دنیا کے 10 بڑے شہروں میں ہمارے
شہر قائد کا شمار بھی ہوتا ہے۔ شہر قائد ،کراچی اقوامتحدہ کے 200سے زائد
اراکین ممالک میں متعدد ممالک سے بڑا نہ صرف رقبے کے لحاظ سے ہے بلکہ آبادی
کے تناسب میں بھی اس جیسے کئی ممالک نہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد شہر قائد
دارلخلافہ تھا تاہم کچھ وقت کے بعد اسلام آباد کو شہر قائد کی جگہ
دارلخلافت کے اعزاز سے نواز دیا گیا۔شہر قائد آبادی اور رقبے کے لحاظ سے
بڑا ہونے کے سبب پورے ملک کو70 فیصد سے معاش (ریونیو) دیتا ہے۔ ملک کی واحد
بندرگاہ کے سبب تاجر برادی کی اکثریت بھی اپنے کاروباروں کو یہیں سے آگے کی
جانب بڑھا رہے ہیں۔ آبادی اور رقبے کے سبب شہر میں قائم سڑکیں کسی حد تک
انہیں استعمال کرنے والوں کی ضروریات کو پورا کر رہی ہیں تاہم ہر گذرتے
لمحوں کے ساتھ یہ شاہراہیں محدود ہوتی جارہی ہیں۔ تعطیلات سمیت عام ایام
میں ہفتہ و اتوار کو بڑی اور مصروف شاہراہوں سمیت دیگر عا م شاہراہیں ٹریفک
مسائل کو جھیلتی ہیں۔ خصوصا صبح اور دوپہر اور شام کے اوقات میں ان سڑکوں
پر اس قدرٹریفک بڑھ جاتا ہے کہ شاہراہیں اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ نظر آتی
ہیں۔ منٹوں نہیں اب تو یہ صورتحا کئی کئی گھنٹوں پر محیط ہوجاتی ہے۔ جس کی
وجہ سے متعدد مسائل اب روز کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ برسوں قبل اک مقامی
اخبار کی اک تحریر اس وقت یا د آرہی ہے جس میں ماڑی پور کے قریب واقع بس
اور وزن والی ٹریفک کا اڈہ قائم ہے وہاں ایک ایمبولینس اپنی چیخ و پکار کے
باوجود ٹریفک میں پھنسی ہوئی تھی اور اسے موجود مریضہ کو کسی ہسپتال تک لے
جانے میں شدید رکاوٹ کا سامنا کر نا پڑرہا تھا لیکن سائلنسر بجائے جانے کے
باوجود اسے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا اور پھر اسی ایمبولینس میں
موجود مریضہ کے ہاتھ ایک اولاد کی پیدائش ہوئی ، ٹریفک جام اس واقعے کی ذمہ
دار تھی لیکن اس وقت کی حکومت سمیت مرکزی حکومت تک نے اس معاملے پر کسی
دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی
ٹھوس اقدامات کئے۔صوبائی وزیر ہوں یا مرکزی صوبائی وزیر اعلی ہوں یا مرکزی
وزیر اعظم انہیں ٹریفک کے جام ہونے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے
مسائل کا علم تو کیا شبہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ انہیں ہمیشہ ٹریفک کھلی اور
چلتی ہوئی ملتی ہے، انہیں وی آئی پی پروٹوکول کے ذریعے ٹریفک جام کا احساس
نہیں ہونے دیا جاتا۔اس احساس سے بچانے کیلئے محکمہ ٹریفک اور قانون
نافذکرنے والے دیگر ادارے ان کیلئے باقی سڑکوں کو بند کر دیتی ہے اور یہ
بندش اس وقت تک رہتی ہے جب تک وی آئی پیز کا گذر ہو نہیں جاتا۔ مختلف سگنلز
اور چوہراہوں پر بھی ٹریفک کا جام ہونا اب معمول بن چکا ہے ، ٹریفک کے ان
مسائل کر حل کرنااور انہیں ٹریفک کو رواں رکھنے کیلئے اپنے فرئض کو احسن
انداز میں پورا ٹریفک اہلکار اس وقت کرتے ہیں جب انہیں اس بات کا علم ہوتا
ہے کہ کوئی وی آی پی عمل ہونا والا ہے یا اس عمل کا وقت قریب ہے۔ اس سمعے
وہ بڑی مستعدی سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں اس کے علاوہ وہ سڑک کے کسی
کونے پر تنہا یا دیگر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے گپیں لگانے میں مصروف ہوتے
ہیں۔ٹریفک جام کے ساتھ ساتھ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کی بھی کمی ہوتی
جارہی ہے۔ اپنے راستے کیلئے اور اپنی آسانی کیلئے غلط انداز میں ٹریفک
راستوں کا ستعمال تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے ۔ گلی کوچوں کی چھوٹی سڑکوں
کے علاوہ بڑی شاہراہوں تک پر غلط ٹریفک رواں ہوتی ہے اور انہیں ان کی غلطی
کا احساس نہ خود ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی احساس دلاتا ہے ۔ اس عمل کے ذریعے
بھی حادثات رونما ہونے کے ساتھ معمول بنتے جارہے ہیں۔ شہر قائد میں حکومت
نے کچھ روز قبل لائسنس کو لازمی قرار دیتے ہوئے اس کی جانچ پڑتال اور
موجودگی کو دیکھنے کیلئے جو وقت دیا تھا اس کا خاتمہ جس روز ہوا اس کے بعد
ٹریفک اہلکاروں نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر نہایت سخت انداز میں اس
فریضے کو سرانجام دینے کی کوشش کی ۔ یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ شہر قائد
میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو کہ بغیر لائسنس کے اپنی موٹر سائکل اور گاڑیا
ں سڑکوں پر چلا رہے ہوتے ہیں۔اس بات کو باعمل بنانے کیلئے ابتداء ہی میں
اقدامدات ازحد ضروری ہیں کہ بغیر لائسنس کے گاڑی نہیں چلانی چایہیں اس عمل
کے مثبت نتائج وقت گذرنے کے ساتھ نمودار ہونگے۔ اس کے ساتھ ہی ٹریفک قوانین
پر عملدرآمد کو بھی احساس اور معمولات نئے چلانے کو ابتداٗ میں سکھائے ور
سمجھانے چا یہیں تاکہ وہ جب بڑی شاہراہ پر اپنی گاڑی رواں کریں تو ٹریفک
قوانیں پر عمل پیرا ہوں اس کے نتیجے میں وہ نہ صرف خود حادثات سے بچے گے
بلکہ دوسروں کو بھی بچائیں گے۔ ان کی اپنی زندگی کے ساتھ دوسروں کی زندگی
بھی مخفوظ رہے گی۔ ان حالات بھی ضروری امر یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے اس
شعبے سے متعلق محکمے اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کرتے ہوئے
ٹریفک کی غلط روانی کو روکنے کیلئے اپنا کردار احسن اندازمیں پورا کریں۔
شہر قائد کے وہ تمام باسی بھی جو گاڑی چلاتے ہیں ، نہیں چلاتے ہیں سڑک عبور
کرتے ہیں ان پر سفر کرتے ہیں وہ بھی اپنی ذمہ داری کااحساس کریں اور شہر
قائد کی شان کو بڑھانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ، جب شہر قائد کے باسی
ٹریفک قوانیں پر سختی سے عمل پیرا ہوں گے تو اس کا مثبت اثر ملک میں جامع
انداز میں مرتب ہوگا۔ لہذا آج ہی سے یہ طے کرلیں کہ غلط انداز میں اپنی
گاڑی نہیں چلانی ہے سگنلز کا احترام اور ان پر عمل کرنا ہے پیدل چلنے والوں
کا احساس کرتے ہوئے ان کا خیال رکھنا ہے ، رانگ وے کو بالکل استعمال نہیں
کرنا ہے ، ہر ممکن کوشش کرنی ہے کہ اپنی ذات سے دوسروں کو نقصان پہنچائے
بغیر ان کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہے ، جب ہم دوسروں کیلئے یہ جذبات رکھیں
گے تو اس کائنات کا خالق اور مالک ہمارے لئے بھی اچھا ئی کریگا آسانیاں
دینے کے ساتھ کامیابی عطا کرئے گا۔ ان شاء اﷲ۔
(نظر ثانی و ترتیب میر افسر امان) |