معراج کی ویسے نہیں
ہوتیں، ستائیسویں رمضان المبارک کی رات جاگ کر گذارتے ہیں صبح تعطیل نہیں
ہوتی ، حضرات صحابہ کرام ،امہات المؤمنین رضی اﷲ عنھم کی یاد میں تعطیلات
نہیں ہوسکتیں۔ ظاہر ہے اب دل کے رشتوں سے مجبور ہو کر ہولی، دیوالی، دسہرہ،
بسنت وغیرہ کی تعطیلات کرکے حکمرانوں کو اپنی برادری کو خوش تو رکھنا ہے۔
یہاں تک بات تھی علامہ اقبال کی اب حضرت قائد اعظم کی بات کرتے ہیں وہ بھی
کیا عجیب مسلمان تھے کہ قرآن و سنت کی بات کرتے تھے۔اﷲ کا دیا ان کے پاس
سبھی کچھ تھا ، اولاد نرینہ اپنی تو نہ تھی مگر اﷲ تعالی نے اپنے محبوب ﷺ
کی امت کا ایک خاصا حصہ ان کی فرزندی میں دیدیا۔ عالم یا مفتی تو نہ تھے
مگر اسلام کی روح مکمل طور پر انکے اندر تھی ۔ جب بولتے تھے تو پتہ چلتا
تھا کہ اسلام بول رہا ہے۔ اگرہندو ہم آہنگی کے لائق ہوتے تو قائد اعظم نے
ہزار جتن کیئے کہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے میں متحد رہیں اور ہند تقسیم
نہ مگر ہندو کی متعصبانہ اور عیارانہ چالوں سے وہ معرفت الہی سے سرشار سمجھ
گیا کہ یہ خبیث کبھی نہیں سمجھنے والے تو آپ نے درمیانی راہ چھوڑ صرف مسلم
لیگ کو اختیار فرمایا اور پھر اسی مسلم لیگ کے سٹیج پر حضرت اقبال نے
فرمایا کہ ہم کسی دوسری قوم میں رچ بس کر نہیں رہ سکتے ہمارا تہذیب و تمدن
ہر کام دوسروں سے مختلف ہے۔ تاریخ سے کوئی ثابت کردے کہ مصلحت کے دنوں میں
بھی کبھی حضرت اقبال یا قائد اعظم نے ہولی، دیوالی یادیگر غیر مسلموں کی
تقریبات میں شمولیت فرمائی ہو۔ آج ہمارے سیاسی رہنمابتائیں کہ وہ کس کی
پیروی کررہے ہیں؟ وہ دور تو ہم آہنگی ظاہر کے لیئے زیادہ مناسب تھا۔ لیکن
ایسا نہیں ہوا۔
ہمارے قائدین نے اپنا مسلم تشخص برقرار رکھا۔ ساتھ ہی حضرت قائد اعظم پر یہ
بھی الزام تراشی کی جاتی ہے کہ معاذاﷲ وہ پاکستان کو ایک لادینی ریاست یا
فحاشی کا اڈا بنانا چاہتے تھے۔ (لا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم)ایسے
لوگوں پر مقدمات قائم کیئے جائیں گے۔ جو ہمارے اسلام کے بارے کفریہ باتیں
کرتے ہیں۔ مانکی شریف دربار پر اور دیگر کئی مقامات پر ، بعد قیام پاکستان
کے علما سے فرمایا کہ اب پاکستان میں قرآن وسنت کا قانون نافذ کرو۔ قائد کے
ذہن میں لبرل ازم یعنی موجودہ دور کی فحاشی اور مادر پدر آزادی کا تصور نہ
تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو عشق رسول پر سبھی کچھ نچھاور کرتے تھے، جو رسول اﷲ ﷺ
کا اسم گرامی سنتے ہی رونے لگتے تھے۔ یہی قائداعظم تھے جنہوں نے خبیث گستاخ
رسول راجپال کے قاتل غازی علم الدین شہید کی بھر پور مفت وکالت فرمائی۔ جو
آج کے قانون دان طبقہ کے لیئے روشن چراغ ہے۔ 31 اکتوبر حضرت غازی علم الدین
شہید رحمۃ اﷲ علیہ کا عرس تھا عالم اسلام کے عظیم مفکر شیخ الحدیث علامہ
خادم حسین رضوی برکاتھم العالیہ کا خطاب تھا ۔ میں اتنی راتے جاگنے کا عادی
نہیں لیکن شہید کے مزار کے پاس انواروتجلیات الٰہی کا برساؤ تھا کہ میں نے
پوری توجہ سے ان کا الہامی خطاب سنا۔ لبیک لبیک لبیک یا رسول ﷺ کے نعروں سے
فضائے لاہور گونج رہی تھی۔ پھر مزار شہید پر جب حاضری کا شرف حاصل ہوا تو
وہ پچھترسال پہلے کا منظر سامنے آگیا جہاں علامہ اقبال، سرمحمد شفیع، پیر
سید دیدار علی شاہ، پیر سید جماعت علی شاہ غازی کو جنت کی حوروں کے حوالے
کررہے تھے۔ میرا جسم کپکپا رہا تھا۔ لگتا تھا کہ غازی کہ رہا ہے اپنے رسول
کی حرمت پر میری طرح قربان ہوجایا کرو۔آہ !ایک غازی محمد ممتاز حسین قادری
جس نے غازی علم الدین شہید کی پیروی کرتے ہوئے شاتم رسول کو واصل جہنم کیا
تھا وہ پس زندان کیوں ہے؟ اس مقام پر تحریک پاکستان کے رہنماؤں کا وجود
روحانی بار بار کہ رہاتھا کہ پاکستان بنایا تھا اب قیام پاکستان کے مقاصد
کو امت مسلمہ پورا کرے اور قرآن و سنت کا نظام نافذ کرے۔آمین۔ |
|