کراچی میں ٹرانسپورٹ وٹریفک کے مسائل اور ان کا حل

وفاقی حکومت کا گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ کے بارے میں صوبائی حکومت کے مطالبات غیر مناسب ہیں

کراچی ملک کا سب اہم شہر ہونے کے باوجود ہمیشہ حکمرانوں کی عدم توجہ یا عدم دلچسپی کا شکار رہا ہے۔ اس بار وفاقی حکومت نے کراچی میں ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے گرین لائن بس ریپڈ سسٹم ( Green Line Bus Rapid Transit System) کا منصوبہ بنایا ۔ اس منصوبے کا اعلان وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دس جولائی 2014 کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا ۔منصوبے پر صوبائی حکومت نے عمل درآمد شروع کرادیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت شہر میں ایسی بسیں چلائی جائیں گی جو تیز رفتار اور آرا م دہ ہونگی ۔

اس پروجیکٹ پر کام شروع ہونے کے چند روز بعد ہی یعنی نو نومبر کو وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے وفاق سے گرین لائن بس کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا مطالبہ کرکے اپنی مجبوری کا اظہار کردیا ہے ۔ اس بیان سے ہی یہ اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اس عظیم منصوبے کی تکمیل میں تاخیر ہوگی۔ جس کی وجوہات کا اظہار صوبائی حکومت کے سربراہ نے کردیا ہے۔

کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کی جانب سے سڑکوں کو سگنل فری بنانے اور انہیں فلائی اوور و انڈر پاس کے جال میں تبدیل کرنے کے لیے گزشتہ دس سالوں کے دوران کم و بیش ساٹھ ارب روپے خرچ کردیے گئے۔ جس کا مقصد شہر میں ٹریفک کا نظام بہتر بنانا تھا۔ لیکن شہری یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان فلائی اوور ز اور انڈر پاسس کی وجہ سے بھی وہ فوائد حاصل نہ ہوسکے جس کی شہر کو ضرورت تھی اور ہے ۔ٹریفک پولیس کے ڈی آئی جی نے حکومت کو بھیجی گئی رپورٹس میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ سڑکوں کو سگنل فری بنانے اور فلائی ووزاور انڈز پاسس تعمیر کرنے کے لیے ٹریفک پولیس اور ٹریفک کے ماہرین کی رائے نہیں لی گئی ۔ نتیجے میں شہر کے بعض ایسے مقامات پر بھی بالائی اور زیر زمیں گزر گاہیں بنادی گئی جس کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ شہر کی سڑکوں اور ٹریفک کی صورتحال کا جائزہ لینے سے بھی اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ بعض پلوں کی تعمیرسے سرکاری خزانے کوبے جا نقصان پہنچاکر بھاری کمیشن بنانے کے سوا کوئی اور فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ جبکہ شاہراہ فیصل ، شہید ملت روڈ ، راشد منہاس روڈ ،نواب صدیق علی خان روڈ، شاہراہ پاکستان اور شرشاہ سلمان روڈ مجبور شہریوں کے لیے خطرناک ہوگئی ہیں کیونکہ ان سڑکوں کو عبور کرنے کے لیے قریب میں نہ تو کوئی بالائی اور نا ہی زیر زمین گزرگاہیں بنائی گئی ہے ۔ جس سے بزرگ اور بیمار لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔

جائزے سے پتا چلتا ہے کہ یونیورسٹی روڈ ، شاہراہ پاکستان اور راشد منہاس روڈ پر تعمیر کیے گئے پلوں کا کوئی جواز اور ضرورت نہیں تھی ۔ ان میں ابوالحسن اصفہانی اور یونیورسٹی روڈ کے سنگم پر پل ، یونیورسٹی روڈ پر سفاری پارک کے سامنے بالائی گزرگاہ اورعائشہ منزل کا پل قابل ذکر ہے۔

شہری ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹریفک کا مسلہ پہلے ایسا نہیں تھا جس کو بہتر بنانے کے بہانے فلائی اوورز اور انڈر پاسس تعمیر کردیے گئے ۔یہاں کا اصل مسلہ ٹریفک کا نظام بہتر بنانا یا اس نظام کو مینج کرنے کا ہے ۔ ہاں البتہ یہ بات درست ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ ایک بڑا مسلہ ہے ۔ یہ مسلہ بڑی بسوں کے نظام جس کا ذکر بی آ ر ٹی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے سے حل ہوسکتا ہے۔ جبکہ ٹریفک کے نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ماہرین سے مدد حاصل کی جائے ۔

کراچی میں تقریباََ بیس لاکھ گاڑیاں ہیں ۔ان گاڑیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ایک مطالعاتی جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی میں ہر ماہ آٹھارہ ہزار چھ سو بانسٹھ گاڑیوں کو اضافہ ہوتا ہے ۔ ان گاڑیوں میں کاریں ، موٹر سائیکلیں اور دیگر نجی گاڑیاں شامل ہیں ۔ تاہم ان میں بڑی مسافریا پبلک ٹرانسپورٹ شامل نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہی ٹریفک کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے ۔اس مسلے کو نجی مقاصد کے لیے اور انفرادی طور پر استعمال کی جانے والی گاڑیوں کی روک تھام سے کیا جاسکتا ہے ۔دنیا بھر میں گاڑیاں کی خریداری کے لیے جو شرائط نافذ ہیں ان کے نفاذ سے بھی گاڑیوں کی خریداری کے رجحان کو کم کیا جاسکتا ہے ۔گاڑیوں کی خریداری کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کی شرط لازمی قرار دیدی جائے ۔ پاکستان شائد ان ہی چند ممالک میں شام ہیں جہاں کاریں اور موٹرئیکلوں کی خریداری کے لیے ڈرائیونگ لائسنس رکھنے کی شرط نہیں ہے۔ حالانکہ گاڑی ایک ڈرائیور ہی چلاسکتا ہے۔ بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر قسم کی گاڑیاں خریدنے کے لیے ٹیکس ادا کرنے والا ہونا ضروری ہوتا ہے اس مقصد کے لیے گاڑی کی خریداری کے وقت ڈیلر کو ٹیکس گوشوارے دکھانا اور اس کے پاس جمع کرانا بھی لازمی ہے اس کے بغیر گاڑی نہ کوئی خرید سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو فروخت کی جاسکتی ہے۔ اس لیے ٹریفک کو کے مسائل پر فوری قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ گاڑیوں کے خریداروں کے لیے ان شرائط کو پورا کرنے کی پابندی لگائی جائے۔

رہی بات بی آرٹی ٹرانزٹ سسٹم کی اسے ہر صورت میں وقت پر مکمل کیا جانا بلکہ اسے ضرورت کے تحت وسعت دینا بھی ضروری ہے ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165941 views I'm Journalist. .. View More