نظام وراثت اور خواتین کی حق تلفی
(Prof Masood Akhtar Hazarvi, )
آج ایک انتہائی اہم سماجی مسئلہ
پر روشنی ڈالنے کا ارادہ ہے اور وہ مسئلہ ہے مسلمان معاشرے میں بہنوں
بیٹیوں کی حق تلفی اور وراثت سے جبرا محرومی کا۔چند ماہ قبل سابق چیف جسٹس
سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس ایس خواجہ نے وراثت کے ایک کیس میں جو ریمارکس
دیے تھے وہ خوش آئند اور قابل توجہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ہمارے معاشرے
کی روایت بنتی جا رہی ہے کہ بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں سے کچھ بھی نہیں دیا
جاتا۔بلکہ انہیں ڈرا دھمکا کر وراثت سے کچھ بھی نہ لینے پر قائل کر لیا
جاتا ہے۔ زمینوں اور جائدادوں سے پیار کرنیوالے بعض اوقات سگی بیٹیوں اور
بہنوں کے وجود تک سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے خواتین کو جو حقوقِ
وراثت عطا کیے ہیں ان سے کوئی انکار کی جرئت نہیں کرسکتا۔ وقت آگیا ہے کہ
بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے‘‘ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس
کا انکار کوئی ذی شعور نہیں کر سکتا۔ ہر انسان دنیا کی زندگی گزارنے کیلئے
کوئی نہ کوئی کاوش اور جد و جہد کرکے مال و اسباب اکٹھا کرتا ہے۔ سوال یہ
ہے کہ بعد از مرگ اس کے زیر ملکیت منقولہ و غیر منقولہ جائداد کو کس طرح
تقسیم کیا جائے؟ اسلام وہ دین ہے جس نے سب سے پہلے مردوں کے ساتھ ساتھ
عورتوں کو بھی وراثت میں حق دار ٹھہرایا۔ حالانکہ اس وقت کے جزیرۃ العرب کے
معروضی حالات عورتوں کے حوالے سے فرسودہ نظریات کے حامل تھے۔ بچیوں کو زندہ
درگور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ ایسے ماحول میں اسلام کے متوازی
نظام اقتصاد کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس سلسلے میں عورتوں کے حقوق کو
مالی تحفظ دیا گیا ۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن بیٹی اور بیوی کے طور وہ
مثالی حقوق دعطا کیے جن کی مثال کسی تہذیب و مذہب میں نہیں ملتی۔ لیکن بد
قسمتی سے ہمارے معاشروں میں ہماری بہن بیٹی عملا ان حقوق سے محروم ہے جن کا
بیاں قرآن کی آیات اور نبیﷺ کے ارشادات میں موجود ہے۔ اسلام عورت کو وراثت
کا حقدار بتاتا ہے جب کہ معاشرہ جبر کر کے ان کے حقوق کو سلب کر رہا ہے۔
دنیا دار تو دنیا دار رہے بڑے بڑے دیندار اور جبہ و دستار کے حامل دیندار
بھی عورتوں کو جائداد میں سے ان کا شرعی حصہ دینے میں کنی کترانے سے باز
نہیں آتے۔ جہیز کے نام پر چند برتن دے کر جائداد سے بہنوں بیٹیوں کو محروم
رکھنے کی روایت ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔یاد رکھیں قرآنی ارشاد کے
مطابق جس طرح زندہ دفنائی گئی بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ کس جرم کی پاداش
میں انہیں زندہ درگور کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح عورتوں کو وراثت کے حق سے
محروم کرنیوالوں سے بھی پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ ظلم کیوں کیا۔ مسلمان کو
قطعا زیب نہیں دیتا کہ عورتوں کو حق وراثت سے محروم کرے۔ ہمارے ہاں صدیوں
سے رواج چلا آرہا ہے کہ بہنوں کو ڈرا دھمکا کر یا بلیک میل کر کے حق وراثت
معاف کروا لیا جاتا ہے۔ یہ معافی دل سے نہیں ہوتی بلکہ بھائیوں اور خاندان
کے دوسرے لوگوں سے سوشل بائکاٹ سے بچنے کی غرض سے ہوتی ہے۔ چاہیے تو یہ کہ
پہلے بہنوں اور بیٹیوں کا جو حصہ بنتا ہے وہ دے دیا جائے۔ بعد ازاں از خود
وہ معاف کردیں یا واپس کردیں تو ان کی مرضی۔ کچھ صورتوں میں شادیوں کے بعد
بہنیں تنگدستی کی وجہ سے انتہائی مشکل کی زندگی گزارتی ہیں لیکن ماں باپ کی
وراثت میں سے ان کے حصے پر قابض بھائی عیش و عشرت کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ
وراثت کا حق وہ حق ہے جو معاف کردینے سے بھی ساقط نہیں ہوتا بلکہ عورت جب
چاہے مطالبہ کر کے لے سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے سے فرسودہ رسم
و رواج کو خو ختم کر کے ہر حقدار کو اس کا حق دلایا جائے۔ سیاسی تنظیمیں
عورتوں کے حقوق وراثت کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں۔ علما ئے کرام محراب و
منبر سے اپنی بہنوں بیٹیوں کے حقوق میراث کی آواز بلند کر کے اپنے حصے کا
قرض چکائیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس بات کو عام کیا جائے کہ عورتوں کو ان
کے شرعی حقوق وراثت سے لازمی حصہ دیا جائے۔ تقسیم میراث میں کوہتاہیاں عام
ہو چکی ہیں۔ کوئی فوت ہو جائے تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تحت بندر بانٹ
کر لیتے ہیں جبکہ شرعی اصولوں کے مطابق تقسیمِ جائداد کو نظر انداز کردیا
جاتا ہے۔ ہرروز اتنی طلاقیں نہیں ہوتیں جتنے کہ لوگ فوت ہوتے ہیں لیکن
مفتیان شرع کے پاس طلاق کے مسائل کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں جبکہ اکا دکا وراثت
کا مسئلہ کوئی پوچھتا ہے کیونکہ اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ کسی کا حق کھانا
حرام ہے۔ اس کی سزا آخرت میں تو ہے ہی لیکن یاد رکھیں ’’زندگی خود بھی
گناہوں کی سزا دیتی ہے‘‘۔ جو لوگ سود، چوری، رشوت اور جھوٹ سے بچتے ہیں۔
یہاں تک کہ کسی کی اجازت کے بغیر ایک الائچی کھانا بھی حرام سمجھتے ہیں۔بد
قسمتی سے وہ بھی جائداد کی تقسیم میں صرف نظر یاکوتاہی کے مرتکب نظر آتے
ہیں۔ لوگ رواج نہیں چھوڑتے مگر شریعت کی پرواہ نہیں کرتے۔ جہیز رواج ہے اس
لیے ضرور دیتے ہیں لیکن وراثت فرض ہونے کے باوجود اس میں سستی اور کاہلی سے
کام لیتے ہیں۔
|
|