سب سے پہلے آخری مغل بادشاہ
بہادر شاہ ظفر کے دستر خوان کا حال ’’ بزم آخر‘‘ کے مصنف منشی فیض الدین کے
قلم سے پڑھیے ۔
’’بیچوں بیچ میں دو گز لمبی، ڈیڑھ گز چکلی، چھ گز اونچی چوکی لگا۔ اس پر
بھی پہلے چمڑا پھر دستر خوان بچھا۔ خاص خوراک کے خوان مہر لگے ہوئے چوکی پر
لگا۔ خاصے کی داروغہ سامنے ہو بیٹھی۔ اس پر بادشاہ کھانا کھائیں گے۔ باقی
دستر خوان پر بیگمات، شہزادے، شہزادیاں، کھانا کھائیں گی۔ لو اب کھانا چنا
جاتا ہے۔‘‘
کچھ کھانوں کے نامـ: چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، بیسنی روٹی، بری روٹی، خمیری
روٹی، نان، شیرمال، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، کلچہ، باقر خانی، بادام کی روٹی،
پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، مصری روٹی، نان پنبہ۔
یہ تو صرف روٹی کی کچھ قسمیں ہیں۔ چلئے آگے دیکھتے ہیں کہ اور کیا کیا ہوتا
تھا: بادام کی نان خطائی، پستے کی نان خطائی، چھوارے کی نان خطائی، یخنی
پلاؤ، موتی پلاؤ، نور محلی پلاؤ، فالسائی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روہیلی پلاؤ،
انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، سالم بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، کش مش
پلاؤ، متنجن، شولہ، کھچڑی، نرگسی پلاؤ، زمردی پلاؤ، لال پلاؤ، زردہ،
زعفرانی سوئیاں، من وسلویٰ، فیزنی، کھیر، یاقوتی، دودھ کا دلمہ، بادام کا
دلمہ، سموسے سلونے میٹھے، کھجلے قتلے، قورمہ، قلیہ، دو پیازہ، ہرن کا قورمہ،
مرغ کا قورمہ، مچھلی، بورانی رائتہ، ککڑی کی دوغ، پنیر کی چٹنی، دہی بڑے،
بینگن کا بھرتا، چنے کی دال کا بھرتا، آلو کا بھرتا، آلو کا دلمہ، کریلوں
کا دلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال۔
کبابوں میں: سیخ کباب، شامی کباب، بٹیر کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب،
نکتی کباب، لوزات کے کباب، خطائی کباب، حسینی کباب، زعفرانی کباب۔ کھانوں
کے ساتھ مربہ، چٹنی، اور اچار بھی ضروری ہیں۔ تو لیجئے کچھ نام: آم کا مربہ،
سیب کا مربہ، انناس کا مربہ، گڑھل کا مربہ، بادام کا مربہ، ککروندے کا مربہ،
اس ہی سب قسموں کے اچار اور کپڑے کا اچار بھی۔ اس کے علاوہ چٹنیاں بھی۔
کھانا کھا لیا تو چلئے کچھ میٹھوں کا ذکر بھی ہوجائے۔ روٹی کا حلوہ، گاجر
کا حلوہ، کدو کا حلوہ، پستے کا حلوہ، رنگتر کا حلوہ، بادام کے نقل، پستے کے
نقل، انگور، آم، جامن، امرود وغیرہ اپنے موسم میں۔ گیہوں کی بالی مٹھائی کی
بنی ہوئی، حلوہ سوہن، حلوہ گری کا، پپڑی کا، گوند ے کا، جنتی کا حلوہ، موتی
چور کے لڈو، مونگ بادام اور پستے کے لڈو، لوزات، مونگ کی، پستے کی، جامن کی،
رنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی، پستہ مغزی، امرتی جلیبی، برفی،
پھینی، قلاقند، موتی پاک، دربہشت، بالو شاہی، اندر سے کی گولیاں، یہ سب
چیزیں قابوں، رکابیوں، پیالیوں اور طشتریوں میں قرینے سے سجی ہوئی ہیں۔
قوموں کی زندگی سے دستر خوان کو خارج نہیں کیا جاسکتا یہ تہذیب ،طرز حیات
اور ترجیحات کاعکاس ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایک آدمی کے دستر خوان پر
روزانہ خوراک کا اتنا بڑا ذخیر ہ ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ کتنا کھا سکتا ہے
؟یہ سارے کھانے بادشاہ کے سامنے اس دور میں پیش کئے جارہے تھے جب ہندوستان
میں مسلمانوں کی حکومت سمٹ سمٹ کر دہلی کے لال قلعے تک محدود ہوتی جارہی
تھی اورپوری مغل سلطنت مغلیہ کھانوں کی رکابی میں ڈھیر ہوتے ہوے دکھائی
دیتی تھی ۔ آئیے! اب ایک دوسرے دورمیں چلتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے
خادم ابو امیہ کہتے ہیں میں نے ایک روز آپ کی اہلیہ سے کہا: مسور کی دال
کھاتے کھاتے میرا برا حال ہوگیا ہے۔ خاتون نے جواب دیا تمہارے خلیفہ کا بھی
روز کاکھانا یہی ہے۔ یہ اس شخص کے دستر خوان کا حال ہے جس کی سلطنت کے حدود
سندھ سے لے کر فرانس تک تین برے اعظموں میں پھیلے ہوے تھے۔ کھانا ہی زندگی
کا مقصد رہ جائیے،مسلمانوں کی یہ تہذیب نہیں ۔البتہ کفار کے بارے میں فرمان
الہی ہے کہ وہ چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں اور جانوروں کی طرح کھا
پی رہے ہیں (سورہ محمد :12)جانوروں کی طرح کھانے پینے کی تفسیر میں ایک
پہلو یہ بھی ہے کہ حیوانوں کو رزق کی قدر کا شعور نہیں ہوتاہے ، اس بنا پر
جب وہ خدا کا دیا ہوا رزق کھاتے ہیں تو ضائع بھی بہت کرتے ہیں۔
رزق کو ضائع ہونے سے بچا لیا جائے تا کہ وہ دوسرے افراد کے کام آسکے ،
جانوروں کی طرح نہ کھانے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے۔ مسلمانوں کو اسی لائف
اسٹائل کی تعلیم دی گئی ہے ،یہ وہ سنہری اصول ہے جس کی بنیاد پر آج پوری
دنیا سے بھوک کا خاتمہ کیا جاسکتاہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کی جانب سے جاری
ہونے والے حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھوک و افلاس کی صورت حا ل
تشویشناک ہے یہاں کی 22 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے جب کہ بھارت
اور بنگلہ دیش کی پوزیشن پاکستان سے بہتر ہے ۔مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان میں
خوراک کی کمی کا مسئلہ ہے ،مسئلہ یہ ہے کہ ہم انسانوں کی طرح نہیں کھا رہے
،ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ صرف ہمارے کچن میں روزانہ کتنی خوراک ضائع
ہوجاتی ہے۔ یہی حال پوری دنیا کا ہے ،اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خورک و
زراعت کے تخمینے کے مطابق سالانہ ایک ارب بتیس کروڑ ٹن خوراک ضائع کردی
جاتی ہے،جو دو ارب بھوکوں کا پیٹ بھر سکتی ہے ،مگر رزق کے ضیاع کے باعث ہر
چار سیکنڈ میں ایک انسان بھوک کی وجہ سے موت کا لقمہ بن جاتا ہے بھوک کا
مسئلہ خطرناک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے ،اس کا حل انتہائی سادہ اور
آسان ہے کہ ہم کسی بھی صورت رزق کو ضائع نہ ہونے دیں ،وگرنہ رزق کی ناقدری
کے نتیجے میں تو شہنشاہ عالم کہلانے والوں کے نصیب میں بھی غلامی اور بے
وطنی لکھ دی جاتی ہے ۔ |