نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

 علم ہردور میں انمول رہا ہے۔یوں تو ہر انسان ہی افضل ہے پر تعلیم و ہنر پرعبور حاصل کرنے والوں نے ہمیشہ عزت و وقار کے بلند درجات پائے ہیں۔آج ہم ہواؤں میں اُڑتے ہیں،سنمدر کی گہریوں میں اُترجاتے ہیں،صحت کے حوالے سے ہونے والی ترقی ہمارے سامنے ہے،کمپیوٹر،انٹرنیٹ،جدید ترین ایٹمی سسٹم اور یگریہ کامیابیاں تعلیم ہی کی بدولت ہے۔اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں پر مشتمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی ، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش ، پیغام ، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت ﷺکی تعلیم یا تعلیمات ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم یا تعلیمات ۔ اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب ، سماجی عوامل و محرکات ، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ ، طریقہ تدریس ، نصاب ، معیار تعلیم ، تاریخ تعلیم ، اساتذہ کی تربیت اور دیگر تعلیمی وتربیتی موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔افسوس کہ آج ہمارا میڈیا اوردیگر محافل میں عشق ،معاشقے پر تو بحث و مباحثے ہوتے ہیں پر تعلیم جیسے اہم موضع کو بہت کم زیر بحث لایا جاتاہے۔ انسان جب زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتاہے تو وہ حقیقت میں انسانی اقدار سے واقف ہوتا ہے۔حیوان اور انسان میں فرق کرنے والی چیز کو علم کہتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کو علم ہی کے ذریعے تمام مخلوقات سے افضل کیا۔علم حاصل کرنا اور لگاتار سیکھنے کی جستجوانسان کو دنیاوآخرت میں کامیابیوں سے ہمکنار کرتاہے۔ ہر دور میں تعلیم یافتہ افراد کودنیا نے قدرکی نظرسے دیکھاہے۔اس کائنات میں انسان نے جو بھی کارنامے سرانجام دیے اُن کے پیچھے علم ہی کا ہاتھ رہا،یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس نے علم کا دامن تھامے رکھا علم نے اُسے کسی نہ کسی طرح امر کردیا۔تعلیم کے بغیر ترقی و عروج کی خواہش بے بنیادہے۔ ملک و ملت،مسلم معاشرے اور افراد کی بقاکے لیے دینی اور دنیاوی تعلیم تربیت لازم ہے۔ تعلیم وہ نسخہ کیمیا ہے جس سے مْردوں کی مسیحائی عمل میں آسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ احادیت میں دین کے ساتھ ساتھ دنیا کی ضروری تعلیمات کے حصول کی افادیت واہمیت کی بہت تاکید کی گئی ہے۔حضرت امام غزالی رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان ہے ’’تعلیم کا مقصد صرف نوجوان نسل کی علمی پیاس بجھانا نہیں بلکہ ساتھ ہی ان میں اخلاقی کردار اور اجتماعی زندگی کے اوصاف نکھارنے کا احساس بھی پیداکرنا ضروری ہے‘‘آج ہم اخلاقی ،معاشی،تعلیمی و دیگر قسم کی پستی اور زوال کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل علم کی عطا کردہ بصیرت اور لذت سے محروم ہے۔ علم کے نتیجے میں نیک و بد اور خوب و ناخوب کی جو تمیز پیدا ہونی چاہئے‘ اس کا فقدان ہے۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ میں فرق کرنا مشکل ہے۔ غرض یہ کہ علم جو اعتماد ،قوت عملی اور اخلاق پیدا کرتاہے ہم اُن سے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نہ آشنا ہیں۔ اس حقیقت کا احساس عام ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم اپنی افادیت کھو چکی ہے اور ہمارے معاشی اور معاشرتی تقاضوں سے تعلیم کاربط و رشتہ باقی نہیں رہا۔ اس طرح معاشرہ اپنی اقدار سمیت شکست کا شکار ہوتاچلاجارہا ہے۔ سنگین حالات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔اس کے علاوہ آج ہمارے معاشرے میں عورت کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی جبکہ حدیث مبارک میں ہے کہ :حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردو عورت) پر فرض ہے۔معلوم ہوا کہ مرد کی طرح عورت پر بھی علم کا حصول فرض ہے۔ایسے معاشرے جس میں خواتین کو تعلیم سے دوررکھا جائے اُس کے مستقبل کے بارے میں علامہ اقبال نے یوں کہا کہ
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

خواتین پردے میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح تک تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ اسلام نے انہیں تعلیم حاصل کرنے سے منع نہیں کیا۔ حدود توڑنے کی صورت میں بغاوت کے زمرے میں آئیں گی۔عورت کے متعلق بات کرتے ہوئے سب حدود اﷲ کی بات کرتے ہیں پریہ بات بہت کم کی جاتی ہے کہ مردوں کیلئے بھی حدود قائم ہیں جیسا کہ عورت پراپنی پاکیزگی کی حفاظت فرض ہے ویسا ہی مردوں کو بھی اپنی نیت اور آنکھ میں حیاء رکھنے کا حکم ہے۔اور پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جن بچیوں کو تعلیم سے دور رکھا جائے وہ عین اسلام یا کسی دوسرے مذہب کی تعلیمات کے عین مطابق زندگی بسرکریں گی؟ایک سوال یہ پیداہوتا ہے کہ جب تعلیم ہی حاصل نہیں ہوگی تو پھر تعلیمات پر عمل کیسا ؟خواتین کا تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ماں کی حیثیت سے انہیں آنے والی نسلوں کی تربیت میں سب سے زیادہ کردار ادا کرنا ہوتاہے۔میڈیاورلڈلائن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں اور شہری علاقوں میں ایک بڑا فرق ہے۔ سروے کے مطابق شہری علاقوں میں 60 فیصدمائیں بنیادی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں صرف 24 فیصد ماوؤں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہے۔خیال رہے کہ سرکاری عدادوشمار کے مطابق پاکستان کی دو تہائی آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے۔ تاہم، حکومتِ پاکستان کی پیشن گوئی ہے کہ شہری آبادی کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مدِ نظر 2030ء تک پاکستان کی آدھی آبادی شہری ہو گی۔ضرورت اس امر کی ہے شہری و دیہی دونوں مقامات پر نظام تعلیم کو بہتر بنایا جائے۔زمانہ اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین بہترین مائیں ثابت ہوتی ہیں جو اپنی اولاد کی بہتر پرورش کر کے معاشرے میں نکھار پیدا کرتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا بہترین قوم کے پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ 2007ء میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام ’’اقوام متحدہ ٹاسک فورس برائے نوجوان خواتین‘‘ (UNAGTF) بنائی گئی تھی۔ اس ٹاسک فورس کا مقصد یہ ہے کہ بچیوں کی شادیاں کم عمری میں نہ ہوں اور انھیں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ ایک سروے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں 60 کروڑ لڑکیاں کم عمری میں شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں۔ جنوبی ایشیا یعنی سارک کے خطہ میں یہ تناسب اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس میں بھارت بھی شامل ہے۔ یو این ایف پی اے، یونیسف سمیت اقوام متحدہ کے چھ ادارے اس ضمن میں کوشاں ہیں۔ اس ٹاسک فورس کا 5 نکاتی پروگرام یہ ہے۔1نوجوان لڑکیوں کو تعلیم کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا۔ 2نوجوان لڑکیوں کے صحت سے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کی تدبیریں کرنا۔ 3نوجوان لڑکیوں کو پرتشدد ماحول سے چھٹکارا دلانے کے لیے جدوجہد کرنا۔ 4نوجوان لڑکیوں میں لیڈرشپ کے مواقع کو بڑھانا۔ 5نوجوان لڑکیوں بارے اعداد و شمار اکھٹے کرنا۔
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564547 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.