انسان کا نفس، اچھے اور برے
اعمال کا مجموعہ ہے ۔ حسد ،کینہ اور بغض جیسی بیماریا ں اسی میں نشو نما
پاتی ہیں۔ اخلاص، محبت اور اخوت جیسی خوبیاں بھی یہیں پروان چڑھتی ہیں۔ظلم
وبربریت کی مثالیں بھی اس نفس امارہ کی کارستانیاں ہیں اور رحمت وشفقت،
صبرو استقلال دریا بھی یہیں سے بہتے ہیں۔ غرض ہر قسم کی برائی اور اچھائی
کی صلاحیت ہمارے نفس میں موجود ہے۔ ہم چاہیں تو ہمیشہ اچھے اعمال میں مصروف
رہیں اور اگر توجہ نہ رہے تو برائی میں مبتلا ہو جائیں۔ اللہ تعالی نے
ہمارے اندر ہراچھائی وبرائی کی طاقت و قوت رکھی ہے۔ یہ طاقت دینے کے بعد اس
نے ہمیں اچھے کام کرنے اور برائیوں سے دور رہنے کاحکم دیاہے۔ یہ ایک امتحان
ہے کہ کوناللہ تعالی کی اتباع کرتاہے اور کون اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے۔
اصلاح نفس یہ ہے کہ انسان برائی چھوڑ کر اللہ عزوجل کی اتباع میں زندگی
گزارنا شروع کردےاور اپنے آپ کو شریعت کا پابند بنا لے۔ہم جانتے ہیں کہ
دنیا ہماری پہلی منزل، قبر ہماری دوسری منزل جبکہ میدانِ محشر کے بعد جنت
یا جہنم ہر شخص کی آخری منزل ہے۔اللہنے آخری منزل کی کامیابی کا دارو
مدار اصلاح نفس پر رکھا ہے چنانچہ رب کریم ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ﴿۹﴾۪ۙ وَقَدْخَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾"بے
شک کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا،اور نامرادوہ ہوا جس نے اسے
معصیت میں مبتلا کیا۔"یعنی جس شخص نے اپنے نفس کی اصلاح کی اور اسے نیکیوں
میں مصروف رکھا تو وہ کامیاب ہو گیااور جس نے نیکیوں کی طرف توجہ نہ دی اور
گناہوں میں پڑا رہا تو وہ ناکام ہوا۔
شاہ کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ و اٰلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:"لمحہ بھر
آخرت کی فکر کرنا ساٹھ سالہ عبادت سے افضل ہے۔"
اصلاحِ نفس کے دو اہم طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان اپنی زندگی کے ہر دن
اور ہر رات کو آخری سمجھتے ہوئے فکرِآخرت میں مگن رہے۔ جیسا کہ حضرت
رابعہ بصریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا معمول تھا کہ جب رات ہوتی اور سب لوگ
سو جاتے تو اپنے آپ سے کہتیں ''اے رابعہ ہوسکتا ہے کہ یہ تیری زندگی کی
آخری رات ہو۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ تجھے کل کا سورج دیکھنا نصیب نہ ہو۔۔۔۔
اُٹھ۔۔۔۔ اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کر، تاکہ کل قیامت کے دن تجھے اپنے رب کے
سامنے ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ سونا مت۔۔۔۔ ہمت کر۔۔۔۔جاگ کر اپنے رب
کی عبادت کر۔۔۔۔'' یہ کہنے کے بعد آپ عبادت کے لیے کھڑی ہو جاتیں اورصبح
ہونے تک عبادت میں مصروف رہتیں ۔ پھر جب فجر کی نماز ادا کر لیتیں تو
دوبارہ دن کی عبادت کے لیے اپنے آپ کو یوں مخاطب فرماتیں:''اے میرے
نفس!تجھے مبارک ہو۔۔۔۔گزشتہ رات تونے بڑی مشقت اٹھائی اور عبادت کی لینے
یاد رکھ۔۔۔ہو سکتا ہے کہ یہ دن تیری زندگی کا آخری دن ہو۔۔۔۔ اس لیے اُٹھ
اور رات کی طرح پھر عبادت میں مصروف ہو جا۔''یہ کہہ کرآپ پھر اٹھ کھڑی
ہوتیں اور عبادت میں مشغول ہو جاتیں۔ شب بیداری کی وجہ سے جب نیند کا غلبہ
ہوتا تو گھر میں اِدھر اُدھرٹہلنا شروع کر دیتیں اور خود سے یہ فرماتیں''اے
رابعہ!یہ بھی کوئی نیند ہے۔۔۔۔بھلا اس نیند کابھی کوئی لطف ہے؟ جس کے بعد
پھر اٹھنا پڑتا ہے۔ اسے چھوڑ۔۔۔۔قبر میں مزے سے لمبی نیند سونا۔ لیکن آج اس
کے لیے تیاری کر لے۔۔ہمت کر۔۔ اپنے رب کو راضی کر لے۔۔''اس طرح کرتے کرتے
آپ نے اپنی عمر کے پچاس برس گزار دئیے۔۔۔۔۔نہ تو کبھی بستر پر دراز ہوئیں
اور نہ ہی کبھی تکیے پر سر رکھا۔یہاں تک کہ اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ
کر دار بقا کی طرف کوچ کرگئیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ برے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے نیک لوگوں کی
ہمنشینی اختیار کی جائے۔شیخ سعدیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ نیک
لوگوں کامیل جول انسان کو نیک بناتا ہے اور برے لوگوں کا میل جول انسان کو
برا بنا دیتا ہے۔نبیِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم نے ارشادفرمایا
ہے کہ"اچھے اور بُرے ہم نشین کی مثال مشک اُٹھانے والا اور بھٹی پھونکنے
والا کی سی ہے۔ جو مشک لیے ہوئے ہے وہ تجھے اس میں سے دے گا یا تو اس سے
خرید لے گا یا تجھے خوشبو پہنچے گی اور بھٹی پھونکنے والا تیرے کپڑے جلادے
گا یا تجھے بری بو پہنچے گی۔۔"بس یوں ہی عطار کی صحبت کی طرح نیک لوگوں کے
پاس بیٹھنے سے فائدہ حاصل ہوتا ہے اور لوہار کی صحبت کی طرح برے لوگوں کی
صحبت سے نقصان پہنچتا ہے۔شیخ سعدی علیہ الرحمہ یوں بھی فرماتے کہ:ایک دِن
حمام میں، ایک دوست سے خوشبو دار مٹی میرے ہاتھ میں آئی۔میں نے اُس مٹی سے
پوچھا کہ تُو مُشک ہے یا عربلکہ میں تیری دِلکش خوشبو سے،میں مست ہو گیا
ہوں۔تجھ مٹی میں یہ خوشبو کہاں سے آئی؟مٹی نے کیا خوب جوادب دیا،فرماتے
ہیں
بگفتا مَن گِلے نا چیز بُودم
ولیکن مُدتے با گُل نشستم
جمالِ ہمنشیں دَر مَن اثر کرد
وگرنہ اِیں ہماں خاکم کہ ہستم
مٹی نے کہا میں توناچیز مٹی ہی ہوں، لیکن کچھ عرصہ پھولوں کی رفاقت میں رہی
ہوں۔۔۔یہ پھولوں کی ہمنشینی،اور جمال کا اثر ہے کہ مجھ سے بھی خوشبوآنے
لگی،ورنہ میں تو بس خاک ہی ہوں۔۔۔۔
بندۂ خدا کی لمحہ بھر کی صحبت انسان کو عروج وکمال کی جن بلندیوں تک
پہنچاتی ہے،انسان ساری زندگی عبادت وریاضت کے کر کے بھی وہاں تک نہیں پہنچ
سکتا ۔یک زمانہ صحبتِ باولیاء۔۔۔۔۔۔بہتر از صدسالہ طاعت بے ریا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کریں۔نیک لوگوں سے میل جول
رکھیں اور برے لوگوں سے دور رہیں۔
ازرشحات قلم
ابنؔ حبیب حقی
|