رات کا سناٹا ہر ایک چیز
کو گھیرے ہوئے تھا ۔گھپ اندھیرے میں کہیں کہیں بلبوں کی مدھم روشنی ایک
عجیب اداس سا ماحول پیدا کر رہی تھی ۔ قبرستان میں کچھ قبریں پکی جبکہ کچھ
کچی تھی ۔ آئے روز یہاں قبروں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔ہر نئی قبر اگلی
قبر کے لیے جگہ کی کمی کا باعث بنتی جا رہی تھی جس کو گور کن بڑی آسانی سے
لا وارث قبروں کو ملیا میٹ کرکے پورا کر رہے تھے ۔ ایک میت کو آج ہی لایا
گیا تھا ۔یہ ایک ننھا وجود تھا جو کہ بمشکل زندگی کی دس بہاریں ہی دیکھ
پایا ہو گا ۔ نہ جانے کسی بیماری کا شکار ہوا تھا یا کسی حادثے گا ۔ منوں
مٹی تلے اس ننھے جسم کو دبا کر لواحقین اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے و ہ
نہیں جانتے تھے کہ جس عزیزبچے کو وہ یہاں دفنا کر جا رہے ہیں اس کا جسم آج
ہی رات کسی اور انسان کا رات کے کھانے میں تبدل ہو جائے گا ۔ اس بچے کی لاش
کو دو ظالم جوانوں نے نکالا ، اس کے گوشت کو پکایا اور کھا لیا ۔صبح کو جب
اس بچے کے لواحقین دعا کرنے قبر پر آئے تو وہاں قبر کی مٹی کچھ ہٹی ہوئی
تھی ۔کچھ ایسے آثار تھے جیسے قبر کو کھودا گیا ہو ۔کافی پس و پیش کے بعد
فیصلہ ہو ا کہ قبر کو کھولا جائے ۔ جب اس قبر کو دوبارہ سے کھودا گیا تو اس
میں لاش کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔لواحقین کے وہم و گمان میں بھی نہیں
تھا کہ لاش اس طرح غائب بھی ہو سکتی ہے ۔ اس خبر کو قریبی تھانے تک پہنچا
دیا گیا ، رپورٹ درج کروائی گئی ۔ پولیس کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ دو
نوجوان میت کو قبر سے نکال کر کھانے کے جرم میں ملوث ہیں ۔ جب انھیں پکڑا
گیا تو انھوں نے عدالت میں اعتراف کیا کہ وہ اس سے پہلے بھی سو کے قریب
لاشیں پکا کے کھا چکے ہیں ۔کسی بھی میت کی یہ بے حرمتی کسی غیر مسلم یا کسی
یورپ کے ملک کا المیہ نہیں ہے اس المیے کا تعلق ہمارے ملک کے ایک شہربھکر
سے ہے ۔ صرف یہی نہیں گوجرنوالہ کے نواح میں ایک شخص نے مردہ خاتون کا ریپ
کیا ، اس سے پہلے اس طرح کے لوگ نارتھ ناظم آباد، کراچی اور پیر کھوئے شاہ
قبرستان کرم پور میں پکڑے گئے ۔ یہ ایک ایسی روح فرساء داستان ہے جس کو سن
کر اور پڑھ کر روح تک کانپ جاتی ہے ۔ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس میں
کسی نے اپنی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ ظلم کیا ہویا کسی مجبوری کے تحت
ایسا کیا گیا ہو ۔ بلکہ یہ عادی مجرم تھے جو مردہ انسانی گوشت کھانے کے
عادی تھے ۔ مردہ انسانی گوشت کھانے کی سزا میں پہلے بھی پکڑے گئے لیکن کوئی
قانونی ضابطہ اور قانونی شق نہ ہونے کی وجہ سے انھیں قرار واقع سزا نہ ہو
پائی ۔ صرف ایک یہی نہیں اکثر و بیشترخبریں ایسی سننے کو ملتی ہیں ۔ جب کسی
جوان عورت کی میت کے ساتھ ریپ کیا گیا یا کسی مردے کے گوشت سے پیٹ بھرا گیا
۔پہلے پہل صرف کفن کا کپڑا چرا کر بیچا جاتا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
جہاں جرائم میں اضافہ ہو اہے وہاں جرائم کی نوعیت بھی سنگین سے سنگین تر
ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ ملکی آئین میں کسی بھی قسم کے ضابطہ
اخلاق کا نہ ہونا بھی ہے ۔ حفاظتی اقدامات تو ارض ِوطن کے زندہ لوگوں کے
لیے نہیں کیے جا سکے مردوں کے لیے ایسا کوئی اقدام بعید از قیاس ہے تاہم
کسی قانون یا سزاکی موجودگی اس طرح کے واقعات کو کم کرنے کا باعث ضرور بن
سکتی ہے ۔
وجہ کوئی بھی ہو یہ ایک عظیم انسانی المیہ ہے کہ اب مرنے کے بعدکسی کی لاش
تک محفوظ نہیں ۔کوئی نہیں جانتا کہ مرنے کے بعد جب اس کے جسم کو مٹی کے
سپرد کیا جائے گا تو مٹی کے کیڑوں کی غذا بننے سے پہلے کسی انسان کی غذا بن
جائے یا کوئی با پردہ خاتون مرنے کے بعد کسی کی ہوس کا نشانہ بن جائے گی ۔اس
بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ موت کے بعد جسم قبر میں محفوظ رہے گا یا نہیں ۔یہ
ایک ایسا المیہ ہے جس کی جانب کسی کی توجہ کبھی نہیں ہوئی ۔
ہماری ارض ِ وطن کا حال تو بقول شاعر کچھ یوں ہے
اب تو کبھرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
میت کی بے حرمتی چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو کسی بھی مذہب میں قابل ِ
معافی نہیں مبادہ کہ اسلام جیسا پاک اور صاف مذہب ۔ ایسے مجرم کو زندہ رہنے
کا کوئی حق نہیں جس کے شر سے زندہ لوگ تو درکنار مردے بھی محفوظ نہ رہ سکیں
۔ایسے شخص کو تو سرِ عام پھانسی کی سزا دینی چاہیے ۔
نبی پاکﷺ کے زمانہ حیات میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا ۔ اس کی روایت بہت
کم کتابوں میں ملتی ہے ۔ نبی پاک ﷺ کے زمانہ نبوت میں ایک جوان شخص نبی پاک
ﷺ کے پاس آیا اور معافی کی درخواست کی۔نبی پاک ﷺ نے فرمایا ۔ گناہ کتنا ہی
کبیرہ نہ ہو اﷲتعالی ٰ معاف فرمانے والا ہے ۔
اس نے کہا گناہ قبر سے متعلق ہے اور معافی پر تکرار کرنے لگا ۔بار بار
تکرار کرنے پر جب اس سے استفسارکیا گیا تو اس نے بتایا کہ اس نے ایک نوجوان
عورت کی میت کا ریپ کیا ہے ۔ نبی پاک ﷺ نے اس کی جانب توجہ نہ فرمائی اور
اسے وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا اور غصے کا اظہار فرمایا ۔یہاں تک کہ وہ
روتا رہا لیکن اسے معافی نہیں ملی ۔ اس واقع سے یہ ثابت ہوا کہ میت کی ایک
حرمت ہے اور اس حرمت کا احترام واجب ہے اور یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا کوئی
کفارہ ، جس کی کوئی معافی نہیں ہے ۔ جس عمل کو رحمت العالمین ﷺ معاف نہ
فرمائیں اور اس عمل پر برہمی کا اظہار فرمائیں وہ کس حد تک بڑا گناہ ہے اس
کا اندازہ ناممکن ہے ۔ وہ ایسا گناہ کبیرہ ہے جس کو اﷲ بھی معاف نہیں
فرمائے گا کیونکہ اس کے محبوب کی ناراضگی درحقیقت اﷲ کی ناراضگی ہے ۔
قبر سے میت چوری یا میت کی بے حرمتی کے واقعات کو روکنے کے لیے ھکومتی اور
عوامی ہر دو سطح پرضروری اقدامات کیے جانے چاہیں ۔عوام الناس کو اپنی مدد
آپ کے تحت قبرستانوں میں بلب لگانے چاہیں جو کہ ساری رات روشن رکھے جائیں ۔
رات میں روشنی کی موجودگی میت چوروں کو متنبہ کرے گی اور اس طرح کے جرائم
میں کمی واقع ہو گی ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ علاقہ کے چوکیدار کو کہا جائے کہ
وہ قبرستانوں پر بھی نظر رکھے -
جبکہ حکومت کو چاہیے کہ کوئی ایسا ضابطہ قانون وضع کیا جائے جس میں میت کی
بے حرمتی ، یا مردہ انسان کے گوشت کو کھانے کی سخت سے سخت سزا مقرر کی جائے
تاکہ دوسروں کوعبرت حاصل ہو اور کوئی ایسا قبیح فعل کا سوچتے ہوئے بھی
محتاط رہے ۔اس طرح کم از کم مرنے کے بعد تو انسانی جسم محفوظ رہ پائیں گے
اور مردوں کے لواحقین کو یہ یقین ہو گا کہ جس کو انھوں نے دفنایا ہے وہ قبر
میں موجودہے۔ نہ کہ یہ شک ہی رہے کہ قبر میں ان کے عزیز کی لاش موجود بھی
ہے یا نہیں ۔
|