نبی آخر زماں حضرت محمد مصطفیٰ
ﷺ کی دینی تعلیمات اور عمل میں سب سے زیادہ امتیاز صدقہ و خیرات اور زکواۃ
کو حاصل ہے۔۔۔۔ دین اسلام نے انسانی معاشرے میں توازن پیدا کرنے کیلئے اللہ
تبارک و تعالیٰ کی جانب سے اس احکام کی تکمیل کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔۔
آنحضور ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعدسادات ،اہل بیت اور خلفائے راشدین نےاپنے
دور اقتدار میںاقتصادی اصلاحات میں صدقہ و خیرات اور زکواۃ کے عمل کو نہ
صرف بڑھایا بلکہ اس کی تقسیم کو شفاف اور منصفانہ انداز میں پیش کیا۔۔۔
لیکن بعد کی جب مسلم حکومتیں زوال پزیر ہوئیں تو اسلامی قوانین کے نفاذ پر
بھی اثر پڑا وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی ترویج و تبلیغ کی ذمہ
داریاں صوفیاکرام، مشائخ عظام کے سپرد ہوگئیں ۔۔۔۔ برصضیر پاک و ہند مکمل
طور پر اُس زمانے میں ہندو مذہب کے زیر سائے تھا، ایسے وقت میں حضرت خواجہ
سید معین الدین سنجری عثمانی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو پیر و مرشد حضرت
خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے مدینہ المنورہ حضور اکرم ﷺ کے موجہ
شریف میں حاضرہونے کا حکم دیا۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ موجہ شریف سے
حضرت خواجہ سید معین الدین سنجری عثمانی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو ہندکی
جانب تبلیغ اسلام کیلئے حکم ملا، خواجہ صاحب برصضیر پاک و ہند میں جب داخل
ہوئے تو سب سے پہلے لاہور پہنچے ،یہاں پہنچ کر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت
داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پرچالیس روزکا چلہ
کیا اور آخر میں فیوض و برکات سمیٹ کر اجمیر شریف روانہ ہوگئے اپنی روانگی
سے قبل داتا صاحب سے گزارش کرگئے کہ آپ امت کی بھلائی و خیر کیلئے اپنےفیض
کی بارش عیاں کردیں اور ظاہر ہوجائیں ،آپ رحمۃ اللہ علیہ کی درخواست پر
داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فیوض و برکات کا سلسلہ شروع کیاجو
آج تک قائم ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہیگاانشا اللہ ۔۔۔اُس وقت بھی
ہندوستان میں ہندو مذہب میں چار درجات تھے اورصرف برہمن کے علاوہ دیگر ذات
کے لوگ پستی ، ظلم و ستم، نا انصافی کا شکار ہورہے تھے اور اونچی ذات والے
برہمن اپنی عیش و تعائش کیلئے نچلی ذات کو انسانیت سوز عمل کرنے پر مجبور
کرتے تھے، اس وجہ سے وہاں معاشرے میں بے پناہ برائیاں عروج پر تھیں ،
جادوگر برہمنوں کے ساتھ ملکر کم ذات والے پر اذیت کے پہاڑ کھڑے کردیئے تھے،
ایسے حالات میں خواجہ صاحب نے دین محمدی کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو لوگ
متوجہ نہ ہوئے تو آپ نے ان ہی کے انداز میں پیغام الٰہی اور پیغام محمدی
پہنچانا شروع کیا۔۔۔ دنیا عالم میں دین اسلام کی تبلیغ کو سُر کے ذریعے پیش
کیا گیا جسے قوالی کہتے ہیں۔۔قوالی کے ذریعے معاشرے میں اقتصادی بہتری اور
معاشرتی اصلاح کا پہلو دریافت ہوا۔خواجہ صاحب کے اس نئے اور عظیم انداز سے
مسلم خاندان میں روز گار کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک قائم و دائم
ہے،اس فن قوالی سے اب تک ہزاروں نہیں لاکھوں خاندان ذریعہ معاش کا سبب بنیں
ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔۔ فن قوالی میں خاندان در خاندان کا سلسلہ
نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان کے ساتھ کئی اور ممالک میں بھی یہ سلسلہ جاری
ہے۔۔خواجہ صاحب کے اس عظیم جدت میں کم خرچ بالا نشیں کا زمرہ پورا اترتا ہے
کیونکہ چند میوزک آلات کیساتھ پوری زندگی حمد و ثنا اور منقبت کے کلام پڑھ
کر حاضرین سے داد کی صورت میں نذرانے یعنی سکہ راج الوقت وصول کرتے ہیں جو
ان کے خاندان کی کفایت کیلئے بہتر ثابت ہوتا ہےوہ قوال حضرات جنہیں اللہ نے
خوبصورت آواز نوازا ہے اوروہ بہترین انداز میں پڑھنے سے حاضرین محفل داد
کی صورت میں کافی نذرانے حاصل کرلیتے ہیں، کبھی کبھی تو ان پر نچھاور ہونے
والے نذرانے ہزاروں نہیں لاکھوں تک پہنچ جاتے ہیں بحرحال یہ تاریخی حقیقت
ہے کہ فن قوالی کے موجد خواجہ صاحب ہیں اور ان کے اس ایجاد سے معاشرے میں
بہترین اقتصادی راہداری پیدا ہوئی ہے۔۔۔خواجہ صاحب کو غریب نواز کے لقب سے
اس لیئے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ آپ کے دربار میں کوئی بھی سائل خالی نہیں
جاتا تھا ،آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں صدقہ و خیرات،زکواۃ کے
علاوہ غریب پروری کو اس قدر پھیلایا دیا تھا کہ غریب کو اپنی داد رسی کی
بہترین منزل مل گئی تھی۔۔۔ آپ خود فقیری زندگی گزار کر غریبوں کی مدد کرکے
راحت محسوس کرتے تھے اور اپنے مریدوں کو بھی ہدایت کرتے کہ کوئی غریب سائل
خالی نہ جانے پائے، حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے پاس غریب لوگوں
کیساتھ ساتھ امیر و شرافیہ لوگ بھی اپنی مرادیں پوری کرنے کیلئے تشریف لاتے
تھے اور خواجہ صاحب ان کے حق میں دعا کرتے تھے جس سے اللہ انہیں مایوس نہیں
لوٹاتا تھا، آپ کے آستانے پر مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کا تانتا بھی
بندھا رہتا تھا۔خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد بھی آپ
رحمۃ اللہ علیہ نے فیوض و برکات اور امید رکھنے والوں کو کبھی بھی مایوس
نہیں لوٹایا۔۔خواجہ صاحب کی دوسری اقتصادی اصلاحات میں لنگر ہے۔۔ آپ نے
لنگر کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کو زندہ رکھنے کیلئے کیا کیونکہ آپ ﷺ کے
دربار اقدس میں آنے والے کبھی بھی بھوکے نہیں جاتے تھے جبکہ آپ ﷺ خود کئی
کئی روز تک بھوکے رہتے تھے۔۔برصغیر پاک و ہند میں لنگر کے رجحان کو خواجہ
غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے سے ہوا،خواجہ صاحب کے آستانے پر لنگر
سے ہر شخص مستفید ہوتا تھا جس میں دور دراز سے آئے ہوئے مہمان بھی تھے اور
قرب و جوار رہنے والے بھی۔لنگر کے کھانے پر حضور پاک ﷺ کی سنت کے تحت فاتحہ
خوانی کی جاتی تھی تاکہ رزق میں برکت و فراوانی ہو پھر عوام الناس میں
تقسیم کردیا جاتا تھا یہ سلسلہ دنیا بھر میں آج تک قائم ہے۔۔۔لنگر وہ
اقتصادی اصلاح تھی جس سے لوگ بھیک مانگنے سے محفوظ رہتے اور معاشرے میں
برائی کا عمل بھی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ پیٹ کی آگ کیلئے انسان نہ صرف
گمراہ اور بھٹک سکتا ہے بلکہ اپنی عزت نفس کو بھی مجروح کرسکتا ہے۔ خواجہ
غریب نواز معاشرے کی اصلاح اور بہتری کو خوب سمجھتے تھے اسی بابت انھوں نے
لنگر کا سلسلہ جاری رکھا یہ وہ عظیم عمل ہے جسے ہر صوفیائے کرام ، مشائخ
عظام اور بزرگان دین کی مجلس میں آج بھی قائم ہے۔مزارات اولیا پر سالہاسال
لنگر کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ ہند ہو یا پاکستان یا دنیا بھر میں
کہیں بھی مقدس مسلم شخصیات کے مزارات پر لنگر کا اہتمام بڑی عالیشان طریقے
سے کیا جاتا ہے۔قوالی اور لنگر سے کسی ایک نہیں بلکہ لاکھوں خاندان کا معاش
جاری رہتا ہے جو اگر کوئی ریاست کرنا چاہے تو بہت مشکل ہے لیکن یہ اللہ اور
اس کے حبیب ﷺ کا کرم و فضل ہے کہ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کے کھانے کا
اہتمام لنگر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ ہو یا موجہ شریف یہاں بھی
سالہا سال لنگر تقسیم کیا جاتا ہے بلخصوص رمضان المبارک میں یہ لنگر اپنی
شان رکھتا ہے۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی اقتصادی اصلاح قوالی
اور لنگر سے کئی لوگ معاشی بہتر حالت میں آجاتے ہیں ان میں قصائی گوشت کے
حوالے سے، مصالحہ جات پرچون والے، نان بائی اور خانصامہ اوراس طرح کے کئی
لوگ جو کھانا پکانے میں اپنا اپنا کردار رکھتے ہیں اسی طرح آلات موسیقی
بنانے والے، قوال حضرات کے ساتھ ہمنوا اور اب تو بہت سے شعبے بھی معاشی
فوائد حاصل کررہے ہیں جنکی ایک طویل فہرست ہے۔
وقت ضرورت اس عمل کی ہے کہ گمراہ، بھٹکے ہوئے ، بے عقیدہ لوگوں کو خواجہ
صاحب کی اقتصادی اصلاح کے متعلق سمجھنا چاہیئے تاکہ خواجہ صاحب نے جس انداز
میں شریعت و طریقت کے اطوار بتائے ہیں ان پر عمل کرکے اپنی دنیوی اور اخروی
زندگی کو کامیاب و کامران بنایا جاسکے۔ ۔۔۔۔۔ |