دسمبر 1954ء میں اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سفارشات پیش کی تھیں کہ تمام ممالک باقاعدہ طور پر
بچوں کا عالمی دن منایا کریں گے، تاکہ دنیا بھر کے بچوں کے مابین بھائی
چارے اور مفاہمت کی فضا ء کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ یہ بھی کہا گیا تھا
کہ رکن ممالک یہ دن منانے کے لئے اپنی سہولت کی خاطر تاریخ کا تعین خود کر
سکیں گے۔ بہت سے ممالک نے یو این او کی سفارشات کا خیرمقدم کیا اور اس وقت
سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن ہر سال 20 نومبر کو منایا
جا تا ہے۔ یوں تواس دن کو منانے کے بے شما ر مقاصد ہیں جن میں بنیادی طور
پر بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بے گھر بچوں کو بھی
دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا اوّل ترجیح ہے۔ اس دن سکول اور تعلیمی
ادارے بچوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لئے خصوصی تقریبات منعقد کرتے
ہیں، اور اساتذہ اپنے شاگردوں میں تحریک پیدا کرتے ہیں کہ وہ سوچیں کہ ان
میں اور دنیا کے دوسرے بچوں میں کیا فرق ہے اور وہ کس طرح خود کو تعلیمی و
سماجی لحاظ سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ خصوصی طور پر ان کی تعلیم صحت تفریح اور
ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور اجاگر کیاجاتا ہے تاکہ ملک بھر کے بچے مستقبل
میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں ۔
اس دن کے منانے پربچوں کی فلاح و بہبودکا عالمی ادارہ یونیسیف بھرپور
کردارادا کرتاآیا ہے۔ اس دن بچوں میں بہتری اور بھلائی کے لئے نت نئے
منصوبے بنائے جاتے ہیں بچوں میں تحائف تقسیم کئے جاتے ہیں ، ان کی ذہنی و
جسمانی صحت کیلئے سوچ بچار کی جاتی ہے اور منصوبے تیار کئے جاتے ہیں اس دن
کی مناسبت سے بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام
سیمینارز،واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔غرضیکہ ان کے
روشن مستقبل کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
پاکستان میں بھی بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی کام ہورہا ہے یا یہ سلسلہ
صرف تقریروں تک ہی محدود رہتا ہے؟کیا ہم بچوں کو ان کی صحت اور تفریح کی
بنیادی سہولتیں مہیا کررہے ہیں؟ کیا ہم چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرتے
ہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہر بچے کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں اوراس وقت تک
لیتے رہیں گے جب تک ان کو بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کی جاتیں۔ ترقی یافتہ
ممالک میں زیر تعلیم بچوں سے مار پیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لیا جاتا کیا
ہمارے ہاں بھی یہی صورت حال ہے؟ ان سوالوں کا جواب ہم سب پر قرض ہے جو ہمیں
دینا ہو گا ہمیں یہ ’’دن‘‘ منا کر خاموش نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ عملی سطح پر
ان بچوں کے لئے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی نئی نسل کے روشن مستقبل
کیلئے کام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے،ہمیں اپنے ملک میں بچوں کو وہ تمام
بنیادی حقوق مہیا کرنے ہوں گے جن سے وہ محروم ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں ،
بچے پھول کی مانند ہیں ان سے محبت سے پیش آناچاہئے، حقیقتاًکیا ہم اس قیمتی
سرمائے کی قدر وقیمت سے واقف ہیں؟ اور ان کے بنیادی حقوق پور ے کر رہے ہیں؟
گھروں، ہوٹلوں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبور اور مظلوم
بچوں سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے ہیں؟ سڑکوں پرگاڑی صاف کرنے، کوڑا کرکٹ
اٹھانے والے اور بھیک مانگنے والے بچو ں کی پڑھائی کی ذمہ داری کس پر عائد
ہوتی ہے……؟ ہر کوئی ان کو دیکھتا ہے اور حسب توفیق بھیک دے کر،گاڑی صاف
کروا کر آگے بڑھ جاتا ہے،یا ان کو دھتکار دیتا ہے گویا ان بچوں کو یکسر نظر
انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت اپنی طرف سے بچوں کی بہتری
کے لئے کام کررہی ہے لیکن کیا ہم بھی بچوں کی بہتر طرز زندگی کے لئے ملک و
معاشرے کی خدمت کررہے ہیں؟ بلاشبہ کسی بھی نظام کو درست کرنافرد واحد کا
کام نہیں ہوتا ۔ یہ درست ہے کہ بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں، اکثر بچے اس
لئے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے کہ سکولوں میں مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے کام
لیاجاتا ہے گو کہ اس پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن دیہی علاقوں اور
سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ
سزا بچوں میں اصلاح پیدا نہیں کرتی بلکہ پڑھائی سے بیزار کرتی ہے۔ بچپن سے
ہی اگر بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یقینا ان کا مستقبل روشن ہوگا اور
اگر بچپن ہی سے مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جائے تو بچوں کی نہ صرف ذہنی جسمانی
نشوونما رک جاتی ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی بھی جاتی رہتی ہے۔ پاکستان میں
اس وقت چھوٹی فیکٹریوں، ہوٹلوں،کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں اور دوسرے
کاروباری مراکز میں بڑی تعداد میں بچوں سے مشقت لی جارہی ہے جو سرا سرظلم
ہے۔ معصوم بچوں سے مشقت کی حوصلہ شکنی کرنا اور چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف
ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف موثر کاروائی عمل میں لانا وقت کی ضرورت ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بچوں کے امور کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر علیحدہ
وزارتیں اور ڈویژن بننا چاہیے جہاں ان کی بہتری کے لئے عملی ا قدامات ا
ٹھائے جائیں، جہاں ان کی فریاد سنی جائے ان کو در پیش مسائل کے حل کوعملی
جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے ان کی راہ میں آنے والی مشکلات کو دور کیا
جائے اوران کی داد رسی کی جائے۔ جبکہ ہمارے ہاں بچوں کے مسائل کے حل میں
صرف صوبائی محتسب پنجاب کا چلڈرن کمپلینٹ آفس اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا
محکمہ قابل تعریف خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ہرسال 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منا تو لیتے ہیں
لیکن عملی سطح پر بچوں کی بہتری کے لئے کوششیں اور کاوشیں نہیں کرتے۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ بچوں میں ایسا شعور اجاگر کیاجائے کہ جس سے بچے شوق سے
تعلیم حاصل کریں ۔ تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں محنت مشقت کرنے والے بچوں کو
پیار سے سمجھایاجائے تاکہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔ جو لوگ
کسی مجبوری کے باعث بچوں کو تعلیم نہیں دلو اسکتے یا معاشی مسائل کے سبب
بچوں سے پر مشقت کام کروانے پر مجبور ہیں ،ان کے بچوں پر خصوصی توجہ دی
جائے اور ان بچوں کو زیور تعلیم سے آرا ستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا مناسب
وظیفہ مقرر کیا جائے۔ بلاشبہ بچے ہی ہمارا سرمایہ افتخار ہیں ، ہمارا آنے
والا کل ہیں، ہماراروشن مستقبل ہیں، ان کی بہترین پرورش میں عدم توجہی
انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔نہ صرف اپنے بلکہ پورے ملک و معاشرے کے
بچوں کی بہتری کے لئے ہم سب کو مل کر اقدامات کرنا ہوں گے۔ |