طلبہ اوربچوں کا یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ بڑے،اساتذہ اوروالدین ان سے
پیار کرتے ہیں،طالب علم اور عام بچے کوتعریف،تشجیع اور حوصلہ افزائی کے
ذریعے سے اپنا پیاردکھایا بھی جاسکتاہے ۔ حوصلہ افزائی ملنے سےانسان کو
سہارا ملتا ہے اور یقین ملتا ہے کہ وہ مستقبل میں نئے چیلنجز کاسامنا کر
پائے گا۔ صلاحیتوں کو تعریف اور حوصلہ افزائی کے ذریعے سکھانا ایک عمدہ
اوراچھا طریقہ ہے۔ اکثروبیشتر بچے وہ کام زیادہ کرتے ہیں جس سے انہیں بڑوں
کی طرف سے توجہ ملے ۔اساتذہ اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ بچے کی
مثبت رویہ کی طرف متوجہ کریں ۔ تعریف اور حوصلہ افزائی سے بچہ زیادہ اچھا
رویہ اختیار کرے گا۔ خود اعتمادی پختہ ہوگی ،والدین واساتذہ اور بچوں کے
درمیان رابطہ بہتر ہوگا ، ادارے اورگھر کا ماحول بہتر ہوگا،بچہ سیکھنے اور
اچھے تعلق کےلئے آسانی سے آمادہ بھی ہوگا۔ زیادہ تعریف اور حوصلہ افزائی
بھی نقصان دہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اس ہمت دلانے والی تعریف اور حوصلہ افزائی
کے کوئی منفی پہلو نہیں ہیں ۔ تربیت کی دنیا میں بد دعائیں،حوصلہ شکنی، طعن
وتشنیع اور برے القاب زہرِ قاتل ہیں۔ایسی صورت میں ذہین طلبہ اور بچے خود
اپنے آپ کو ہمت،شاباشی اور حوصلہ دیا کریں،جاہل اور ضدی لوگوں سے داد لئے
بغیراپنی تقدیر خود لکھیں۔
اس لئے کہ بہترین مستقبل کی طلب میں ہر روز ہم سب کو کچھ چیزوں کا انتخاب
کرنا ہوتا ہے اور ہر انتخاب کے نتائج حاصل کرنے کی راہیں بھی تلاش کرنی
پڑتی ہیں. گوکہ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں پہلے سے کچھ بتانے یا پیشین
گوئی کرنے کے قابل تو نہیں ہیں، مگر ہم فوری طور پر اور بالواسطہ طور پر
بھی یہ تاثر لے سکتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہو گا.یا ہمارا مستقبل کیسے
ہوگا، مثال کے طور پر اگر میں پیاسا ہوں اور پانی ایک گلاس میں میرے سامنے
رکھا ہوا ہے،تو میں دماغی طور پر گلاس پکڑنے کی کوشش کروں گا اس سے پہلے کہ
میں جسمانی طور پر آگے بڑھ کر گلاس اپنے ہاتھ میں پکڑ لوں. اس لیے ایک طرح
سے میں نے اپنے مستقبل کی پیشین گوئی خود ہی اپنے عمل سےکر دی، گویا خود سے
ہمت وحوصلہ کرکے بس ہاتھ بڑھانے کی دیر تھی۔
کیونکہ ہرانسان کو یہ صلاحیت حاصل ہے کہ وہ ماضی، حال اور مستقبل کے بارے
میں سوچ سکتا ہے اور اسی خوبی نے انسان کو اس قابل بنایا کہ وہ دیگر
حیوانات کے مقابلے میں اپنے لئے بہتر منصوبہ بندی کرنے کے قابل ہو.یہ ایک
زبردست صلاحیت ہے بشرطیکہ اسے اچھی طرح استعمال کیا جائے،یہ ہمیں اس قابل
بناتی ہے کہ ہم ماضی سے سیکھ کر اچھا مستقبل بنائیں.وحید الدین خان کہتے
ہیں:‘‘مستقبل کی کامیاب منصوبہ بندی وہ شخص کرسکتاہے کہ جو اپنے ماضی کا بے
لاگ تجزیہ کرسکتا ہو،پھر اس منصوبہ بندی میں کامل کامیابی تب ملے گی جب اس
کے مخالفین اور حوصلہ شکنی کرنے والو کو اس کی بھنک تک نہ پڑے،یعنی اس کے
منصوبے قبل ازوقت طشت از بام نہ ہوں’’۔ اگر شاباشی اور حوصلہ افزائی
ہو،تودنیا میں پیغمبروںؑ کے علاوہ جتنے بڑے لوگ گزرے ہیں ہم بھی ان کے مقام
کو حاصل کرسکتے ہیں، اور ہمیں اس کے لئےمحنت کرنی چاہیئے،بد قسمتی سے بہت
سے لوگ اپنے ماضی کی سوچوں میں کچھ زیادہ ہی گم ہوجا تے ہیں،ماضی کے
بکھیڑوں میں پھنسے رہتے ہیں،دل ہی دل میں بات کا بتنگڑ بنائے رکھتے ہیں، یا
پھر مستقبل کے بارے میں خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں چنانچہ ایسے لوگ خاص
مواقع پر اپنے شایانِ شان حال میں رہنے کے قابل نہیں رہتے،یہ عقلمندی نہیں
ہے،بلکہ انتہائی غلط اور لغو کام ہے،اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں برق رفتارٹیکنالوجی ہے اور لوگوں کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ
ہم ان کو مزاح اور خوشی مھیأ کریں،مگربہت سے خلفشار اور رکاوٹیں ہوتی ہیں
جو ہم عام زندگی میں دیکھتے رہتے ہیں اورپھرحوصلہ افزائی کرنے میں بخیل اور
کنجوس بعض لوگوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنی منزل اور خوابوں کو حاصل
کرنے سے محروم رہیں،اسی لئےلاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اپنی پوری زندگی خوابوں
کے سہارے ہی گزار دیتے ہیں، جب کہ وہ حقیقی معنوں میں ان کے حصول کی کوشش
بھی نہیں کرتے اور وجہ وہی خلفشار اور اندر کے خیالات، کہ شاید یہ نا ممکن
ہے ہمارے لیے،یا بہت ہی مشکل کام ہے، جسے ہم سر انجام نہیں دے سکتے.
کامیابی اور خوشی حاصل کرنے کا پہلا قدم تو یہ ہے کہ حوصلہ مند بن کر خود
پر اعتماد کیا جائے.ناممکن اور مشکل کو اپنی ڈکشنری سے نکال دیاجائے، یوں
جب آپ اپنے پر اعتماد کرنا سیکھ لیں گے تو نہ صرف آپ غیر معمولی طور پر
اپنی منزل پا سکیں گے بلکہ آپ کا اعتماد دوسروں کو بھی سبق دے گا جس سے وہ
بھی آپ پر اعتماد کر لیں گے اور آپ کو اپنا رول ماڈل بنادینگے.
دوسروں یا بالفاظِ دیگر بڑوں کی حوصلہ افزائی اورخود میں اعتماد کامیابی
حاصل کرنے کے لیے دو بہت اہم چابیاں ہیں اور ان میں مزید نکھارآسکتا ہے اگر
اس میں جذبہ بھی شامل ہو جائے،لہذاجب آپ جذبے سے کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں
تو آپ مصروف رہتے ہیں اور پھر آپ کومنتشرخیالات تنگ نہیں کر سکتے. وہ کام
کریں جو آپ کو خوشی دے اور غالب گمان ہے کہ آپ اس میں کامیاب بھی ہوجائنگے.
مثال کے طور پر آپ ایسا کام کر رہے ہیں جو آپ کو پسند نہیں مگر آپ کو اچھی
تنخواہ مل رہی ہے تو حوصلہ مند لوگ چاہیں گے کہ یہ کام نہ کرے بلکہ ایسا
کام تلاش کریں کہ جس میں تنخواہ بھلے تھوڑی ہومگر کام وہ ہو جو اُن کو اچھا
لگے، اُن کے مزاج سے میل اور مناسبت رکھتاہو. اس طرح کرنے سے آپ پر بوجھ کم
ہو گا جس سے آپ کی زندگی اور خوشی لمبی ہو گی اور اس سے آپ کو بڑی توانائی
بھی ملے گی کہ آپ اپنے کام کو محنت اور لگن سے سر انجام دے رہے ہیں،نیزرفتہ
رفتہ آپ اپنے میدان اور فیلڈ میں تخلیقات وایجادات پر آجائیں گے،مستقل
مزاجی کے ساتھ جُتے رہنے سےآپ ایک تاریخی کردار بن جائیں گے اور ایک دنیا
آپ کی قائل ہوجائی گی۔
‘‘یاد رکھیئے،سچی خوشی دولت اور کامیابی سے نہیں ملا کرتی، سچی خوشی صرف
اپنے اندر ہوتی ہے،زندہ رہنا ہی ایک سچی خوشی ہے،ہر لمحہ، ہر سانس، ہر
دھڑکن، آواز، خیالات یا محسوسات،یہ سب چیزیں مرکب بن کر حیران کن دنیا اور
خوبصورتی کو یکجا کرتی ہیں. دولت، وقت اور کامیابی وہ خلفشار ہیں جو کہ
خوشیوں سے دور کر دیتے ہیں، یہ اسباب عارضی خوشی تو لا سکتےہیں مگر خوشی تو
لا متناہی چیز ہے اور اس کا مادیت سے کوئی تعلق نہیں ہے.خوشی کا صحیح اور
گہرا تعلق دل سے ہے، اپنی حوصلہ افزائی کریں اور ساتھ ساتھ کھل کردوسروں کی
بھی ہمت بڑھائیں. یہ آپ کو لا محدود مواقع والی زندگی کی طرف لے جائے گی
اور ہر میدان میں کامیابی کی طرف بھی آپ کی رہنمائی کریگی- خود سے اور
دوسروں سے محبّت کریں،یہی بذات خود زندگی ہے.ایسی صورت میں اگر آپ کہیں
کھوبھی گئے ہیں تو فکر نہ کریں،آپ کو جلد ڈھونڈھ لیا جائے گا،بس آپ اپنے
جذبات،اپنی افتادِطبع،اپنے اہداف ومقاصد اوراپنی ترجیحات پہچانیں اور
استقامت کے ساتھ اپنے خواب پورے کرنے کی انتھک کوشش کریں، اپنی زندگی کو ہر
لمحہ جیئیں اور خوشی خوشی جیئیں.’’ (سٹیون کارپینٹر) ۔
حالیہ20نومبرکوہمت وحوصلے سے مالامال ایک ادارے کے سالانہ پروگرام مین
بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت کا موقع ملا،مذکورہ گزارشات وہیں پر اپنے میں خطاب
مین کیں،e4english کےروح ِ رواں سر اویس جیسےحوصلہ افزائی کرنے والوں کے
لئے نوجوانوں اور میدان میں تن من دہن لگانے والوں کی طرف سے ایک شعر:
تونے مجھ کو کیا سے کیا شوقِ فراواں کردیا
پہلے جاں،پھر جانِ جاں،پھر جانِ جاناں کردیا |